سپر ٹیکس سرمایہ کاروں کے لیے سزا کے طور پر لاگو کیا گیا، سپریم کورٹ میں وکیل کے دلائل
اشاعت کی تاریخ: 16th, October 2025 GMT
اسلام آباد:
سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس کیس کی سماعت کے دوران وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ یہ سرمایہ کاروں کے لیے سزا کے طور پر لاگو کیا گیا ہے۔
جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی آئینی بینچ نے سپر ٹیکس کیس کی سماعت کی، جس میں مختلف کمپنیوں کے وکیل فروغ نسیم نے اپنے دلائل مکمل کیے۔
دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ سپر ٹیکس میں مقررہ رقم لکھی ہوئی کہ کتنے پر ٹیکس لگے گا ۔ کمپنیز اپنے اپنے حصے کا ٹیکس دیں گی جو ان پر بنتا ہوگا ۔ آپ جو کہہ رہے اس سے یہ لگ رہا کہ جن پر ٹیکس نہیں لگایا گیا ان پر بھی ٹیکس لگا دیا جائے ۔
وکیل فروغ نسیم نے جواب دیا کہ شاید میں اپنے دلائل ٹھیک سے بریف نہیں کر پایا ۔ جسٹس جمال مندوخیل نے فروغ نسیم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ کسی کے ساتھ فرق نہ ہو ۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ فائنل ٹیکس رجیم میں جو ٹیکس لگ گیا، اس کے بعد اور نہیں لگ سکتا ۔ سپر ٹیکس الگ کیٹیگری میں لگایا گیا ہے۔
بعد ازاں عدالت نے سماعت میں وقفہ کردیا اور دوبارہ سماعت شروع ہونے پر پاکستان ٹوبیکو کمپنی کے وکیل عزیز نشتر اور نجی کمپنی کے وکیل اعجاز احمد زاہد نے اپنے دلائل شروع کیے۔
وکیل عزیز نشتر نے اپنے دلائل میں کہا کہ آرٹیکل 18 مجھے کاروبار کی اجازت دیتا ہے تو اسی طرح ریاست کو بھی کہتا ہے مجھے کاروبار کا ماحول دے۔ ریاست اور پھر قانون سازی نے مجھے کاروبار کا ماحول نہیں دیا جو آئین مجھے دینے کا کہتا ہے ۔ ٹیکس کی بدترین قسم اس وقت پاکستان میں ہے ۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ سازگار ماحول کیسے پیدا کرنا چاہیے ؟ ٹیکس نیٹ کو بڑھایا جائے ؟۔ وکیل عزیز نشتر نے جواب دیا کہ مجھے منافع نہیں ہورہا، تب بھی میں ٹیکس دے رہا ہوں ۔ آج کے اس دور میں ریڑھی والے کو بھی جیو ٹیگ لگایا جا سکتا ہے ۔
جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ حکومت کو فوری ضرورت پڑی تو اس نے سپر ٹیکس لگا دیا ہے ، جس پر وکیل عزیز نشتر نے کہا کہ انویسٹرز اور کمانے والوں کے لیے سزا کے طور پر سپر ٹیکس لاگو کیا گیا ہے۔
وکیل اعجاز احمد نے کہا کہ فنانس بل آرٹیکل 73 کے تقاضے پورے کیے بغیر پاس ہوا ۔ اس وقت کے وفاقی وزیر نے بیان دیا کہ 300 ملین پر 2 فیصد ٹیکس لگے گا۔
وکیل عزیز نشتر نے کہا کہ ایف بی آر کو ٹیکس ریٹ کو کم جب کہ پرفارمنس پر زیادہ فوکس کرنا چاہیے ۔
وکیل اعجاز احمد زاہد نے کہا کہ 10 جون کو بجٹ پیش کیا جاتا ہے اس سے پہلے پالیسی اسٹیٹمنٹ لاگو نہیں ہو سکتی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو ڈالر اتنے کا ہی مل رہا ہے جتنے کا پہلے مل رہا تھا، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ اگر بین الاقوامی سطح پر انرجی کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو پاکستان میں بھی بڑھیں گی۔
