میئر سکھر اور ترجمان سندھ حکومت بیرسٹر ارسلان اسلام شیخ نے جاپان میں منعقد ہونے والے یونائیٹڈ نیشنز انٹرنیشنل میئرز فورم 2025 میں سکھر میونسپل کارپوریشن اور حکومت سندھ کی نمائندگی کی، اس کانفرنس کا عالمی موضوع تھا “Actions Today for a Resilient Future.”

جاری کردہ بیان کے مطابق بیرسٹر ارسلان اسلام شیخ اپنی سیاسی و سرکاری مصروفیات کے باعث اس فورم میں ذاتی طور پر شرکت نہیں کر سکے، تاہم انہوں نے اپنی خصوصی ویڈیو پریزنٹیشن کے ذریعے عالمی مندوبین اور دنیا بھر کے شہروں کے رہنماؤں سے خطاب کیا۔

اپنے خطاب میں بیرسٹر ارسلان نے سکھر کی جانب سے Sustainable Development Goals (SDGs) کے مقامی سطح پر نفاذ کے لیے کیے جانے والے اقدامات کو اجاگر کیا، بالخصوص Goal 6 (Clean Water and Sanitation)، Goal 11 (Sustainable Cities and Communities)، اور Goal 13 (Climate Action) پر عملدرآمد کو جو چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے پائیدار اور جامع شہری ترقی کے وژن کی عکاسی کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سکھر ایک تاریخی دریا سندھ کے کنارے آباد “مزاحمت اور مواقع کا شہر” ہے جو پائیدار شہری نظم و نسق کا پاکستان میں ایک ماڈل بن کر اُبھر رہا ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ سکھر کی میونسپل اصلاحات عالمی اہداف کو مقامی سطح پر حقیقت میں تبدیل کر رہی ہیں، جو 2030 Agenda for Sustainable Development کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔

میئر نے Sukkur Water and Sewerage Corporation Act 2023 کے نفاذ کو ایک بڑا ادارہ جاتی سنگِ میل قرار دیا، جس کے تحت Sukkur Water and Sewerage Corporation (SWSC) قائم کی گئی جو سکھر میونسپل کارپوریشن، حکومت سندھ اور صوبائی محکموں کی مشترکہ نگرانی میں ایک خودمختار ادارے کے طور پر کام کر رہی ہے۔ یہ فریم ورک مالی و انتظامی شفافیت، جوابدہی، اور مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔

بیرسٹر ارسلان اسلام شیخ نے شہری انتظام کے شعبے میں سکھر کی پیش رفت پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ Sindh Solid Waste Management Board (SSWMB) کا سکھر چیپٹر قائم کیا گیا ہے، جس نے شہر میں کوڑا کرکٹ کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کر دیا ہے۔ Mechanized sweeping، door-to-door collection، transfer stations اور sanitary landfill operations جیسے اقدامات سے شہر کو صاف اور صحت مند بنایا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ solid waste management اور ماحولیاتی صفائی عوامی صحت اور SDG 3 (Good Health and Well-being) اور SDG 13 (Climate Action) سے براہِ راست منسلک ہیں۔

انہوں نے Sukkur Clean Water Project کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ یہ منصوبہ حکومت سندھ اور Asian Development Bank کے اشتراک سے شروع کیا گیا ہے تاکہ ہر گھر تک صاف اور پائیدار پینے کا پانی پہنچایا جا سکے۔ اس منصوبے میں smart metering، GIS mapping اور SCADA systems کے ذریعے شفافیت اور کارکردگی کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔

میئر نے سکھر کے Mass Transit Corridor Project کا بھی ذکر کیا، جو شہریوں کو سستی، محفوظ اور ماحول دوست ٹرانسپورٹ فراہم کرنے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔

یہ منصوبہ Sindh Mass Transit Authority کے تعاون سے شہر میں ٹریفک کے دباؤ کو کم کرنے، کاربن کے اخراج میں کمی لانے، اور کم آمدنی والے طبقے کے لیے بہتر نقل و حرکت فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ یہ اقدامات براہِ راست SDG 11 (Sustainable Cities and Communities) اور SDG 13 (Climate Action) کے اہداف سے ہم آہنگ ہیں۔

