اسرائیل، حماس نے امن معاہدے کے پہلے مرحلے کی منظوری دے دی، صدر ٹرمپ
اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT
اسرائیل، حماس نے امن معاہدے کے پہلے مرحلے کی منظوری دے دی، صدر ٹرمپ WhatsAppFacebookTwitter 0 9 October, 2025 سب نیوز
اسرائیل اور حماس نے امریکا کی ثالثی میں طے پانے والے مجوزہ غزہ امن معاہدے کے پہلے مرحلے کی باضابطہ منظوری دے دی ہے، جس کا مقصد جنگ کے خاتمے اور انسانی بحران کا حل نکالنا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر اپنے ایک پیغام میں اس پیش رفت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ معاہدے کے تحت تمام یرغمالیوں کی جلد رہائی ممکن بنائی جائے گی، جبکہ اسرائیلی افواج متفقہ حدود کے مطابق غزہ سے مرحلہ وار انخلا کریں گی۔
صدر ٹرمپ نے اس پیش رفت کو امن کے طویل سفر کی پہلی بڑی جیت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس عمل میں شامل تمام فریقین کے ساتھ انصاف پر مبنی سلوک کیا جائے گا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبروزیراعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے استعفی گورنر فیصل کریم کنڈی کو بھیجوا دیا مصری صدر کی ٹرمپ کو غزہ جنگ بندی معاہدے کی صورت میں دستخطی تقریب میں شرکت کی دعوت بنگلادیشی عدالت کا گزشتہ حکومت کے دوران جبری گمشدگیوں پر 24 اعلی فوجی افسران کی گرفتاری کا حکم امن کا سارا بوجھ حماس پر ڈالنا ٹھیک نہیں، اسرائیل کو حملے بندکرنا ہوں گے، اردوان اسرائیل پر اعتبار نہیں، حماس ، مذاکرات کیلئے ٹرمپ سے ضمانت مانگ لی جرمنی میں نو منتخب میئر چاقو حملے میں شدید زخمی، تشویشناک حالت میں ہسپتال منتقل چھبیسویں آئینی ترمیم کیس: آئین میں ترمیم ہونے تک موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہو گا، جسٹس امین الدینCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: معاہدے کے
پڑھیں:
غزہ امن منصوبہ: کیا فلسطین کی آزاد ریاست وجود میں آ پائے گی؟
سابق چیئرمین ڈیپارٹمنٹ اف میڈیا اینڈ کمیونیکیشن سٹڈیز اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور
ٹرمپ غزہ امن منصوبے کے نتیجے میں ہونے والی جنگ بندی کے بعد اب یہ اہم ڈیویلپمنٹ سامنے آئی ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے غزہ میں قیامِ امن کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کردہ 20 نکاتی 'امن' منصوبے کے حق میں قرارداد منظور کر لی ہے۔قرارداد کے حق میں پاکستان' فرانس اور برطانیہ سمیت 13 ممالک نے ووٹ دئیے جبکہ مخالفت میں کوئی ووٹ کاسٹ نہیں کیا گیا- چین اور روس نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
سلامتی کونسل میں منظور کردہ قرارداد کے اہم نکات میں غزہ میں بورڈ آف پیس اور مختلف ممالک کی افواج پر مشتمل انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس کا قیام بھی شامل ہے۔ اس فورس میں جن ممالک کی افواج شامل ہوں گی اْن کے نام تاحال سامنے نہیں آئے ہیں اور نہ ہی بورڈ آف پیس کی کوئی واضح شکل سامنے آئی ہے۔
