وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے غزہ میں جنگ بندی اور امن معاہدے کے اعلان کو ’مشرقِ وسطیٰ میں دیرپا امن کے قیام کے لیے ایک تاریخی موقع‘ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’یہ وہ لمحہ ہے جب عالمی برادری کو انسانیت، انصاف اور امن کے مشترکہ مقاصد کے لیے متحد ہو جانا چاہیے۔‘

وزیراعظم نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’صدر ٹرمپ کی قیادت، ان کی ثابت قدمی اور امن کے لیے غیر متزلزل عزم نے اس تاریخی پیشرفت کو ممکن بنایا۔‘

شہباز شریف نے کہا کہ ’ٹرمپ کی سربراہی میں ہونے والے مذاکرات نے اس بات کو یقینی بنایا کہ غزہ کی زمین پر دو سال سے جاری خونریزی کا خاتمہ ہو۔‘

انہوں نے قطر، مصر اور ترکیہ کی قیادت کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا، جنہوں نے انتھک سفارتی کوششوں سے اسرائیل اور حماس کے درمیان امن معاہدہ طے پانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ ’ان ممالک کے دانشمند اور ثابت قدم رہنماؤں نے ایک ایسی جدوجہد کی جس کا مقصد صرف امن نہیں بلکہ انصاف پر مبنی امن ہے۔‘

The announcement of an agreement that will bring an end to the genocide in Gaza is a historic opportunity to secure lasting peace in the Middle East.

President Trump’s leadership throughout the process of dialogue and negotiations reflects his unwavering commitment to world…

— Shehbaz Sharif (@CMShehbaz) October 9, 2025

وزیراعظم نے فلسطینی عوام کی قربانیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’دنیا کو اُن مظلوم فلسطینیوں کو سلام پیش کرنا چاہیے جنہوں نے ناقابلِ تصور مصائب کا سامنا کیا۔ ان پر جو ظلم ہوا، وہ تاریخ میں ایک سیاہ باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا، اور ہم سب پر لازم ہے کہ اس کی تکرار کبھی نہ ہونے دیں۔‘

وزیراعظم نے مسجدِ اقصیٰ میں حالیہ اشتعال انگیزیوں پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’دنیا کو قابض اور غیر قانونی آبادکاروں کو جواب دہ بنانا ہوگا۔ ایسے اقدامات صدر ٹرمپ کی امن کی کاوشوں کو کمزور کر سکتے ہیں، اس لیے عالمی ضمیر کو بیدار ہونا ہوگا۔‘

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ’پاکستان اپنے برادر اسلامی ممالک اور عالمی شراکت داروں کے ساتھ مل کر مشرقِ وسطیٰ میں امن، سلامتی اور فلسطینی عوام کے وقار کے لیے کوششیں جاری رکھے گا۔ یہ امن صرف اسی صورت پائیدار ہو سکتا ہے جب یہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور فلسطینی عوام کی امنگوں کے مطابق ہو۔‘

یاد رہے کہ گزشتہ رات اسرائیل اور حماس نے دو سال بعد جنگ بندی کے پہلے مرحلے پر دستخط کیے تھے، جس کا اعلان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا۔ معاہدے کے تحت اسرائیلی افواج طے شدہ حد تک غزہ سے انخلا کریں گی اور حماس تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو مرحلہ وار رہا کرے گی۔ قطر، مصر اور ترکیہ نے اس عمل میں ثالثی کا کردار ادا کیا تھا۔

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: نے کہا کہ کے لیے

پڑھیں:

سب تماشا ہے!

اسلام ٹائمز: رہنماوں کو لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کا فن بخوبی آتا ہے۔ سیاست کو بھی کرکٹ کا کھیل سمجھ لیا گیا ہے۔ ہمارے لیڈر اکیلے کچھ نہیں کرسکتے، لہذا طرح طرح کے دلفریب نعروں سے جمہور کو اپنے پیچھے لگا لیتے ہیں۔ وہ کبھی سوشلزم کے نام پر، کبھی جمہوریت کے نام پر، کبھی اسلام کے نام پر اور کبھی انصاف کے نام پر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں۔ سادہ لوح عوام اپنی سادگی کی بنا پر ہمیشہ انکا شکار رہتے ہیں۔ تحریر: پروفیسر تنویر حیدر نقوی