میئر نے “Partnerships for Localization” ماڈل پر بھی روشنی ڈالی، جو مقامی، صوبائی اور بین الاقوامی شراکت داروں کو یکجا کرتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ Asian Development Bank، محکمہ آبپاشی اور پبلک ہیلتھ انجینئرنگ سمیت مختلف اداروں کے ساتھ تعاون کے ذریعے ماحولیاتی لحاظ سے محفوظ اور پائیدار شہری منصوبہ بندی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔

بیرسٹر ارسلان نے کہا کہ حکمرانی کا اصل مقصد عوام کی زندگیوں میں بہتری لانا ہے۔ سکھر میں ward-based citizen committees کے ذریعے عوامی شمولیت کو فروغ دیا گیا ہے، tariff reforms متعارف کرائی گئی ہیں، اور خواتین، خصوصی افراد اور کم آمدنی والے نوجوانوں کے لیے Skill Development and Vocational Training Centre قائم کیا گیا ہے تاکہ ترقی کے مواقع سب کے لیے برابر ہوں۔

انہوں نے پاکستان کے ہم آہنگ معاشرتی ورثے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سکھر میں Eid Milad-un-Nabi، Muharram، Christmas، Diwali اور Guru Nanak Jayanti جیسے مذہبی تہوار مشترکہ طور پر منائے جاتے ہیں، جو بین المذاہب ہم آہنگی کی روشن مثال ہے۔ انہوں نے کہا کہ پائیدار شہر صرف بنیادی ڈھانچے سے نہیں بلکہ عوام کے درمیان اعتماد، رواداری اور اتحاد سے بنتے ہیں، جو SDG 16 (Peace, Justice, and Strong Institutions) سے مطابقت رکھتا ہے۔

انہوں نے ماحولیاتی تحفظ کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ Indus Dolphin Sanctuary میں موٹر بوٹس پر پابندی عائد کی گئی ہے تاکہ نایاب Indus Blind Dolphin کی بقا کو یقینی بنایا جا سکے۔

یہ اقدام ترقی اور ماحولیات کے درمیان توازن قائم رکھنے کے لیے سکھر کے عزم کی علامت ہے، جو پاکستان کے Paris Agreement کے وعدوں کی تکمیل ہے۔

بیرسٹر ارسلان نے اپنی اصلاحات کو مزید وسعت دیتے ہوئے انہیں SDG 4 (Quality Education)، SDG 9 (Industry, Innovation & Infrastructure) اور SDG 16 (Strong Institutions) کے ساتھ منسلک قرار دیا۔

اپنے اختتامی خطاب میں میئر ارسلان اسلام شیخ نے عالمی رہنماؤں سے اپیل کی کہ Sustainable Development Goals صرف قومی سطح کے عزائم نہیں بلکہ مقامی سطح سے شروع ہونے والے اجتماعی مشن ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سکھر کی کہانی اصلاحات، شمولیت، ہم آہنگی اور ماحولیاتی تحفظ کی ہے، جو یہ ثابت کرتی ہے کہ محدود وسائل کے باوجود ایک شہر جدت، تعاون اور مشترکہ اقدار کے ذریعے قیادت کر سکتا ہے۔

انہوں نے کہا: “ہماری تعمیر کنکریٹ میں نہیں بلکہ ہمدردی، ہمت اور تعاون میں ہونی چاہیے۔”

میئر نے اپنے پیغام کے اختتام پر کہا: “جس طرح دریائے سندھ صدیوں سے سکھر کی رگوں میں بہتا آیا ہے — قدیم، مضبوط اور زندگی سے بھرپور — اسی طرح ہماری اجتماعی کوششیں بھی اسی عزم اور جذبے کے ساتھ ایک پائیدار مستقبل کی سمت رواں دواں رہیں۔”

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ارسلان اسلام شیخ انہوں نے کہا کہ بیرسٹر ارسلان جا رہا ہے کے ذریعے کے ساتھ کہ سکھر سکھر کی گیا ہے کے لیے

پڑھیں:

