ای او بی آئی: ایکچوریل ویلیویشن (Actuarial Valuation)کے اغراض و مقاصد
اشاعت کی تاریخ: 27th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واضح رہے کہ ای او بی آئی کے قیام سے اب تک اس کے اثاثہ جات اور واجبات کی 12 مرتبہ ایکچوریل ویلیویشن کی جاچکی ہے۔ ای او بی آئی کے اثاثہ جات اور واجبات کی ہر تین برس کے وقفہ سے ایکچوریل ویلیویشن کے ذریعہ مستقبل میں ادارہ کی قانونی ذمہ داریوں (Liabilities) کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ بعد ازاں یہ رپورٹ ای او بی آئی کے سہ فریقی بورڈ ا?ف ٹرسٹیز کے سامنے پیش کی جاتی ہے۔ بورڈ اپنے اجلاس میں ایکچوریل ویلیویشن رپورٹ کا جائزہ لے کر اور پنشن فنڈ کی صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے پنشن میں اضافہ کی سفارش کرتا ہے اور ان سفارشات کو وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل، حکومت پاکستان کے ذریعہ وفاقی حکومت کو ارسال کیا جاتا ہے۔ وفاقی کابینہ اپنے اجلاس میں غور وخوض کے بعد ای او بی آئی پنشن میں اضافہ کا اعلان کرتی ہے۔ جس کے بعد وزات باضابطہ طور پر پنشن میں اضافہ کا نوٹیفکیشن جاری کرتی ہے اور بعد ازاں ای او بی آئی پنشن میں اضافہ کی شرائط و ضوابط پر مبنی تفصیلی سرکلر جاری کرتا ہے۔
یہ بھی واضح رہے کہ ضعیف العمر ملازمین فوائد قانون 1976 کے مطابق کوئی وزیر اعظم،صدر پاکستان، کسی وفاقی وزیر یا کسی ایوان کو ای او بی آئی کی پنشن میں اضافہ کا ازخود کوئی اختیار حاصل نہیں، جیسا کہ بعض قانون سے ناواقف اور سادہ لوح پنشنرز اکثر سوشل میڈیا پر یہ بلاجواز مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں۔ پنشنرز یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ پنشن میں اضافہ کے لیے قانون میں صرف ایکچوریل ویلیویشن کا باضابطہ طریقہ کار مقرر ہے اور اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس سلسلہ میں ماضی کا ایک دلچسپ قصہ ہے کہ جنوری 2020 میں ای او بی آئی کے اس وقت کے جی حضوری چیئرمین نے حکومت وقت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ای او بی آئی کے اثاثہ جات اور واجبات کی ایکچوریل ویلیوویشن کرائے بغیر بالا ہی بالا پنشن میں اضافہ کی منصوبہ بندی کرکے یہ تجویز وزیر اعظم کے چہیتے معاون خصوصی کے ذریعہ وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کردی تھی۔ لیکن اس وقت کے وفاقی وزیر قانون وانصاف بیرسٹر فروغ نسیم نے اس غیر قانونی طرز عمل کا فوری نوٹس لیتے ہوئے پنشن میں اضافہ کی سفارشات کابینہ اجلاس میں پیش کرنے پر سخت اعتراض کیا تھا، جس پر وفاقی کابینہ نے ای او بی آئی پنشن میں اضافہ کی منظوری دینے سے انکار کردیا تھا۔ جس پر چیئرمین موصوف نے حکومت کو سبکی سے بچانے کے لیے آناً فاناً ایک غیر معروف ایکچوریل کمپنی سے مشکوک طریقہ سے ای او بی آئی کے اثاثہ جات اور واجبات کی ایکچوریل ویلیوویشن کرائی تھی۔ جس کے بعد بالآخر وفاقی کابینہ نے پنشن میں اضافہ کی منظوری دی تھی۔
ایک محتاط تخمینہ کے مطابق اس وقت ای او بی آئی کے پنشن فنڈ کا حجم 607 ارب روپے پر مشتمل ہے اور اس کے کاندھوں پر ایک لاکھ سے زائد رجسٹرڈ آجران/ اداروں، ایک کروڑ سے زائد بیمہ دار افراد (Insured Persons)یعنی مستقبل کے پنشنرز اور پانچ لاکھ سے زائد موجودہ بزرگ،معذور، بے سہارا بیوگان اور یتامیٰ پنشنرز کی ماہانہ کفالت کی بھاری ذمہ داری ہے۔ یہ امر قابل ستائش ہے کہ ای او بی آئی ہر ماہ باقاعدگی کے ساتھ ملک بھر میں اپنے مجاز بینک، بینک الفلاح لمیٹڈ کے ذریعہ ماہانہ تقریباً 5 ارب روپے اور سالانہ تقریباً 60 ارب روپے سے زائد مالیت کی خطیر رقوم سے پانچ لاکھ بزرگ، معذور، بے سہارا بیوگان اور یتامیٰ پنشنرزکی مالی کفالت کا قومی فریضہ انجام دے رہا ہے۔ جبکہ دوسری جانب ای او بی آئی میں سالانہ ہزاروں نئے بیمہ دار افراد اور پنشنرز کا اضافہ بھی ہورہا ہے۔