تاہم سعودی کنگ محمد بن سلمان کے دورہ امریکہ کے موقع پر ٹرمپ نے کہا کہ فورس میں علاقے کے اہم ممالک کی افواج اور بورڈ آف پیس میں مختلف ممالک کے سربراہان شامل ہوں گے۔اس موقع پر ٹرمپ نے سعودی عرب کے کنگ کو براہیم اکارڈ میں شامل ہونے کی دعوت تو دی اور اس کے بارے میں پسندیدگی کا پوچھا لیکن آزاد فلسطینی ریاست کا کوئی تذکرہ کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ ٹرمپ کے اس سفارتی gesture سے ان کے 20 نکاتی منصوبے کے ڈیزائن اور ترجیحات کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔
قرار داد کی منظوری پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا کہ یہ قرارداد جنگ بندی کو برقرار رکھنے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قرارداد کی منظوری کو اقوام متحدہ کا تاریخ کا سب سے بڑا اور اہم اقدام قرار دیا۔ دوسری جانب حماس نے سلامتی کونسل کی قرارداد کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قرارداد فلسطینی عوام کے حقوق اور مطالبات کو پورا نہیں کر سکتی۔ تاہم فلسطین اتھارٹی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ قرارداد پر جلد عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔اتھارٹی کے مطابق قابض افواج کا مکمل انخلا ہی تعمیر نو اور بنیادی ڈھانچے کی بحالی کی بنیاد بنے گی۔
قرارداد پر عملدرآمد اور ہر قسم کے الحاقی منصوبوں اور ناجائز توسیع کو روکنا فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے اور غزہ میں قیامِ امن کے لیے دیگر مسودوں کے مقابلے میں اقوام متحدہ کی یہ قرارداد فلسطین کی ریاستی حیثیت تسلیم کرنے اور حقِ خود ارادیت کے حوالے سے ایک مصدقہ حوالہ ہے۔کئی اہم عرب ممالک نے قرارداد کے مسودے پر فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت کو متن میں شامل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔ تاہم اسرائیل فلسطینی ریاست کے قیام کی سختی سے مخالفت کرتا ہے جو فلسطین کی ریاستی حیثیت کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے سلامتی کونسل میں منظور ہونے والی قرارداد کے تحت بین الاقوامی فورس علاقے میں سکیورٹی اور دہشت گردوں کا نیٹ ورک ختم کرنے میں مدد کرے گی۔
قرارداد اور اس پر عملدرآمد کے اثرات کا تجزیہ کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ سلامتی کونسل کی اس قرارداد میں کیا نکات شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق انٹر نیشنل سٹیبیلائزیشن فورس سرحدی علاقوں کی سکیورٹی اور حماس سمیت ریاست مخالف گروہوں کو غیر مسلح کرنے میں مدد کرے گی۔ یاد رہے کہ اب تک غزہ میں پولیسں حماس کے زیر انتظام کام کرتی آرہی ہے۔ اقوامِ متحدہ میں امریکہ کے سفیر مائیک والٹز نے سکیورٹی کونسل کو بتایا کہ بین الاقوامی فورس کے اہداف میں شامل ہے کہ وہ علاقے کو محفوظ بنائیں، غزہ میں تعمیری سرگرمیوں کے انعقاد میں مدد فراہم کریں، دہشت گردوں کا نیٹ ورک ختم کریں،علاقے سے اسلحہ ختم کریں اور فلسطینی شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنائے۔
سکیورٹی کونسل نے اپنی قرارداد میں غزہ میں بورڈ آف پیس کے نام سے عبوری حکومت کے قیام کی منظوری بھی دی ہے جس کا کام فلسطینی ٹیکنوکریٹس پر مشتمل غیر سیاسی کمیٹی کی گورننس کی نگرانی کرنا اور غزہ کی تعمیر نو اور انسانی امداد کی فراہمی پر نظر رکھنا ہے۔ غزہ میں دو سال تک جاری رہنے والی جنگ کے بعد تعمیرِ نو کے لیے مالی معاونت عالمی بینک کی حمایت سے بننے والے ٹرسٹ فنڈ سے کی جائے گی۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی استحکام فورس اور بورڈ آف پیس فلسطینی کمیٹی اور پولیس فورس کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔
تاہم حماس نے اقوام متحدہ کی قرارداد کو مسترد کر دیا ہے۔ حماس نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ غزہ میں بین الاقوامی سرپرستی کا جو نظام مسلط کیا جا رہا ہے اسے ہمارے عوام اور مختلف گروہوں نے مسترد کیا ہے۔
ان کے مطابق قرارداد میں غزہ میں بین الاقوامی فورس کو دیے گئے اہداف مثلاً حماس کے جنگجووں کو غیر مسلح کرنا اس فورس کی غیرجانبداری کو ختم کر کے علاقے پر امریکہ و اسرائیلی تسلط کو قائم کرنے کی کوششوں کا حصہ بن جائے گا۔ دوسری طرف اسرائیل فلسطینی ریاست کے قیام کی سختی سے مخالفت کرتا آرہا ہے۔
اسرائیل کے اپوزیشن لیڈرز نے اسی پس منظر میں معاہدے کے کئی نکات کی مخالفت کی ہے اور نیتن یاہو نے بھی فلسطینی ریاست کے قیام کو ناقابل عمل قرار دیا ہے۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سلامتی کونسل کی قرارداد کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے بورڈ آف پیس کی توثیق ہوئی اور اسے تسلیم کیا گیا ہے اور جلد اس بورڈ کے اراکین کا اعلان کیا جائے گا۔ توقع ہے کہ غزہ میں قیامِ امن کے لیے قائم ہونے والے اس بورڈ آف پیس کی سربراہی امریکی صدر ٹرمپ خود کریں گے-امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ یہ اقوام متحدہ کی تاریخ میں بہت بڑی منظوری ہو
گی جس سے دنیا بھر میں مزید امن آئے گا اور یہ تاریخی لحاظ سے اہم لمحہ ہے۔
روس اور چین نے سلامتی کونسل کی اس قرارداد پر رائے شماری میں حصہ نہیں لیا لیکن انھوں نے اس قرارداد کو ویٹو نہیں کیا بلکہ مسلمان اور عرب ممالک کی حمایت یافتہ اس قرارداد کو منظور ہونے دیا۔ لیکن ماسکو اور بیجنگ نے اس قرارداد پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ قیامِ امن کے لیے جو طریقہ کار مرتب کیا گیا ہے اس میں اقوام متحدہ کو شامل نہیں کیا گیا ہے اور یہ قرارداد دو ریاستی حل کے لیے پختہ عزم کا اعادہ نہیں کر رہی ہے۔ اس سے قبل امریکہ، فلسطینی اتھارٹی، کئی عرب ممالک مصر، سعودی عرب اور ترکی نے اقوام متحدہ سے جلد قرارداد منظور کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
اس قرارداد کے حوالے سے چند اہم سوالات پیدا ہوتے ہیں جن کے متوقع جوابات تلاش کرنا ضروری ہے۔
امریکہ کو سپر پاور ہونے کے باوجود سیکیورٹی کونسل سے قرارداد پاس کرانے کی ضرورت کیوں پیش آئی تو بظاہر ایسا لگتا ہے کہ امریکہ نے غزہ کے حوالے سے اپنے اور اسرائیل کے ڈیزائن پر عملدرآمد کرانے کیلئے اقوام متحدہ کی قانونی چھتری حاصل کی ہے۔ جیسے اس نے افغانستان اور عراق پر حملے سے پہلے حاصل کی تھی اور پھر پاکستان سمیت دنیا کو دھمکی دی تھی کون ہمارے اقدامات کے ساتھ ہے اور کون مخالف۔ ورنہ تو یہی امریکہ ہے جس نے گزشتہ دو سالوں کے دوران سیکیورٹی کونسل میں غزہ جنگ بندی کے حوالے سے پیش کی جانے والی چھ قراردادوں کو ویٹو کر کے جنگ کو طوالت دی اور اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کے قتل عام کو فوجی سفارتی معاشی سطح پر سپورٹ کرتا رہا۔
دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چین اور روس نے اس قرارداد کو ویٹو کیوں نہیں کیا، تو اس کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ مسلم حکمرانوں کی طرف سے اس قرارداد کی حمایت کی وجہ سے انہوں نے اس کی مخالفت نہیں کی اور امن کو ایک موقع دیا۔تاہم انہوں نے اس قرار داد پر اپنے بہت ہی مناسب تحفظات کا اظہار کیا جو کہ ہر sensible فرد کے دل کی آواز اور تحفظات ہیں- اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب عاصم افتخار نے بھی UNO میں قرار داد پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے اس قرار داد کی حمایت اپنے تحفظات کے باوجود جنگ اور فلسطینیوں کا قتل عام روکنے کیلئے کی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پہلے وہاں استحکام آئے۔ قرار داد میں ہماری کچھ تجاویز شامل کی گئیں ہیں جبکہ کچھ نہیں کی گئیں۔
قرار داد کا جائزہ لیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس قرارداد اور معاہدے میں ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا روڈ میپ انتہائی مبہم ہے اس کا مشروط تذکرہ صرف ایک سطر میں کیا گیا ہے۔ جس سے یہ خدشات جنم لیتے ہیں کہ اس منصوبے اور قرارداد کی ترجیحات یا ڈیزائن میں فلسطینی ریاست کا قیام شامل ہی نہیں ہے اور یہ مسلم اور یورپی ممالک کی معاشی و سفارتی امداد کے ساتھ اسرائیل کے ڈیزائن کو اقوام متحدہ کی قانونی چھتری تلے عملی جامہ پہنانے کی کوشش ہے۔
کیونکہ نیتن یاہو تو بار بار فلسطینی ریاست کے قیام کو خارج از امکان قرار دے چکے ہیں اس حوالے سے خوش گمانی اور امید کی ایک کرن یہی نظر آتی ہے کہ ٹرمپ مسلم ورلڈ کے سفارتی دباؤ اور اپنے معاہدے کی کامیابی کا سہرہ اپنے سر سجانے کیلئے کوئی صورت نکال لے۔ اس حوالے سے یہ پہلو بھی اہم ہے کہ اس معاہدے پر عملدرآمد کیلئے 2027 کی مدت رکھی گئی ہے جو کہ ٹرمپ کے ٹینیور کا عرصہ ہے۔
اس منصوبے اور قرارداد میں فی الحال یہ بھی واضح نہیں ہے کہ انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس اور بورڈ آف پیس کی ذمہ داریاں کیا ہوں گی۔ بورڈ آف پیس فلسطینی اتھارٹی کا نعم البدل تو نہیں بن جائے گا۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اسٹیبلائزیشین فورس اسرائیل کی فرنٹ مین بی فورس بن کر حماس اور دیگر جنگجو گروپوں کو غیر مسلح کرنے کیلئے استعمال کی جائے گی جبکہ حماس اور دیگر مسلح گروہوں کا موقف ہے کہ ہم تو مقبوضہ قوتوں کے خلاف برسر پیکار ہیں، لہذا جب تک وہ قوتیں ہمارے علاقے خالی نہیں کرتیں وہ ہتھیار حوالے نہیں کر سکتے۔لہذا یقیناً یہ ایک مشکل مرحلہ ہو سکتا ہے۔اسرائیل نے بھی اپیل کی ہے حماس کی مدد کرنے والے ممالک انہیں غیر مسلح کرنے میں ہماری مدد کریں۔
اس پس منظر میں یہ تصویر سامنے آرہی ہے کہ اسرائیل جو ٹارگٹڈ نسل کشی اور جارحیت سے حاصل نہیں کرسکا اب وہ اس قرارداد سے حاصل کرنا چاہے گا۔
پاکستانیوں کے ذہنوں میں ایک اہم سوال یہ بھی ابھر کر سامنے آرہا ہے کہ کیا پاکستان اسٹیبلائزیشین فورس کا حصہ بنے گا یا نہیں۔تو اس وقت تک تو پاکستان نے اس حوالے سے انتہائی محتاط رہتے ہوئے خامشی اختیار کی ہوئی ہے اور وہ عرب اور دیگر مسلم ممالک کے ردعمل کا بغور جائزہ لے رہا ہے۔اس حوالے سے یہ بھی دیکھنا ہو گا ٹرمپ اس حوالے سے پاکستان پر کتنا پریشر ڈالتا ہے اور پاکستان اس پریشر کے باوجود اپنے مفاد کے مطابق کیا فیصلہ کرتا ہے، کیونکہ ٹرمپ تعریفوں کے بدلے اب پاکستان سے فورس میں شمولیت کا مطالبہ کرسکتا ہے۔
