کلب کرائے کی زمین پر ہے ملکیت مل جائے تو اسپورٹس کمپلیکس بناؤں گا، اشرف طائی
اشاعت کی تاریخ: 16th, October 2025 GMT
گرینڈ ماسٹر اشرف تائی(فائل فوٹو)۔
گرینڈ ماسٹر اشرف طائی نے کہا ہے کہ ہمارا کلب کرائے کی زمین پر چل رہا ہے، ایک زمین ہے جس کی ملکیت مل جائے تو اسپورٹس کمپلیکس بناؤں گا۔
اپنی اہلیہ کے ساتھ کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اشرف طائی کا کہنا تھا کہ امراض قلب کے عارضہ میں مبتلا ہوں، تاہم اب بہتر محسوس کر رہا ہوں۔
انھوں نے کہا کہ بلاول بھٹو سے درخواست ہے وہ میرا معاملہ دیکھیں۔ گرینڈ ماسٹر اشرف طائی کی اہلیہ ثمینہ اشرف نے کہا کہ ہم یہی چاہتے ہیں کہ اشرف طائی کے مکمل علاج کو یقینی بنایا جائے۔
انھوں نے مزید کہا کہ اشرف طائی کی ملکی خدمات پر شریف خاندان ہمارا ساتھ دے۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
قرض کے مضر اثرات
جب آپ صبح سویرے اٹھ کر شہر کی سڑکوں پر قدم رکھتے ہیں تو ٹوٹی ہوئی سڑکیں ارد گرد ٹوٹی پھوٹی بسیں ویگنیں، رکشے، بجلی کی ٹوٹی ہوئی تاریں، اجاڑ پارک، ریلوے اسٹیشن کی پرانی قدیم عمارتیں اور بہت کچھ اشارہ کر رہی ہوتی ہیں کہ پاکستان ایک غریب ترین ملک ہے۔ یہاں کے عوام کی مفلوک الحالی پچکے ہوئے چہرے، بچوں کی سوکھی ٹانگیں، بوڑھوں کی پریشان جبینیں اور بہت کچھ سدا بہار مفلسی کا فسانہ سنا رہے ہوتے ہیں۔
ایک طرف عوام کی مفلوک الحالی، دوسری طرف معاشی ترقی کے بیانیے، ترسیلات زرکے اعداد و شمار کے ساتھ ساتھ قرض کے لامتناہی سلسلے کی کہانی اور اس پر آئی ایم ایف کی طرف سے مزید قسطوں کے اجرا پر خوشی کا اظہار، ورلڈ بینک سے قرض وصولی پر اطمینان کا شکرانہ، یوں معلوم دیتا ہے کہ جیسے جیسے شرح سود پر قرض کا بوجھ بڑھتا جاتا ہے، ہر حکومت کی خوشی اسی میں ہوتی ہے کہ حکومت قائم رکھنے کے لیے جتنا ہو قرض لیا جائے۔ فکر کی کوئی بات نہیں ہوتی کیونکہ قرض حکومت لیتی ہے اور قرض کا بوجھ عوام پر پڑتا ہے۔
ایک ماہ قبل اخباری اطلاع کے مطابق سوا تین لاکھ روپے کا مقروض ہر شہری ہے۔ ایک اور اطلاع کے مطابق ساڑھے تین لاکھ روپے فی شہری پر قرض کا بوجھ ہے۔
قرض کے ساتھ قرض پر سودکا بوجھ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ مختلف رپورٹس کے مطابق اکثر قرض اتنا ہی رہتا ہے لیکن سود کی ادائیگی میں اربوں روپے ادا کیے جاتے ہیں جو قومی بجٹ کا ایک بڑا حصہ نگل رہے ہیں، لیکن قرض کی ادائیگی میں فی شہری پر جس طرح سے قرض کا بوجھ ساڑھے تین لاکھ تک ہے تو اس میں امیر غریب، بچے بوڑھے، جوان، مرد و زن کے درمیان سادات کا قانون نافذ کیا جاتا ہے۔ یوں سمجھیں کہ قرض کی ادائیگی ایک ایسا فرض ہے جس میں ہر شہری برابر ہے۔
چلیے ایک موقع پر ایک بات ایسی سامنے آ گئی جس میں سب کے حقوق برابر ہیں، لیکن قرض کے بار اور قرض کے بوجھ کے اثرات کے تحت غریب اور امیر ہر اثرانداز ہوتے ہیں۔ قرض نے بھی ستم ظریفی دکھائی ہے کیونکہ قرض کا بوجھ ان شہریوں پر زیادہ مضر اثرات مرتب کرتا ہے جو پہلے ہی غریب ہیں، مفلوک الحال ہیں، مزدور ہیں، بے روزگار ہیں۔