جس طرح نماز دکھاوے کی ہوسکتی ہے، اسی طرح نماز کی امامت اور قوم کی قیادت بھی دکھاوے کے لیے ہوسکتی ہے۔ کسی کا ظاہر دیکھ کر کسی کے باطن کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ ہر چمکتی شے سونا نہیں ہوتی۔ ظاہر پرستی اور شخصیت پرستی بھی شرک کی بدترین صورت ہے۔ ہمارے اکثر سیاسی اور مذہبی قائدین اصلاً قائد نہیں ہوتے بلکہ قائد نظر آنے کی اداکاری کرتے ہیں۔ کسی کا محض لبادہ دیکھ کر کسی کی اصلیت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ آج کے بازار سیاست میں ضرورت کے مطابق ہر قسم کا لبادہ میسر ہے۔ صرف یہ جاننا ضروری ہے کہ ”پبلک ڈیمانڈ“ کیا ہے۔؟

قیادتیں ہیں کہ کھلی منڈی میں کم داموں پر بک رہی ہیں۔ ہم جیسے مثالیت پسند اس خرید و فروخت پر حیران و پریشان ہیں۔ لگتا ہے کہ لوگوں کے ”حواس خمسہ“ جواب دے چکے ہیں۔ سماعتیں ایسی ہوگئی ہیں کہ لوگ کسی کے محض جادوئی بیانات سے  متاثر ہوکر اس پر کامل ایمان لے آتے ہیں۔ بصارتوں کا حال یہ ہے کہ اکثر لوگوں کی کھلی آنکھوں میں پرکھنے کی ایسی صلاحیت نہیں ہے، جس سے وہ کھرے اور کھوٹے رہنماء کے مابین تمیز کرسکیں۔

قوت گویائی کی صورت یہ ہے کہ ہم جنہیں اپنا کہتے ہیں، ان سے بھی اپنا حال دل کہنے سے ڈر لگتا ہے۔ حقیقی رہنماء سرِ منبر اپنے زورِبیان سے نہیں بلکہ سرِ راہِ عمل ہتھیلی پر رکھی اپنی جان سے پہچانا جاتا ہے۔ جو قیادت اپنی شہرت کی بھوکی اور اپنی نمائش کی دیوانی ہوتی ہے، وہ اندر سے کھوکلی ہوتی ہے۔ آج کسی بے رنگ قیادت کو چمکانے کے لیے سوشل میڈیا کے ذریعے اس کی ملمع کاری کی جاتی ہے۔ مٹی کی مورتوں پر سونے کا پانی چڑھا دیا جاتا ہے۔ لوگ ظاہر بین ہوتے ہیں۔ کسی کے بدن پر جبہ و دستار دیکھ کر اس کے پرستار ہو جاتے ہیں۔ سروں پر عمامے دیکھ کر دیوانے ہو جاتے ہیں۔

رہنماوں کو لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کا فن بخوبی آتا ہے۔ سیاست کو بھی کرکٹ کا کھیل سمجھ لیا گیا ہے۔ ہمارے لیڈر اکیلے کچھ نہیں کرسکتے، لہذا طرح طرح کے دلفریب نعروں سے جمہور کو اپنے پیچھے لگا لیتے ہیں۔ وہ کبھی سوشلزم کے نام پر، کبھی جمہوریت کے نام پر، کبھی اسلام کے نام پر اور کبھی انصاف کے نام پر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں۔ سادہ لوح عوام اپنی سادگی کی بنا پر ہمیشہ ان کا شکار رہتے ہیں۔
تو یہ نہ دیکھ ترا میں شکار کتنا تھا
یہ دیکھ تجھ پہ مرا اعتبار کتنا تھا                                              

متعلقہ مضامین

  • کراچی کا نصیب
  • سب تماشا ہے!
  • ٹرمپ کے بائیکاٹ کے باعث مودی نے’محفوظ‘طریقے سے G20 میں شرکت کی، کانگریس کا طنز
  • پاک افغان سرحدی بندش؛ افغانستان کو کتنے ملین ڈالر کا نقصان ہونے لگا؟
  • خاندان‘ وصیت اور وراثت میں چلنے والی پارٹیاں کبھی انقلاب نہیں لاسکتیں‘حافظ نعیم الرحمن
  • دبئی ائیر شو میں بھارتی طیارہ تیجس گر کر تباہ، بھارتی عوام کا شدید ردعمل
  • جرنیلی سڑک
  • ٹرمپ کے سابق فوجی ڈیموکریٹس پر سنگین الزامات، غیر قانونی احکامات سے متعلق ویڈیو پر شدید ردعمل
  • آزاد جموں و کشمیر کی کابینہ کا پہلا اجلاس؛  اپنی گڈ گورننس کو عوام کے سامنے رکھیں گے ،وزیراعظم آزاد کشمیر 
  • مودی کا جنوبی افریقی دورہ صدر ٹرمپ کے بائیکاٹ سے ممکن ہوا، کانگریس