بہرحال یہ انتہائی حساس نوعیت کا معاملہ ہے جسے کسی دباؤ میں آکر کرنا مناسب نہیں ہوگا اور اگر دیگر مسلم ممالک کے ساتھ ملکر مجبوراً کرنا پڑے تو ٹرمپ سے پہلے فلسطینی ریاست کے قیام اور غزہ سے اسرائیلی فورسز کے انخلاء کی گارنٹی لینا ضروری ہو گا۔ یاد رہے کہ غزہ میں قیامِ امن کے منصوبے کے پہلے مرحلے میں اسرائیل اور حماس کے مابین مغویوں کا تبادلہ 10 اکتوبر سے شروع ہوا تھا جس کے نتیجے میں دونوں طرف سے زندہ قیدیوں اور مردہ قیدیوں کی لاشوں کا تبادلہ کیا گیا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کے امن منصوبے کے اعلان کے بعد سے حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ بند ہوئی تھی۔تاہم اسرائیل غزہ اور لبنان پر حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔سات اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے میں 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے اور 251 اسرائیلیوں کو مغوی بنایا گیا تھا۔جس کے بعد شروع ہونے والی جنگ میں اسرائیلی افواج کے حملوں میں کم ازکم آٹھ ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ جبکہ اسرائیل نے جنگ بندی کے دوران بھی حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔
وائٹ ہاؤس کی آفیشل ویب سائٹ پر پوسٹ کردہ اس مجوزہ امن منصوبے میں کہا گیا تھا کہ 72 گھنٹوں کے اندر حماس 20 زندہ یرغمالیوں اور دو درجن سے زائد یرغمالیوں کی باقیات اسرائیل کے حوالے کرے۔ جس کے عوض غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کو فوری طور پر ختم کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔اس تجویز کے تحت اسرائیلی قیدیوں کی رہائی اور اسرائیلی جیلوں میں موجود فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا گیا ہے۔ 20 نکاتی مجوزہ منصوبہ قطری اور مصری حکام نے دوحہ میں حماس کے حکام کے حوالے کر دیا تھا۔ جس پر حماس نے ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ کسی بھی ایسی تجویز پر غور کرنے کے لیے تیار ہے جس سے غزہ میں جنگ کا خاتمہ ہو لیکن انھوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ کسی بھی معاہدے میں فلسطینی مفادات کا تحفظ، غزہ سے مکمل اسرائیلی انخلا کو یقینی بنانا اور جنگ کو ختم ہونا شامل ہونا چاہیے۔
ہتھیار چھوڑ دینے سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں حماس کے سینیئر اہلکار نے کہا تھا کہ جب تک اسرائیلی قبضہ جاری ہے مزاحمت کے ہتھیار ایک سرخ لکیر ہیں۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ سلامتی کونسل سے منظور ہونے والے منصوبے کے تحت آئندہ غزہ پر حکومت کرنے میں حماس کا کوئی کردار نہیں ہو گا۔
ٹرمپ اور نتن یاہو کے درمیان وائٹ ہاؤس میں ہونے والی اہم ملاقات کے بعد ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے اس منصوبے کو امن کے لیے ایک تاریخی دن قرار دیا تھا۔ لیکن ساتھ ساتھ انھوں نے یہ تنبیہ بھی کی تھی کہ اگر حماس اس منصوبے پر راضی نہیں ہوتی تو نیتن یاہو کو حماس کے خطرے کو ختم کرنے کا کام سرانجام دینے کے لیے امریکی حمایت حاصل ہو گی۔ اس موقع پر نتن یاہو کا کہنا تھا کہ اگر حماس اس منصوبے کو مسترد کرتی ہے یا اس پر عمل نہیں کرتی ہے تو اسرائیل ان کا کام تمام کر دے گا۔ اس مرحلے پر یہ دیکھنا اہم ہو گا کہ 20 نکاتی مجوزہ امن منصوبے میں کیا نکات شامل ہیں اور ان پر عمل درآمد کی صورتحال کیا ہے؟
