امریکی ڈالروں سے نسل کشی
اشاعت کی تاریخ: 24th, November 2025 GMT
اسلام ٹائمز: اگرچہ وائٹ ہاوس میں انجام پانے والی یہ ملاقات بظاہر مقامی اتحاد کی عکاسی کرتی تھی لیکن اس نے ایک تاریخی لمحہ ایجاد کر دیا۔ وائٹ ہاوس کے اوول ہاوس میں پہلی بار غزہ میں غاصب صیہونی رژیم کے ہاتھوں جاری فلسطینیوں کی نسل کشی کے بارے میں اظہار خیال کیا گیا جس نے اسرائیل کی غیر مشروط حمایت پر مبنی ٹرمپ کی خارجہ پالیسی پر بڑا سوالیہ نشان لگا دیا۔ زہران ممدانی نے کہا: "میں نے غزہ میں اسرائیلی حکومت کی جانب سے جاری نسل کشی پر بات کی ہے اور ہماری حکومت کی جانب سے اس کی مالی فنڈنگ کی بات بھی کی ہے۔" اس نے مزید کہا: "ہم یہ دیکھ دیکھ کر تھک چکے ہیں کہ ہمارے ٹیکس نہ ختم ہونے والی جنگوں پر خرچ ہوتے ہیں، ہمیں بین الاقوامی قوانین کی پابندی کرنی چاہیے۔" ٹرمپ جو اب تک سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف تمام قراردادوں کو ویٹو کرتا آیا ہے ایک تنقید کرنے والے میئر سے روبرو ہے اور یہ مسئلہ اندرونی تناو میں مزید شدت پیدا کر سکتا ہے۔ تحریر: رسول قبادی
ایسے وقت جب ڈونلڈ ٹرمپ بدستور اپنی فرقہ وارانہ، مداخلت آمیز اور غاصب صیہونی رژیم کی غیر مشروط حمایت پر مبنی پالیسیوں کے سبب پہچانا جاتا ہے، وائٹ ہاوس کے اوول روم میں اس کی نیویارک کے نو منتخب میئر زہران ممدانی سے اس کی ملاقات عصر حاضر کے گہری تضادات کا منظر پیش کیا ہے۔ یہ ملاقات جو نیویارک کے متلاطم بلدیہ الیکشن میں زہران ممدان کی کامیابی کے تقریباً تین ہفتے بعد انجام پائی ہے، بظاہر مفاہمت کی ایک کوشش تھی لیکن اصل میں ٹرمپ کے امریکہ کی یاددہانی ہے: ایسی جگہ جہاں شخصی دھمکیوں نے معقول پالیسیوں کی جگہ لے رکھی ہے اور اندرونی منتقدین کا منہ ظاہری سفارتی مسکراہٹوں کے ذریعے بند کروا دیا جاتا ہے۔ کیا یہ ہاتھ ملانا تبدیلی کی علامت ہے یا مقامی اور قومی امور پر ٹرمپ کی تسلط پسندی کی محض پردہ پوشی ہے؟
ڈونلڈ ٹرمپ، جس کا ماضی دوسروں پر کیچڑ اچھالنے اور نسل پرستانہ اور نظریاتی تعصب ظاہر کرنے سے بھرا پڑا ہے، نے الیکشن سے پہلے زہران ممدانی کو "بائیں بازو کا انتہاپسند پاگل"، "کمیونسٹ" اور "یہودیوں سے متنفر" جیسے خطابات سے نوازا تھا۔ یہ وہ الزامات ہیں جو عام طور پر منتقدین کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے دائیں بازو کے انتہاپسند حلقوں کو اشتعال دلانے کے لیے اپنائی گئی حکمت عملی قرار دیتے ہیں۔ بہرحال، ٹرمپ نے اس ملاقات میں مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ زہران ممدانی کی "الیکشن میں کامیابی" کی تعریف کرتے ہوئے کہا: "ہمارے درمیان میرے تصور سے کہیں زیادہ مشترکہ چیزیں پائی جاتی تھیں۔ ہم میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ ہم دونوں اپنے اس پسندیدہ شہر کا انتظام اچھے طریقے سے چلانا چاہتے ہیں۔" زہران ممدانی، جس نے کچھ دن پہلے ٹرمپ کو فاشسٹ کہا تھا، نے بھی ملاقات کو مفید قرار دیا۔
زہران ممدانی نے کہا: "یہ ملاقات نیویارک سے مشترکہ عشق اور تعریف اور نیویارک کے شہریوں کو سہولیات فراہم کرنے کی ضرورت کی بنیاد پر انجام پائی ہے۔" ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے زہران ممدانی کے بازو پر تھپکی لگانے اور اس سے ہنسی مذاق کرنے کا منظر ایسے سیاست دانوں کی تصویر پیش کرتا ہے جو بظاہر اختلافات کو بھلا دیتے ہیں۔ ٹرمپ نے ہنستے ہوئے کہا: "مجھے انہوں نے ایک ڈکٹیٹر سے بھی کہیں زیادہ برا کہا ہے، لہذا اس قدر توہین آمیز نہیں ہے لیکن میں سوچتا ہوں کہ ہمارے ایک ساتھ کام کرنے کے بعد اس کی سوچ تبدیل ہو جائے گی۔" جب ایک صحافی نے ممدانی سے ٹرمپ کو فاشسٹ کہنے کے بارے میں سوال کیا تو ٹرمپ نے مسکراتے ہوئے کہا: "کوئی بات نہیں، صرف "ہاں" کہہ سکتے ہو۔"