ای او بی آئی کے اثاثہ جات اور واجبات کی انٹرنیشنل پبلک سیکٹر اکائونٹنگ اسٹینڈرڈز (IPSAS-39کے مطابق منعقد کی گئی حالیہ 12ویں ایکچوریل ویلیویشن کی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پنشن فنڈ کو درحقیقت خسارہ کی صورت حال کا سامنا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر رجسٹرڈ آجران/ اداروں اور بیمہ دار افراد کی جانب سے ادا کیے جانے والے رواں کم از کم اجرت کے 6 فیصد کے مساوی ماہانہ کنٹری بیوشن کی شرح اسی طرح برقرار رہی، اگر وفاقی حکومت کی جانب سے 1995 سے بند کی گئی مساوی امداد بحال نہ کی گئی، آجر برادری کی اکثریت کی جانب سے اپنے ملازمین کی مد میں اپنی قانونی ذمہ داریوں سے چشم پوشی کا سلسلہ یونہی برقرار رہا اور کنٹری بیوشن کی کم رقوم کی وصولیابی اور پنشنرز کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد اور پنشن کی شرح میں اضافہ کا سلسلہ جاری رہا تو آئندہ برسوں میں ای او بی آئی پنشن فنڈ کے رفتہ رفتہ ختم ہوجانے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ چنانچہ پنشن ماہرین نے ای او بی آئی پنشن فنڈ کی کمزور حالت اور نمو پذیری کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی حالیہ 12 ویں ایکچوریل ویلیویشن رپورٹ میں یہ بھی خبردار کیا ہے کہ اگر کنٹری بیوشن کی وصولیابی اور پنشن کی تقسیم کی رقوم میں عدم توازن کی یہی صورتحال برقرار رہی تو خدشہ ہے کہ ای او بی آئی کا پنشن فنڈ 2031-32کے دوران ختم ہونا شروع ہو جائے گا اور 2036-37تک ای او بی آئی پنشن فنڈ مکمل طور پر ختم ہو جانے کا امکان ہے۔! جس کے نتیجہ میں مستقبل میں نجی شعبہ کے لاکھوں ریٹائرڈ ملازمین کے پنشن سے محروم رہ جانے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔یوں بھی آئندہ برس یکم جولائی 2026 کو ای او بی آئی کے قیام کے 50 برس مکمل ہو جائیں گے۔
لہٰذا مذکورہ بالا چشم کشا حقائق کے روشنی میں ای او بی آئی پنشن فنڈ کی تشویشناک صورتحال ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ای او بی آئی پنشن فنڈ کی اس نازک صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے وفاقی حکومت خصوصاً ای او بی آئی کی وزارت، وزارت سمندر پار پاکستانی وترقی انسانی وسائل،حکومت پاکستان کو اپنی آئینی اور قومی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے فوری طور پر قومی فلاحی ادارہ ای او بی آئی کو درپیش انتظامی اور مالی معاملات پر بھرپور توجہ مرکوز کرنے اور پنشن منصوبہ کی بقاء اور استحکام کے لیے ضروری اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں ملک کے نجی شعبہ میں خدمات انجام دینے والے لاکھوں ملازمین اوران کی وفات کے بعد ان کے لواحقین ای او بی آئی پنشن کے ثمرات سے مستفید ہوتے رہیں۔
(ختم شد)
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: او بی ا ئی کے اثاثہ جات اور واجبات کی او بی ا ئی پنشن فنڈ پنشن میں اضافہ کی وفاقی کابینہ میں اضافہ کا پنشن فنڈ کی اور پنشن کے ذریعہ کے بعد میں ای کے لیے ہے اور
پڑھیں:
وزارتِ داخلہ نے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر پابندی کا باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کردیا
وفاقی حکومت نے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کو انسدادِ دہشتگردی ایکٹ کے تحت کالعدم تنظیم قرار دیتے ہوئے باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔
وزارتِ داخلہ کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کے نزدیک ٹی ایل پی دہشتگردی میں ملوث پائی گئی ہے، لہٰذا تنظیم پر پابندی عائد کی جا رہی ہے۔
اس سے قبل جمعرات کے روز وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ٹی ایل پی پر پابندی کی منظوری دی گئی تھی۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ 2016 میں قائم ہونے والی یہ تنظیم ملک بھر میں شرانگیزی اور پُرتشدد احتجاجی مظاہروں میں ملوث رہی ہے، جن کے باعث سکیورٹی اہلکاروں اور شہریوں کی جانیں ضائع ہوئیں۔
وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور سینیٹر رانا ثنااللہ نے منظوری کی تصدیق کے بعد کہا تھا کہ وزارتِ داخلہ کا نوٹیفکیشن جاری ہونے سے فیصلہ نافذالعمل ہو گیا۔ ان کے مطابق، پابندی کے نفاذ کے لیے سپریم کورٹ کی منظوری درکار نہیں۔
رانا ثنااللہ نے مزید بتایا کہ پنجاب حکومت کی جانب سے ٹی ایل پی پر پابندی کے لیے باضابطہ ریفرنس وفاق کو بھجوایا گیا تھا، جس پر چیف سیکریٹری اور آئی جی پنجاب نے کابینہ کو بریفنگ دی تھی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں