ادب کو نوبیل انعام ہنگری کے ناول نگار لاسزلو کراسزنہورکائی کے نام
اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسٹاک ہوم: نوبیل ایوارڈز کمیٹی نے ادب کا نوبیل انعام یورپی ملک ہنگری کے مشہور ادیب و ناول نگار لاسزلو کراسزنہورکائی کو دینے کا اعلان کردیا۔
انہیں ان کی شاندار ادبی خدمات اور ناولز پر ایوارڈ دیا گیا، ان کے لیے مشہور ہے کہ وہ قیامت خیز خوف کے درمیان فن کی طاقت کو اجاگر کرنے کا فن جانتے ہیں۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق سویڈش اکیڈمی نے کہا کہ کراسزنہورکائی وسطی یورپ کی عظیم ادبی روایت کے ادیب ہیں جو کافکا سے لے کر تھامس برن ہارڈ تک پھیلی ہوئی ہے۔
امریکی ناقد سوسن سونٹاگ نے کراسزنہورکائی کو قیامت کا استاد قرار دیا تھا، ان کا مشہور ناول ’ساتان ٹینگو‘ 1985 میں شائع ہوا جو ہنگری کے ایک دیہی علاقے اور کیمونزم کے خاتمے سے پہلے کے حالات کو دکھاتا ہے، اس ناول نے ہنگری سمیت دیگر ممالک میں بہت شہرت حاصل کی۔کراسزنہورکائی دوسرے ہنگری ادیب ہیں جنہیں یہ ایوارڈ ملا، اس سے قبل 2002 میں ایمرے کیرٹیز نے بھی ادب کا نوبیل انعام جیتا تھا۔
نوبیل انعام جیتنے والے ناول نگار کی ناولوں پر ہنگری کے فلم ساز بیلا ٹار نے فلمیں بھی بنائی ہیں، جن میں ’ساتان ٹینگو‘ اور ’دی ویرک میسٹر ہارمونیز‘ شامل ہیں۔ان کی تحریریں روس- یوکرین جنگ یا فلسطین -اسرائیل تنازع جیسے موجودہ حالات سے متاثرہ قارئین کے لیے گہرا اثر رکھتی ہیں، انہیں قیامت خیز خوف میں فن کی طاقت کو دکھانے کا استاد مانا جاتا ہے۔
پچھلے سال ادب کا نوبیل ایوارڈ جنوبی کوریا کی ہان کانگ نے جیتا تھا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: نوبیل انعام ہنگری کے
پڑھیں:
سچ بولنے کی قیمت
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
آج پی آئی اے ایسے موڑ پر کھڑی ہے جہاں سچ بولنا سب سے بڑا جرم بن گیا ہے۔ جنہوں نے مسافروں کی حفاظت اور ملازمین کے حق کی بات کی، ان کے خلاف کارروائی کی گئی۔ حالیہ دنوں میں 2 نمائندوں کی برطرفی نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ادارہ اپنی ناکامیوں کا بوجھ انہی لوگوں پر ڈال رہا ہے جو بہتری چاہتے تھے۔
یہ سب اس وقت ہو رہا ہے جب پی آئی اے مسلسل نقصان میں جا رہی ہے۔ طیارے زمین پر کھڑے ہیں، شیڈول بگڑ چکے ہیں اور ہزاروں اہل ملازمین مایوسی کا شکار ہیں۔ ایسے میں ان چند لوگوں کو نشانہ بنانا جو ادارے کی اصلاح کی بات کرتے ہیں، کسی صورت انصاف نہیں۔
ماضی میں بھی یہی روش رہی کہ جو سوال کرے، وہ غیر ضروری قرار پاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ادارے کے اندر خوف کی فضا پیدا ہو گئی ہے۔ لوگ جانتے ہیں کہ اگر زبان کھولی تو نوکری جائے گی، اس لیے سب چپ ہیں۔ یہ خاموشی ہی اصل زوال ہے۔
اصلاح کا آغاز اس دن ہوگا جب فیصلے میرٹ پر ہوں، احتساب نیچے نہیں اوپر سے شروع ہو، اور اختلاف کو جرم نہ سمجھا جائے۔ پی آئی اے کو دوبارہ سنبھالنے کے لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ سچ بولنے والوں کو سزا نہیں، اعتماد دیا جائے۔
ادارے زندہ اس وقت رہتے ہیں جب ان کے لوگ خود کو محفوظ سمجھیں۔ جب محنت کش خوف کے بغیر بول سکیں، تب ہی پروازیں بھی سنبھلتی ہیں اور عزت بھی۔