اس ملاقات کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے ہمیں اس حالیہ الیکشن پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے جس نے نیویارک کو ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور دھمکیاں دینے کے میدان میں تبدیل کر دیا تھا۔ زہران ممدانی جو مسلمان اور سوشلسٹ امیدوار تھے نے 50 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کر کے اینڈرو کومو اور کارٹیس اسلیوا جیسے مدمقابل حریفوں کو شکست دے دی۔ یہ فتح بیس لاکھ ووٹرز کی ریکارڈ شرکت سے حاصل ہوئی جس نے زہران ممدانی کو نہ صرف نیویارک کا سب سے جوان اور پہلا مسلمان اور ایشیائی نژاد میئر بنا دیا بلکہ ٹرمپ کے امریکہ کے مقابلے میں جوان نسل کی مزاحمت کی علامت بھی تھی۔ ٹرمپ کا امریکہ ایسی جگہ ہے کرایوں میں اضافے کو روکنے، مفت ٹرانسپورٹ اور بچوں کی دیکھ بھال جیسے چکنے چپڑے وعدوں کے ذریعے نیولبرل اور دائیں بازو کی پالیسیاں چھائی ہوئی ہیں۔
ٹرمپ جو نیویارک کو اپنا گھر تصور کرتا ہے، اکثر اوقات اسے "بائیں بازو کے حامیوں کی جہنم" قرار دیتا ہے اور اس نے کئی ماہ پہلے سے زہران ممدانی کو تابڑ توڑ حملوں کا نشانہ بنا رکھا تھا۔ ٹرمپ نے ٹروتھ سوشل پر اپنی پوسٹ میں لکھا: "اگر زہران ممدانی، کمیونسٹ امیدوار، کامیاب ہو جاتا ہے تو مجھے نہیں لگتا ضروری ترین اور کم از کم مقدار سے زیادہ میرے محبوب شہر کو مرکزی حکومت کا بجٹ مل پائے گا۔" یہ دھمکی ٹرمپ کی جانب سے ریاستی طاقت کو ذاتی انتقام کے لیے بروئے کار لانے کا جانا پہچانا ہتھکنڈہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ٹرمپ نے ممدانی کے مدمقابل امیدوار کومو کی حمایت بھی کی۔ ٹرمپ نے خبردار کیا کہ ممدانی کی فتح کے تباہ کن نتائج سامنے آئیں گے۔ اس قسم کے رویے نے مخالفین کو ٹرمپ کی پہلی مدت صدارت والا دور یاد کروا دیا جب وہ سن فرانسسکو جیسے شہروں کا بجٹ روک دینے کی دھمکیاں دیا کرتا تھا۔
اگرچہ وائٹ ہاوس میں انجام پانے والی یہ ملاقات بظاہر مقامی اتحاد کی عکاسی کرتی تھی لیکن اس نے ایک تاریخی لمحہ ایجاد کر دیا۔ وائٹ ہاوس کے اوول ہاوس میں پہلی بار غزہ میں غاصب صیہونی رژیم کے ہاتھوں جاری فلسطینیوں کی نسل کشی کے بارے میں اظہار خیال کیا گیا جس نے اسرائیل کی غیر مشروط حمایت پر مبنی ٹرمپ کی خارجہ پالیسی پر بڑا سوالیہ نشان لگا دیا۔ زہران ممدانی نے کہا: "میں نے غزہ میں اسرائیلی حکومت کی جانب سے جاری نسل کشی پر بات کی ہے اور ہماری حکومت کی جانب سے اس کی مالی فنڈنگ کی بات بھی کی ہے۔" اس نے مزید کہا: "ہم یہ دیکھ دیکھ کر تھک چکے ہیں کہ ہمارے ٹیکس نہ ختم ہونے والی جنگوں پر خرچ ہوتے ہیں، ہمیں بین الاقوامی قوانین کی پابندی کرنی چاہیے۔" ٹرمپ جو اب تک سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف تمام قراردادوں کو ویٹو کرتا آیا ہے ایک تنقید کرنے والے میئر سے روبرو ہے اور یہ مسئلہ اندرونی تناو میں مزید شدت پیدا کر سکتا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: حکومت کی جانب سے میں اسرائیل ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاوس یہ ملاقات ہاوس میں ٹرمپ کی ہے اور
پڑھیں:
امریکی وزیر دفاع کی نائجیریا کے سیکیورٹی مشیر سے خفیہ ملاقات
ابوجا: امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل ڈین کین نے نائجیریا کے قومی سلامتی کے مشیر ملاّم روحباؤدو سے خفیہ ملاقات کی ہے جو ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مغربی افریقی ملک میں مسیحی برادری کے خلاف مبینہ مظالم کے حوالے سے فوجی کارروائی کی دھمکیاں دی تھیں۔
عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ ملاقات پینٹاگون میں ہوئی مگر اسے میڈیا سے مکمل طور پر مخفی رکھا گیا اور سرکاری شیڈول پر بھی ظاہر نہیں کیا گیا۔
امریکی دفاعی حکام کا کہنا ہے کہ گفتگو نائجیریا میں جاری تشدد، بین المذاہب کشیدگی اور ممکنہ امریکی ردعمل کے حوالے سے تھی۔
خیال رہےکہ رواں ماہ کے آغاز میں امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹس میں کہا تھا کہ اگر نائجیریا کی حکومت نے مسیحیوں کے قتل عام کو نہ روکا تو امریکا نہ صرف تمام امداد روک دے گا بلکہ گنز اَ بلیزنگ انداز میں فوجی مداخلت بھی کرسکتا ہے۔
واضح رہےکہ نائجیریا میں مذہبی تنازعات اور نسلی کشیدگی کا معاملہ پیچیدہ ہے، عالمی مانیٹرنگ گروپس، جن میں ACLED بھی شامل ہے، گزشتہ برسوں میں وہاں دسیوں ہزار شہری مارے جا چکے ہیں اور ہلاکتوں میں مسلمانوں اور مسیحیوں دونوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