وائٹ ہاؤس کی آفیشل ویب سائٹ پر مندرجہ ذیل نکات پر مبنی منصوبہ شئیر کیا گیا تھا۔
-1غزہ دہشت گردی سے پاک علاقہ ہو گا اور یہ اپنے پڑوسیوں کے لیے خطرہ نہیں ہو گا۔
-2غزہ کو اس کے شہریوں کے لیے دوبارہ تعمیر کیا جائے گا، جو پہلے ہی بہت زیادہ نقصان اٹھا چکے ہیں۔اگر دونوں فریق، اسرائیل اور حماس، اس تجویز پر راضی ہو جاتے ہیں تو جنگ فوراً ختم ہو جائے گی۔
-3اسرائیلی فورسز یرغمالیوں کی رہائی کی تیاری کے لیے طے شدہ لائن پر واپس چلی جائیں گی۔ اس دوران، تمام فوجی کارروائیاں، بشمول فضائی اور توپخانے سے بمباری روک دی جائے گی، اور مکمل انخلا کی شرائط کے مکمل ہونے تک ہر طرح کی عسکری کارروائیاں روک دی جائیں گی۔
-4اسرائیل کی جانب سے اس معاہدے کو عوامی طور پر قبول کرنے کے 72 گھنٹوں کے اندر تمام زندہ یرغمالیوں اور مر جانے والے یرغمالیوں کی لاشوں کو واپس کر دیا جائے گا۔
-5تمام یرغمالیوں کی رہائی کے بعد، اسرائیل جیلوں میں موجود 250 فلسطینی شہید قیدیوں کے علاوہ 7 اکتوبر 2023 کے بعد حراست میں لیے گئے غزہ کے 1700 قیدیوں کو رہا کرے گا جن میں تمام خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ ہر اسرائیلی یرغمالی کی باقیات کے بدلے اسرائیل غزہ کے 15 مقتولین کی باقیات واپس کرے گا۔
-6تمام یرغمالیوں کی واپسی کے بعد حماس کے وہ ارکان جو پرامن بقائے باہمی کا وعدہ کریں گے اور اپنے ہتھیار ڈال دیں گے انھیں عام معافی دی جائے گی۔ حماس کے وہ ارکان جو غزہ سے جانا چاہیں انھیں ان ممالک تک محفوظ راستہ فراہم کیا جائے گا جو انھیں وصول کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔
-7اس معاہدے کی منظوری کے بعد فوری طور پر غزہ کے لیے مکمل امداد بھیجی جائے گی۔ امداد کی مقدار کم از کم 19 جنوری 2025 میں ہونے والے انسانی امداد کے معاہدے کے مطابق ہو گی جس میں بنیادی ڈھانچے کی بحالی (پانی، بجلی، سیوریج)، ہسپتالوں اور بیکریوں کی بحالی، اور ملبہ ہٹانے اور سڑکیں کھولنے کے لیے ضروری مشینری کا غزہ داخلہ شامل ہے۔
-8غزہ کی پٹی میں امداد کا داخلہ اور تقسیم دونوں فریقوں اسرائیل اور حماس کی مداخلت کے بغیر اقوام متحدہ اور اس کی ایجنسیوں، اور ہلال احمر کے علاوہ دیگر بین الاقوامی اداروں کے ذریعے ہو گی۔ اس کے علاوہ کسی ایسی تنظیم کو بھی امدادی کارروائیوں کی اجازت نہ ہو گی جو کسی بھی فریق کے ساتھ کسی بھی طرح سے وابستہ ہو۔
-9 رفاح کراسنگ کو دونوں سمتوں میں کھولنا 19 جنوری 2025 کے معاہدے کے تحت نافذ کردہ اسی طریقہ کار سے مشروط ہو گا۔
-10غزہ میں ایک ٹیکنوکریٹک، غیر سیاسی فلسطینی کمیٹی کی عارضی عبوری حکومت قائم کی جائے گی جو غزہ میں عوامی خدمات اور بلدیاتی ادارے چلانے کی ذمہ دار ہو گی۔ یہ کمیٹی اہل فلسطینیوں اور بین الاقوامی ماہرین پر مشتمل ہو گی۔ اس کمیٹی کی نگرانی ایک نیا بین الاقوامی عبوری ادارہ بورڈ آف پیس کرے گا، جس کی سربراہی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کریں گے۔ اس بورڈ میں برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر بھی شامل ہوں گے جبکہ دیگر اراکین اور سربراہان مملکت کا اعلان بھی کیا جائے گا۔ یہ ادارہ غزہ کی تعمیر نو کے لیے فریم ورک کا تعین کرے گا اور اس وقت تک فنڈز کو سنبھالے گا جب تک کہ فلسطینی اتھارٹی غزہ کا مؤثر طریقے سے کنٹرول سنبھال نہیں لیتی اور اپنا اصلاحاتی پروگرام مکمل نہیں کر لیتی۔ جیسا کہ صدر ٹرمپ کے 2020 کے امن منصوبے اور سعودی فرانسیسی منصوبے جیسی مختلف تجاویز میں بیان کیا گیا ہے۔
