اسرائیل، حماس نے غزہ امن منصوبے کے پہلے مرحلے پر دستخط کر دیے
اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 اکتوبر 2025ء) یہ اعلان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب حماس اور اسرائیلی حکام مصر میں بالواسطہ بات چیت کر رہے ہیں۔ یہ بات چیت ٹرمپ کے پیش کردہ 20 نکاتی امن منصوبے کے بارے میں ہو رہی ہے، جس کا مقصد دو سال سے جاری جنگ کا خاتمہ ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اس امن منصوبے سے متفق ہونے کا مطلب ہے کہ تمام یرغمالی بہت جلد رہا ہو جائیں گے اور اسرائیل ابتدائی طور پر فوجیں ایک متفقہ لائن تک واپس بلا لے گا، تاکہ ایک مضبوط، پائیدار اور دائمی امن کی بنیاد رکھی جا سکے۔
ٹرمپ نے کہا، ''تمام فریقین کے ساتھ منصفانہ سلوک کیا جائے گا۔ یہ عرب اور مسلم دنیا، اسرائیل، تمام ہمسایہ ممالک اور امریکہ کے لیے ایک عظیم دن ہے، اور ہم قطر، مصر اور ترکی کے ثالثوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے ہمارے ساتھ مل کر اس تاریخی اور بے مثال موقع کو ممکن بنایا۔
(جاری ہے)
‘‘ ٹرمپ نے بائبل کے ایک اہم حصے سے لیے گئے ایک جملے کو دہراتے ہوئے کہا،''صلح کروانے والے یا امن قائم کرنے والے بابرکت ہوتے ہیں !‘‘
خیال رہے کہ حماس کے پاس اس وقت 48 اسرائیلی یرغمالی ہیں، جنہیں 7 اکتوبر کے دہشت گردانہ حملوں میں اغوا کیا گیا تھا۔
ان میں سے نصف سے بھی کم کے زندہ ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ یہ اعلان فلسطینیوں کے لیے بھی دو سال سے زیادہ عرصے کی جنگ کے بعد سکون کا باعث ہو سکتا ہے۔
اسرائیل کا ردِعملاسرائیلی وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو نے اس معاہدے کو 'اسرائیل کے لیے ایک عظیم دن‘ قرار دیا، ’’خدا کی مدد سے ہم تمام یرغمالیوں کو واپس لائیں گے۔
کل میں حکومتی اہلکاروں کو جمع کروں گا تاکہ معاہدے کی منظوری دی جا سکے اور اپنے پیارے یرغمالیوں کو واپس گھر لایا جا سکے۔ میں بہادر آئی ڈی ایف فوجیوں اور تمام سکیورٹی فورسز کا شکریہ ادا کرتا ہوں، انہی کی قربانیوں کی وجہ سے ہم آج کے دن تک پہنچے ہیں۔‘‘اسرائیل کے صدر آئزک ہرزوگ نے کہا، ''اسرائیل کا دل یرغمالیوں اور ان کے خاندانوں کے ساتھ ساتھ دھڑکتا ہے۔
‘‘ حماس نے معاہدے کی تصدیق کردیحماس نے اعلان کیا کہ اس نے ایک ایسا معاہدہ کر لیا ہے، جس کے تحت غزہ کی جنگ ختم ہو گی۔ فلسطینی گروہ نے اپنے بیان میں کہا، ''ہم نے ایک ایسا معاہدہ کر لیا ہے جس کے مطابق غزہ کی جنگ ختم ہو گی، قبضہ ختم ہو گا، انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر امداد داخل ہو گی اور قیدیوں کا تبادلہ ہو گا۔‘‘
حماس نے ٹرمپ اور ثالثی کرنے والے ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ اسرائیل معاہدے پر پوری طرح عمل درآمد کرے اور اس سے فرار یا اس میں تاخیر نہ کرے۔
امریکہ، جرمنی اور متعدد مغربی ممالک حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔ ’امید کی کرن‘، اقوام متحدہاقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیریش نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور قیدیوں اور یرغمالیوں کے تبادلے پر اتفاق کا خیر مقدم کیا۔ انہوں نے تمام فریقین پر زور دیا، ''اس تاریخی موقع سے فائدہ اٹھائیں اور معاہدے پر مکمل عمل کریں۔
‘‘ انہوں نے امریکہ، قطر، مصر اور ترکی کی سفارتی کوششوں کو بھی سراہا۔اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی صدر انالینا بیئربوک نے اس خبر کو ''امید کی کرن‘‘ قرار دیا۔
انہوں نے اپنے پیغام میں تحریر کیا، ''700 سے زیادہ دنوں کی موت، تباہی اور مایوسی کے بعد ہمیں اس موقع کو غنیمت جاننا چاہیے تاکہ غزہ میں جنگ کو ختم کر کے امن قائم کیا جا سکے۔