تین صوبوں میں کارکردگی کا مقابلہ

ملک کے تین بڑے صوبوں پنجاب، سندھ اور کے پی کے میں ڈیڑھ سال قبل مسلم لیگ (ن) کی پنجاب، پیپلز پارٹی کی سندھ اور پی ٹی آئی کی کے پی کے میں حکومت بنی تھی جن میں مراد علی شاہ وزیر اعلی سندھ بنے۔ بعد میں پی ٹی آئی کی کے پی حکومت بنی جس کے وزیر اعلیٰ علی امین بنے جو پی ٹی آئی حکومت میں وفاقی وزیر کی حیثیت سے بھی اقتدار میں رہے اور پی ٹی آئی کی کے پی میں تیسری حکومت تھی۔

پنجاب کی وزیر اعلیٰ برائے راست اقتدار میں ڈیڑھ سالقبل آئیں، اس لحاظ سے مریم نواز جونیئر تھیں اور ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا اقتدار انھیں ملا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی چوتھی، کے پی میں پی ٹی آئی کی تیسری حکومت ہے۔ 2022 تک پنجاب میں پی ٹی آئی کی تقریباً چار سال حکومت رہی کہ جہاں پہلی بار عثمان بزدار جیسا غیر معروف اور نیا چہرہ وزیر اعلی بنا اور کچھ عرصہ پی ٹی آئی سے تجربہ کار، مشہور اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ رہے۔

مریم نواز کے والد نواز شریف اور چچا میاں شہباز شریف چار، پانچ بار پنجاب کے بااختیار وزیر اعلیٰ اور بعد میں وزیر اعظم رہے، جن سے مریم نواز کو بہت کچھ سیکھنے کا موقعہ تو ملا مگر وہ پہلی بار ڈیڑھ سال قبل پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ منتخب ہوئیں ۔

 سندھ میں پی پی نے مراد علی شاہ کو قائم علی شاہ کے بعد وزیر اعلیٰ بنایا تھا وہ سینئر وزیر اعلیٰ ہیں جب کہ علی امین کو صرف ڈیڑھ سال وزیر اعلیٰ رہنے دیا گیا جو پرویز خٹک اور محمود خان سے بھی کم عرصہ وزیر اعلیٰ کے پی رہے کیونکہ بانی پی ٹی آئی کسی کو دوسری بار اقتدار میں نہیں رکھتے اور صرف اپنے لمبے اقتدار کے خواہاں ہیں۔

جنرل پرویز کے دور میں پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ پنجاب رہے جن کے بعد 2008 میں مسلم لیگ (ن) نے شہباز شریف کو تیسری بار وزیر اعلیٰ پنجاب بنایا تھا اور بلاشبہ دونوں کی حکومتوں میں پنجاب میں جتنی ترقی ہوئی اس کی کوئی مثال سندھ میں پیپلز پارٹی پیش نہیں کر سکتی جب کہ 2013 کے بعد کے پی میں پی ٹی آئی حکومت میں اتنی ترقی نہیں ہوئی جس کا پی ٹی آئی اور اس کے بانی دعوے کرتے نہیں تھکتے جب کہ سندھ میں صرف صحت کے سلسلے میں ترقی ضرور ہوئی جس پر سندھ حکومت کا دعویٰ ہے کہ صحت کے سلسلے میں کسی اور صوبے میں سندھ جیسی ترقی نہیں ہوئی اور یہی وجہ ہے کہ ملک بھر سے لوگ علاج و معالجہ کے لیے سندھ کے اسپتالوں میں آتے ہیں۔

پی ٹی آئی تو مسلم لیگ ن کی دشمنی میں یہ مانتی ہی نہیں کہ (ن) لیگ دور میں پنجاب میں کوئی ترقی ہوئی مگر پیپلز پارٹی یہ مانتی ہے کہ مریم نواز سمیت مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں میں پنجاب میں ترقی ہوئی مگر پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کا یہ کہنا درست ہے کہ مسلم لیگ ن نے اپنی حکومتوں میں پنجاب کیا لاہور تک میں کوئی ایسا جدید اسپتال نہیں بنایا جس کو جدید ترین کہا جا سکتا اور اسی لیے بڑے لوگ اور مسلم لیگ ن کے رہنما اپنا علاج اور طبی معائنہ بھی ملک سے باہر جا کر کراتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ پنجاب کی ترقی میں پیش پیش موجودہ حکومت لاہور ہی میں کوئی ایسا جدید سرکاری اسپتال بنوائے جو عالمی معیار کا اور اس قابل ہو کہ لوگوں کو علاج و طبی معائنہ کے لیے ملک سے باہر نہ جانا پڑے۔