اس قرض کے بوجھ کو غریب کمزور طبقات کے لیے مارکیٹ کی ناکامی کے طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے اور پاکستان کی معیشت نے یہ ثابت بھی کر دیا ہے،کیونکہ معاشی نظام میں قرض کے غالب ہونے، شرح سود کی رقوم میں اضافے یعنی بجٹ کا ایک بہت بڑا حصہ اس کے لیے مختص کیا جاتا ہے، لہٰذا یہ نظام غریب کو مزید غریب بنا رہا ہے ایک طرف ترقیاتی اخراجات میں مسلسل کمی ہو رہی ہے جس سے ملک اب فلاحی مملکت کی حیثیت سے گر کر درآمدی معیشت والی حیثیت اختیار کیے جا رہا ہے جس سے غریب مزید غریب یا مزدور کا بچہ مزدور، بے روزگاری ہونے کے باعث زمین پر غیر پیداواری محنت کا حصہ بڑھ رہا ہے۔
مثلاً کسی بوڑھے بابا کی 5 بیگھہ زمین ہے یا اس کے پاس 15 ایکڑ زمین ہے بوڑھے بابا نے زمینداری چھوڑ دی۔ اب اس کے جوان بیٹے زمین کو سنبھالتے ہیں۔ فرض کیا اس پر پہلے ہی تین بیٹے کام کر رہے ہیں اب چوتھا بیٹا روزگار کی تلاش میں بڑے شہرگیا، چند ہفتوں کے بعد اس نے واپس آ کر شاید یہ بتایا ہوگا کہ شہر میں کارخانوں کو تالے لگ گئے ہیں اور جو کارخانے کام کر رہے ہیں، ان میں مزدوروں کی قطار لگ جاتی ہے۔
شام کو اس قطار میں سے محض چند افراد کو کام پر رکھ لیا جاتا ہے، باقی سے معذرت کر لی جاتی ہے۔ بابا نے شاید یہ پوچھا ہو کہ بند کارخانوں کے سیٹھ صاحبان اب کیا کرتے ہیں اس نے جو باتیں شہر جا کر سنی تھیں وہ اپنے والد بزرگوار کو سنا دیں کہ بہت سے مل والے بنگلہ دیش چلے گئے ہیں اور چند دیگر ملکوں کو، زیادہ تر دبئی جا کر کوئی کاروبار کر رہے ہیں اور جو رہ گئے انھوں نے اپنے کارخانوں کو گودام میں تبدیل کر دیا۔ کہیں گندم کی بوریاں ذخیرہ کر دی جاتی ہیں۔
کہیں آٹا، گھی، چینی، دال اورکہیں کئی اقسام کے پھل جب ماہ رمضان المبارک آتا ہے تو بڑے لوگ بڑھتے ہوئے داموں میں ان سب کو فروخت کر دیتے ہیں اور مارکیٹ میں کبھی آٹے کی قلت کبھی دال کبھی گھی کبھی چینی کی قلت دور کرنے پر زیادہ سے زیادہ دام لے کر آٹا چینی چاول،گھی، دالیں فروخت کر دی جاتی ہیں۔ زیادہ سے زیادہ منافع بھی کما لیا اور حکومتی طرح طرح کے قانون کے باعث تنگ آئے ہوئے کارخانہ داروں کا بغیرکسی جھنجھٹ کے کروڑوں روپے کمانے کا ہنر بھی ہاتھ آگیا یا پھر پلاٹ کی خرید و فروخت کرتے کرتے چند لاکھ کا پلاٹ اب کروڑوں روپے کا ہو گیا ہے۔ بوڑھے کسان نے ایک لمبی آہ بھری ہوگی اور کہا ہوگا کہ ٹھیک ہے جب ملک کے معاشی نظام کو سود کے بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے تو ایسی صورت میں ملک میں روزگار کیسے آئے گا، مہنگائی بڑھتی چلی جائے گی اور لوگ غریب سے غریب تر ہوتے چلے جائیں گے۔
اب وہ بیٹا بھی چھوٹے سے قطعہ زمین پر بھائیوں کا ہاتھ بٹانے لگ جاتا ہے۔ اب ایک قطعہ زمین پر زیادہ سے زیادہ دو ہی افراد کافی تھے، اب اس میں چار افراد جب کام کریں گے تو دو افراد بے روزگاری کے ضمن میں آ جاتے ہیں کیونکہ زمین نے اتنی ہی پیداوار دینی ہے۔
مزید دو افراد زمین کی پیداوار میں کسی قسم کا اضافہ نہیں کر سکتے۔ ہو سکتا ہے کہ بوڑھے کسان کے پوتے کسی کی عمر 12 سال کسی کی عمر 15 سال ہے تو اسے خیال آتا ہوگا کہ جلد ہی اس کھیت پر مزید دو افراد کا بوجھ آن اترے گا۔ یوں کل 6 افراد چھوٹے سے قطعہ زمین پر راج کریں گے۔ پہلے جیسی مقدار میں اناج اٹھائیں گے یوں معاشرے میں افراد کا اضافہ ہو رہا ہے، آبادی بڑھتی جا رہی ہے ملک میں بتدریج غریب افراد کا مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ قرض کا بوجھ ہے جس نے غریب افراد کی آبادی میں مسلسل اضافہ کر دیا ہے اور اس کے ساتھ سود کی رقم بڑھتی چلی جا رہی ہے اور یہ سود ہی ہے جو معیشت کو نگل رہا ہے غریب اور امیر کا فرق بڑھا رہا ہے۔