-11غزہ کی تعمیر نو کے لیے ٹرمپ کے اقتصادی ترقی کا منصوبہ ایسے ماہرین کا پینل تیار کرے گا جنھوں نے مشرق وسطیٰ میں ترقی پذیر جدید شہروں میں سے کچھ کو بنانے مدد دی تھی۔
ایک خصوصی اقتصادی زون کو ترجیحی ٹیرف اور رسائی کی شرحوں کے ساتھ قائم کیا جائے گا۔
-12کسی کو بھی غزہ چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا اور جو غزہ چھوڑنا چاہیں گے وہ ایسا کرنے کے لیے آزاد ہوں گے اور وہاں واپس آنے کے لیے بھی۔ لوگوں کو وہاں رہنے کی ترغیب دی جائے گی اور انھیں ایک بہتر غزہ کی تعمیر کا موقع فراہم کیا جائیگا۔
-13حماس اور دیگر دھڑے اس بات پر اتفاق کریں گے کہ غزہ کی حکمرانی میں براہ راست، بالواسطہ یا کسی بھی صورت میں کوئی کردار ادا نہیں کریں گے۔ تمام فوجی، دہشت گردی اور جارحانہ انفراسٹرکچر بشمول سرنگوں اور ہتھیاروں کی تیاری کی سہولیات کو تباہ کر دیا جائے گا اور دوبارہ تعمیر نہیں کیا جائے گا۔ آزاد ماہرین کی نگرانی میں غزہ کو غیر فوجی زون بنانے کا عمل ہو گا جس میں ہتھیاروں کو مستقل طور پر ناقابلِ استعمال بنایا جائے گا اور جس کی تصدیق ایک متفقہ عمل کے ذریعے کی جائے گی۔ نیا غزہ ایک خوشحال معیشت کی تعمیر اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کے لیے پوری طرح پرعزم ہو گا۔
14۔خطے میں موجود شراکت دار اس بات کی ضمانت فراہم کریں گے کہ حماس اور دیگر دھڑے اپنی نیو غزہ اور اس کے پڑوسیوں کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہو گے۔
-15امریکہ اپنے عرب اور دیگر بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر غزہ میں فوری طور پر تعیناتی کے لیے ایک عارضی انٹرنیشنل سٹیبلائزیشن فورس (آئی ایس ایف) تیار کی جائے گی۔ آئی ایس ایف غزہ میں جانچ شدہ فلسطینی پولیس فورسز کو تربیت اور مدد فراہم کرے گا اور اس معاملے میں اْردن اور مصر سے مشاورت کرے گا جنھیں اس شعبے میں وسیع تجربہ ہے۔ یہ فورس طویل مدتی داخلی سلامتی کا حل ہو گی۔ آئی ایس ایف اسرائیل اور مصر کے ساتھ مل کر سرحدوں کو محفوظ بنانے میں مدد دے گی۔ اس کام میں نئی تربیت یافتہ فلسطینی پولیس فورسز بھی شامل ہو گی۔ کسی بھی طرح کے جنگی سازوسامان کو غزہ میں داخل ہونے سے روکنا اور غزہ کی تعمیر نو اور بحالی کے لیے سامان کی تیز رفتار اور محفوظ منتقلی کو آسان بنانا بہت ضروری ہے۔ فریقین کے درمیان تنازعات کے خاتمے کے طریقہ کار پر اتفاق کیا جائے گا۔