بعد ازاں عدالت نے سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل عزیز نشتر نے نے اپنے دلائل نے کہا کہ سپر ٹیکس پر ٹیکس دیا کہ
پڑھیں:
متاثرہ ججز نکال دیں تو بات پھر جسٹس امین الدین کے پاس آئے گی، جسٹس مسرت
اسلام آباد:سپریم کورٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف کیس کی سماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے چیف جسٹس سمیت متاثرہ ججز نکال دیں تو بات پھر جسٹس امین الدین کے پاس آئے گی۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 8رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی ۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے آرٹیکل 191 اے جوڈیشل کمیشن کو اختیار دیتا ہے کہ وہ آئینی بینچز کیلیے ججز نامزد کرے۔
جوڈیشل کمیشن پر یہ پابندی تو نہیں ہے اس نے کس جج کو نامزد کرنا ہے کسے نہیں، 8 رکنی بنچ جوڈیشل کمیشن کو ہدایت دے سکتا ہے کہ وہ فل کورٹ بنائے۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا اگر جوڈیشل کمیشن ایک جج کو آئینی بنچ کیلئے نامزد نہیں کرتا تو کیا ہم اسے شامل کرنے کیلئے آرڈر دے سکتے ہیں؟ جوڈیشل کمیشن کی کارروائی اسکا اندرونی معاملہ ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کیا جوڈیشل کمیشن سپریم کورٹ سے بھی اوپر ہے؟ جسٹس امین الدین خان نے کہا سپریم کورٹ کا اپنا اختیار ہے اور جوڈیشل کمیشن کی اپنی اتھارٹی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے عابد زبیری سے کہا آپ فل کورٹ نہیں مانگ رہے، آپ تو کہہ رہے ہیں 16 ججز چاہئیں، فرض کریں جوڈیشل کمیشن کہہ دے ہمیں آئینی بنچز کیلئے 4 ججز کی ضرورت نہیں تو کیا وہ جج سپریم کورٹ میں اپیل دائر کریں گے؟
جسٹس عائشہ ملک نے کہا اگر جوڈیشل کمیشن کسی جج کو نامزد نہیں کرتا تو کیا سپریم کورٹ آئینی ذمہ داری ادا نہیں کرے گی؟
جسٹس محمد علی مظہر نے عابد زبیری سے کہا جسٹس عائشہ ملک کی آبزرویشن کے بعد آپ نے تو اپنے دلائل ہی تبدیل کردیے، پہلے آپکی دلیل تھی سپریم کورٹ کا یہ بنچ 8 ججوں کو شامل کرنے کیلئے جوڈیشل آرڈر کرے،اب آپ کہہ رہے ہیں جوڈیشل کمیشن کو ہدایت دی جائے۔
عابد زبیری نے کہا میری دلیل یہ ہے کہ سپریم کورٹ جوڈیشل آرڈر کرے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ٹھیک ہے پھر تو جوڈیشل کمیشن والی بات ہی ختم ہو گئی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا آئینی بنچز کی تشکیل کا معاملہ تو ججز آئینی کمیٹی اکثریت سے طے کرتی ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا چیف جسٹس پاکستان جب آئینی بنچ کیلئے نامزد نہیں ہیں تو انھیں معاملہ کیسے بھیجا جاسکتا ہے؟
جسٹس عائشہ ملک نے کہا اگر عدالت حکم نہیں دے سکتی پھر تو فل کورٹ بیٹھ ہی نہیں سکتی ،کمیشن اگر صرف پانچ ججز کو کہہ دے تو صرف پانچ ججز ہی بیٹھیں گے ۔عابد زبیری کے دلائل مکمل ہونے پر سماعت پیر تک ملتوی کر دی گئی ۔