صدر ٹرمپ کا ممکنہ دورۂ مصر، غزہ میں جنگ بندی معاہدہ حتمی مرحلے میں داخل
اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ اس ہفتے کے آخر میں مصر کا دورہ کر سکتے ہیں، جہاں امریکی مذاکرات کار غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی سے متعلق معاہدے کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہیں۔
صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ معاہدہ قریباً طے پا چکا ہے اور ممکن ہے کہ وہ ہفتے کے روز مشرقِ وسطیٰ روانہ ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ مذاکرات مصر میں جاری ہیں اور جلد پیشرفت متوقع ہے۔
مزید پڑھیں: غزہ جنگ بندی مذاکرات مثبت سمت میں، مصری صدر کی ٹرمپ کو قاہرہ آنے کی دعوت
گفتگو کے دوران امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو کمرے میں داخل ہوئے اور صدر ٹرمپ کو ایک نوٹ دیا۔ ٹرمپ نے اسے پڑھ کر بتایا کہ مجھے ابھی وزیرِ خارجہ کی جانب سے نوٹ ملا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ہم مشرقِ وسطیٰ میں معاہدے کے بہت قریب ہیں، اور انہیں میری فوری ضرورت ہے۔
بعد ازاں وائٹ ہاؤس نے وضاحت کی کہ صدر ممکنہ طور پر جمعے کو اپنا سالانہ طبی معائنہ مکمل کرنے کے بعد خطے کا دورہ کریں گے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق اس نوٹ میں لکھا تھا کہ آپ کو جلد از جلد ٹروتھ سوشل پر پوسٹ کی منظوری دینا ہوگی تاکہ آپ معاہدے کا اعلان سب سے پہلے کر سکیں۔
مزید پڑھیں: سعودی کابینہ کیجانب سے صدر ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کے اقدامات کا خیر مقدم
صدر ٹرمپ نے کہا کہ مجھے اب جانا ہوگا تاکہ مشرقِ وسطیٰ کے کچھ مسائل حل کر سکوں۔
ذرائع کے مطابق امریکی، مصری اور قطری مذاکرات کار اس وقت غزہ میں یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ بندی کے حتمی نکات پر بات چیت کر رہے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو ٹرمپ جنگ بندی معاہدہ دورۂ مصر، غزہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو جنگ بندی معاہدہ
پڑھیں:
جی 20 ممالک نے امریکی شمولیت کے بغیر اعلامیہ منظور کر لیا
جنوبی افریقہ میں جی 20 رہنماؤں کے اجلاس نے ہفتے کے روز ایک اعلامیہ منظور کیا ہے، جس میں ماحولیاتی بحران اور دیگر عالمی چیلنجز پر بات کی گئی ہے، تاہم یہ اعلامیہ امریکی شمولیت کے بغیر تیار کیا گیا ہے، جسے وائٹ ہاؤس کے ایک اہلکار نے ’شرمناک‘ قرار دیا ہے۔
نجی اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا کے ترجمان نے صحافیوں کو بتایا کہ اعلامیے میں وہ زبان استعمال کی گئی ہے، جس کی واشنگٹن طویل عرصے سے مخالفت کرتا رہا ہے، اور اسے ’دوبارہ مذاکرات کے لیے نہیں کھولا جا سکتا‘۔
ترجمان نے کہا کہ ہم نے اس منظوری کے لیے پورا سال کام کیا ہے اور گزشتہ ہفتے خاصا دباؤ رہا۔
ہفتہ وار اجلاس کی میزبانی کرنے والے صدر رامافوسا نے اس سے قبل کہا تھا کہ اعلامیے کے لیے بھاری اکثریت میں اتفاقِ رائے موجود تھا۔
4 ذرائع کے مطابق جو اس معاملے سے واقف ہیں، جی 20 کے ایلچیوں نے جمعے کے روز یہ مسودہ امریکی شرکت کے بغیر تیار کیا۔
دستاویز میں وہ زبان استعمال کی گئی ہے جسے ٹرمپ انتظامیہ ناپسند کرتی رہی ہے، یعنی موسمیاتی تبدیلی کی سنگینی اور اس سے نمٹنے کی بہتر حکمت عملیوں کی ضرورت پر زور دینا، اس میں قابلِ تجدید توانائی کے حصول کے بلند اہداف کی تعریف کی گئی اور غریب ممالک کی جانب سے قرضوں کی بھاری ادائیگیوں کے بوجھ کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی سے متعلق زبان کا شامل کیا جانا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے ’سفارتی دھچکے‘ کے طور پر دیکھا گیا، جو اس سائنسی اتفاقِ رائے پر شکوک کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ عالمی حدت انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہوتی ہے، امریکی اہلکار پہلے ہی اشارہ دے چکے تھے کہ وہ اس طرح کے حوالوں کی مخالفت کریں گے۔
اپنے افتتاحی خطاب میں رامافوسا نے کہا کہ ہمیں کسی بھی چیز کو پہلے افریقی جی 20 صدارت کی قدر، وقار اور اثر کم کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔
ان کا یہ پُر اعتماد لہجہ اگست میں وائٹ ہاؤس کے دورے کے دوران ان کے نسبتاً خاموش رویے کے برعکس تھا، جب انہوں نے ٹرمپ کی جانب سے غط دعوے کو برداشت کیا تھا کہ جنوبی افریقہ میں سفید فام کسانوں کی نسل کشی ہو رہی ہے، بعد میں ٹرمپ نے کہا کہ امریکی حکام اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے کیوں کہ میزبان ملک پر سفید فام اقلیت کو دبانے کے الزامات ہیں۔
جغرافیائی سیاسی تقسیم
امریکی بائیکاٹ کے باوجود رہنماؤں نے خبردار کیا کہ معاشی بحران حل کرنے میں جی 20 کا کردار جغرافیائی سیاسی تقسیم کے باعث خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
رامافوسا نے ٹرمپ کی غیر موجودگی کو کم اہمیت دی اور مؤقف اختیار کیا کہ جی 20 اب بھی بین الاقوامی تعاون کے لیے کلیدی فورم ہے۔
تاہم فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے اجلاس کے دوران خبردار کیا کہ جی 20 شاید اپنے ایک دور کے اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے، افتتاحی خطاب میں میکرون نے کہا کہ رہنما اس میز پر ’بڑے عالمی بحرانوں کے حل کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں‘۔
دوسری جانب، یورپی یونین کی کمشنر ارسلا وان ڈیر لین نے اپنی تقریر میں ’انحصار کے ہتھیار بننے‘ کے خطرے سے خبردار کیا، جو چین کی جانب سے توانائی کی منتقلی کے لیے ضروری نایاب معدنیات کی برآمدات پر پابندیوں کی طرف اشارہ تھا۔
اگرچہ امریکا نے اجلاس میں شرکت نہیں کی، مگر اس نے آئندہ جی 20 اجلاس میں صدارت سنبھالنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے، ٹرمپ 2026 میں اگلا اجلاس فلوریڈا کے ایک گولف کلب میں منعقد کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، جو ان کی ذاتی ملکیت ہے۔