‘‘ عالمی رہنماؤں کا ردعملبرطانوی وزیرِاعظم کیئر اسٹارمر نے اپنے بیان میں کہا، ''میں صدر ٹرمپ کے امن منصوبے کے پہلے مرحلے پر ہونے والے معاہدے کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ یہ ایک گہری راحت کا لمحہ ہے جو دنیا بھر میں محسوس کیا جائے گا، خاص طور پر یرغمالیوں، ان کے اہل خانہ اور غزہ کے شہریوں کے لیے جنہوں نے پچھلے دو سالوں میں ناقابلِ تصور مصائب برداشت کیے۔
‘‘انہوں نے زور دیا کہ معاہدے پر فوری طور پر مکمل عمل کیا جائے اور غزہ میں زندگی بچانے والی انسانی امداد پر عائد تمام پابندیاں ختم کی جائیں۔ کینیڈا کے دفترِ خارجہ نے بھی اپنے بیان میں اس معاہدے کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ یہ قطر، مصر اور ترکی کی ثالثی سے ممکن ہوا۔
نیوزی لینڈ کے وزیرخارجہ ونسٹن پیٹرز نے کہا، ''حماس کو تمام یرغمالیوں کو رہا کرنا چاہیے اور اسرائیل کو اپنی فوجیں متفقہ لائن تک واپس بلانی چاہییں۔
یہ دیرپا امن کی طرف ایک ضروری اور پہلا قدم ہے۔ ہم اسرائیل اور حماس پر زور دیتے ہیں کہ وہ دیرینہ مسائل کے مکمل حل کی طرف بڑھتے رہیں۔‘‘قطر کے وزیراعظم کے مشیر اور وزارتِ خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے معاہدے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا، ''اس معاہدے کے تحت جنگ کا خاتمہ ہو گا، اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی ہو گی، اور غزہ میں امداد داخل ہو گی۔
‘‘ پاکستان اور بھارت کا ردعملپاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ جنگ بندی کا یہ اعلان 'مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن قائم کرنے کا ایک تاریخی موقع ہے۔‘ انہوں نے ایک پوسٹ میں کہا، ''مکالمے اور مذاکرات کے پورے عمل میں صدر ٹرمپ کی قیادت ان کے دنیا کے امن کے لیے غیر متزلزل عزم کی عکاسی کرتی ہے۔‘‘
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ایک آن لائن پوسٹ میں کہا، ''ہم صدر ٹرمپ کے امن منصوبے کے پہلے مرحلے پر ہونے والے معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
مودی نے اپنے اس پیغام کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو ٹیگ بھی کیا۔
معاہدے پر فریقین کے متفق ہونے کی خبر ملتے ہی غزہ کے مختلف علاقوں اور اسرائیل میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور خوشی کا اظہار کرتے دکھائی دیے۔
ادارت: کشور مصطفیٰ/ عدنان اسحاق
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے امن منصوبے کے اور اسرائیل کا خیر مقدم معاہدے پر انہوں نے اور غزہ نے اپنے میں کہا نے ایک اور اس کیا جا کے لیے کے امن نے کہا جا سکے
پڑھیں:
معاہدہ کافی نہیں عملدرآمد لازم ہے، حماس کا اسرائیل کو شرائط کا پابند بنانے کا مطالبہ
غزہ:اسرائیل کے ساتھ مجوزہ امن معاہدے کے ابتدائی مرحلے پر دستخط کے بعد فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے پہلا باضابطہ ردعمل جاری کرتے ہوئے عالمی ضامنوں سے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کو معاہدے کی تمام شقوں پر مکمل اور بروقت عمل درآمد کا پابند بنایا جائے۔
حماس نے سوشل میڈیا پر جاری بیان میں کہا کہ فریقین کے درمیان جس معاہدے پر اتفاق ہوا ہے اس میں غزہ پر جاری جنگ کا خاتمہ، اسرائیلی افواج کا انخلا، انسانی امداد کی بحالی اور قیدیوں کا تبادلہ شامل ہیں۔
تنظیم نے امریکا، قطر، مصر، ترکی اور دیگر بین الاقوامی فریقوں سے اپیل کی کہ وہ اسرائیل کی جانب سے ممکنہ تاخیر یا وعدہ خلافی کو روکیں اور مکمل شفافیت کے ساتھ اس عمل کی نگرانی کریں۔
بیان میں حماس نے دوٹوک مؤقف اپناتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے وعدوں پر قائم ہیں، لیکن اپنی قوم کے آزادی، خودمختاری اور حقِ خودارادیت سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
اس پیش رفت سے قبل اسرائیل اور حماس نے امریکا کے مجوزہ غزہ امن معاہدے کے پہلے مرحلے پر دستخط کیے تھے۔