مسلم لیگ (ن) یہ دعوے کرتی ہے کہ پنجاب میں میٹرو اور اورنج ٹرین جیسے بڑے منصوبے اس کے دور میں بنائے گئے۔ پی ٹی آئی والے سیاسی دشمنی میں مسلم لیگ ن پر غلط الزام بھی لگاتے اور پھر اس کے منصوبوں کی پیروی بھی کرتے رہے اور لاہور میٹرو کو ’’ جنگلا بس‘‘ کہتے تھے اور پھر یہی میٹرو پی ٹی آئی نے پشاور میں بنوائی جب کہ سندھ حکومت خود یہ بھی نہ کر سکی کہ اپنے وسائل سے کراچی میں میٹرو ہی بنواتی وہ بھی 2013 میں اقتدار میں آ کر کراچی میں نواز شریف نے شروع کرائی جس میں سندھ حکومت بھی شامل تھی مگر سرجانی سے گرومندر تک ہی بن سکی اور سالوں گزر گئے مگر وفاق اور سندھ مل کر یونیورسٹی روڈ کی میٹرو نہ بنوا سکے کیونکہ دونوں ہی کو کراچی والوں کی پریشانی کا احساس نہیں ہے۔

ہمیشہ مقابلہ ترقیاتی کاموں کا ہوتا ہے جہاں کمیشن بھی معقول ملتا ہے اور کام نظر بھی آتے ہیں جب کہ ترقیاتی کاموں، تعمیرات میں کمیشن کے علاوہ ’’ک‘‘ سے ہی کرپشن بھی ہوتی ہے اور کرپشن کے سلسلے میں کوئی صوبہ بھی پاک نہیں۔ بلوچستان میں کارکردگی ہے ہی نہیں وہاں صرف کرپشن کا عروج ہے جہاں فائلوں میں ترقیاتی منصوبے زیادہ بنتے ہیں اور فائلوں میں ہی ترقی ہو جاتی ہے اور ترقیاتی فنڈ خرد برد کر لیا جاتا ہے۔

’’ ک‘‘ میں ہی ترقی و کارکردگی ہے۔ ’’ ک‘‘ سے ہی کرپشن اورکمیشن اور تینوں بڑے صوبوں میں پنجاب میں کارکردگی و ترقی کا اعتراف پیپلز پارٹی بھی کرتی ہے جب کہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ ملک میں کرپشن بھی بدترین سطح پر ہے مگر کرپشن وکمیشن نظر نہیں آتے نظر صرف کارکردگی ہی ہر جگہ آتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • حکومت نے سکھر حیدرآباد موٹر وے منصوبے کی ڈیڈ لائن مقرر کردی
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کا کتوں کو ہلاک کرنے پر متعلقہ حکام کیخلاف مقدمہ درج کرنے کا عندیہ
  • حب،ضلع میونسپل کارپوریشن کے ورکرز صفائی مہم کے دوران گلی کی صفائی کررہے ہیں
  • سندھ حکومت نے گریٹر کراچی پلان 2047 پر کام کا آغاز کردیا، شہریوں کی رائے بھی طلب
  • سندھ کا کسی اور شہر یا صوبے سے نہیں ، دنیا سے مقابلہ ‘ بلاول 
  • کویت-پاکستان بزنس ایکسپو دوطرفہ اقتصادی تعلقات کے لیے اہم ہے
  • سندھ کا مقابلہ دنیا سے ہے، کسی شہر یا صوبے سے نہیں، بلاول بھٹو زرداری
  • تین صوبوں میں کارکردگی کا مقابلہ
  • پاکستان اور انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن کے درمیان ریکوڈک منصوبے کی جلد مالی تکمیل پر اتفاق