-16اسرائیل غزہ پر قبضہ یا اس کا اسرائیل کے ساتھ الحاق نہیں کرے گا۔ جیسے جیسے آئی ایس ایف کنٹرول سنبھالتی جائے گی۔ اسرائیل ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) پہلے سے طے شدہ نکات اور ٹائم فریم کی بنیاد پر وہاں سے انخلا کرتی جائے گی جس پر اسرائیلی فوج، آئی ایس ایف، ضامنوں اور امریکہ پر پہلے سے اتفاق ہو گا۔ اس مقصد کیلئے یہ یقینی بنانا ہو گا کہ اسرائیل، مصر یا اس کے شہریوں کے لیے اب کوئی خطرہ نہیں ہے۔ عملی طور پر غزہ کی عبوری اتھارٹی کے ساتھ طے شدہ معاہدے کے تحت آئی ڈی ایف آہستہ آہستہ غزہ کا کنٹرول آئی ایس ایف کے حوالے کر دے گی۔ تاہم وہ حفاظتی مقصد کیلئے اس وقت تک اپنی موجودگی برقرار رکھے گی جب تک یہ یقینی نہیں بنا لیا جاتا کہ غزہ کے کسی بھی ممکنہ دہشت گردی کے خطرے کا سبب نہیں بنے گا۔
-17اگر حماس اس تجویز کو مسترد کرتا ہے یا اس کی منظوری میں تاخیر کرتا ہے تو اس اثنا میں اسرائیلی فوج دہشت گردی سے پاک علاقے آئِی ایس ایف کے حوالے کر دے گی اور وہاں یہ منصوبہ شروع کر دیا جائے گا۔
-18ایک بین المذاہب مکالمے کا عمل شروع کیا جائے گا تاکہ امن سے حاصل ہونے والے فوائد پر زور دے کر فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کی ذہنیت اور بیانیے کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جا سکے۔
-19جب غزہ کی دوبارہ ترقی اور فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے اصلاحاتی پروگرام پر عمل کے ساتھ ہی بالآخر فلسطینیوں کی خود ارادیت اور ریاست کے لیے حالات سازگار ہو سکیں گے جسے ہم فلسطینی عوام کی خواہش کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔
-20امریکہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان پرامن اور خوشحال بقائے باہمی کے لیے مذاکرات کروائے گا۔
اس 20 نکاتی منصوبے پر اب تک عملدرآمد کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جنگ بندی کے باوجود اسرائیل نے غزہ اور لبنان پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں اور جنگ بندی کے بعد بھی سینکڑوں فلسطینیوں کو شہید کیا چکا ہے۔ حتی کہ اقوام متحدہ کے کارکنان پر بھی فائرنگ کے واقعات ہوئے ہیں اور امریکہ نے معاہدے کے مطابق اسرائیل کو حملے کرنے سے روکنے کیلئے کوئی اقدام نہیں کیا جبکہ حماس کو دھمکیاں دینے کا سلسلہ مسلسل جاری رکھا ہوا ہے۔اس کے علاؤہ ابھی تک معاہدے کے مطابق غزہ سے اسرائیلی فورسز کے انخلاء کا سلسلہ شروع نہیں ہوا اس کے برعکس اسرائیلی فورسز اور اسرائیلی آبادکاروں کی طرف سے فلسطینوں کو ہراساں کرنے اور ان کے گھروں سے جبری ہجرت کرنے پر مجبور کرنے کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔اسرائیلی حکومت کھلم کھلا اسرائیلی ریاست کو کسی قیمت پر تسلیم نہ کرنے کے اعلانات کر رہی ہے۔
ابھی تک اسرائیل غزہ میں مکمل طور پر ضروری امداد فراہم کرنے کی اجازت نہیں دے رہا اور امدادی سامان کے ٹرک مختلف کراسنگز پر کھڑے متاثرہ علاقوں میں جانے کے منتظر ہیں۔جس کے باعث غزہ میں متاثرہ افراد کو شدید غزائی قلت اور موسم کی سختی کا سامنا ہے۔اسرائیل کی من مانی ہر طرح سے جاری ہے اور ٹرمپ' یو این او ' یورپی یونین' سیکیورٹی کونسل انسانی حقوق کی تنظیمیں اور مسلم ورلڈ سمیت تمام دنیا اپنی اپنی مصلحتوں کے باعث خاموش ہے اور افسوس کی بات یہ کہ آزاد فلسطینی ریاست کا تزکرہ قرارداد اور منصوبے میں واضح طور پر دور دور تک کہیں نظر نہیں آرہا۔لہٰذا مسلم ورلڈ کو چین روس اور لائک مائنڈڈ یورپی ممالک کے ساتھ مل کر فلسطینی ریاست کے قیام کو یقینی بنانے کیلئے ضروری اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ مشرق وسطیٰ میں حقیقی اور پائیدار امن قائم ہو سکے۔