بہار اسمبلی انتخابات:مودی کا وقار داؤ پر
اشاعت کی تاریخ: 27th, October 2025 GMT
افتخار گیلانی
آبادی کے لحاظ سے ہندوستان کے تیسرے بڑے صوبہ بہار میں دو مرحلوں پر محیط ریاستی اسمبلی کی 243 نشستوں کے لیے انتخابات کا عمل جاری ہے ۔ ووٹنگ 6اور11نومبرکو ہوگی، جبکہ ووٹوں کی گنتی 14نومبر کو ہوگی۔ویسے تو ہندوستان میں ہر سال کسی نہ کسی صوبہ کے لیے الیکشن ہوتا ہی رہتا ہے ، مگر سیاسی شعور کے لحاظ سے خاصی اہم ریاست بہار کے یہ انتخابات وزیر اعظم نریندو مودی کی بقا ء کے لیے اہمیت اختیارکرگئے ہیں۔گو کہ بھارتیہ جنتا پارٹی یعنی بی جے پی نے اس صوبہ میں اب خاصے پاؤں پھیلائے ہیں، پھر بھی یہ ابھی تک سوشلسٹ سیاست کا آخری قلعہ سمجھا جاتا ہے ، کیونکہ دو سوشلسٹ پارٹیاں راشٹریہ جنتا دل اور جنتا دل یونائیٹڈ ابھی بھی اس صوبہ کی سیاست پر حاوی ہیں۔
بہار کے باسیوں کے سیاسی شعور اور مزاحمتی مزاج کی وجہ سے ہی شاید مہاتما گاندھی نے جنوبی افریقہ سے واپسی کے بعد 1917میں اسی صوبہ کے چمپارن ضلع سے برطانوی اقدار کو للکارنے کی داغ بیل ڈالی تھی۔ اسی طرح 70کی دہائی میں وزیر اعظم اندرا گاندھی کی مطلق العنانی کے خلاف سوشلسٹ لیڈر جے پر کاش نارائن نے اس صوبہ میں طلبہ کی ایجی ٹیشن کی قیادت کی تھی۔اسی ایجی ٹیشن کی کوکھ سے موجودہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار، سابق وزیر اعلیٰ لالو پرساد یادو، آنجہائی رام ولاس پاسوان سمیت ان گنت سیاسی قد آور شخصیتوں نے جنم لیا۔گو کہ گجرات، مہاراشٹر یا جنوبی ریاستوں کے برعکس بہار وسائل کے اعتبار سے غریب ہے ، مگر اس کی سیاست میں ایک رومانیت ہے ، چنانچہ سیاسی جماعتوں کے لیے اس صوبہ پر کنٹرول حاصل کرنا وقار کا معاملہ بن جاتا ہے ۔یہ صوبہ ذات پات کی سیاست کے حوالے سے بھی جانا جاتا ہے ۔ماضی میں اس صوبہ کے انتخابات کو کورکرنے کے لیے جب کسی دیہات میں جانا ہوتا تھا، تو پہلا سوال لوگ ذات کے بارے میں پوچھتے تھے ۔ ‘کون ذات ہو۔’ جب ان کو بتایا جاتا تھا کہ میں مسلمان ہوں اور وہ بھی کشمیر سے ، تب وہ کھل کر بات کرنا شروع کرتے تھے ۔
موجودہ انتخابات کی خاص بات یہ ہے کہ پہلی بار ووٹنگ ریاست کی ذات پات کی مردم شماری کے بعد ہو رہی ہے ۔ ذات پات کی یہ مردم شماری 2022 میں مکمل ہو گئی تھی اور اس کے اعداد و شمار نے برسوں سے قائم سماجی ڈھانچے کو چیلنج کر دیا ہے ۔اس کے مطابق انتہائی پسماندہ طبقات (ای بی سی) ریاست کی سب سے بڑی آبادی ہیں۔ان کا حصہ 36 فیصد ہے ، جس میں 112 ذیلی ذاتیں شامل ہیں۔ پسماندہ طبقات (او بی سی) 27 فیصد اور دلت و قبائلی برادریاں تقریباً 21 فیصد ہیں۔یعنی 80 فیصد آبادی وہ ہے جو تاریخی طور پراقتدار کے مراکز سے باہر رکھی گئی۔فرنٹ لائن میگزین کے سیاسی مدیر آنند مشرا کے مطابق، یہ مردم شماری ووٹ بینک کی سیاست سے کہیں زیادہ گہری چیز ہے اور اس نے سماجی شعور کو بیدار کر دیا ہے ۔ ‘جب ذاتیں اپنے اعداد جان لیتی ہیں،تو ان کی خاموشی طاقت میں بدل جاتی ہے ۔’اس لیے اس بار ہر برادری، ہر طبقہ، اپنی آبادی کے تناسب سے حصہ داری مانگ رہا ہے ۔1990 میں لالو پرساد یادو نے ‘منڈل کمیشن’کے نفاذ کے بعدریاست کے اقتدار کی بنیاد بدل دی تھی۔ان کا نعرہ تھا؛’جس کی جتنی آبادی، اُس کی اتنی حصہ داری۔’ لالو نے یادو، مسلمان اور پسماندہ طبقات کواقتدار کے مرکزی دھارے میں لاکر کھڑا کردیا۔ گو کہ ان کی سیاست نے سماجی انصاف کوجمہوری جذبے کے ساتھ جوڑ دیا، مگر چونکہ ذات پات کی مردم شماری ہو نہیں رہی تھی، اس لیے بس اندازوں سے ہی اعداد و شمار ترتیب دیے جا رہے تھے ۔لالو یادو نے سیاست کے دھا رے کو بد ل تو دیا، مگر وقت کے ساتھ’جنگل راج’یعنی لاقانونیت اور بد عنوانی کا دور شروع ہوا اور ان کی مقبولیت کم ہونے لگی۔یہ وہ وقت تھا جب نتیش کمار نے ترقی اور نظم و نسق یعنی سشاسن کا نیا نعرہ دیا۔انہوں نے بہار کو بدعنوانی سے نکالنے ،خواتین کو بااختیار بنانے ،اور نظم و نسق قائم کرنے کا وعدہ کیا۔
ہندوستان میں گجرا ت کے بعد بہار دوسری ریاست ہے جہاں مکمل شراب بندی عائد کی گئی۔ پنچایتوں میں خواتین کے لیے 50 فیصد ریزرویشن اور اسکولوں میں لڑکیوں کے لیے اسکالرشپ یہ سب ان کے سُشاسن کے ستون تھے ۔لیکن 2020 کے بعد حالات بدلے ۔ ترقی کا وعدہ پرانا لگنے لگا۔عوام کے سوال اب بدل گئے ۔نتیش کمار سیاسی پالے بھی بدلنے لگے ۔ کبھی لالو پرساد کے فرزند تیجسوی یادو کے ساتھ ہاتھ ملا کر سرکار بناتے ہیں تو کبھی بی جے پی کی گود میں بیٹھ کر ان سے حمایت لے کر حکومت سازی کرتے ہیں۔ انہی داؤ پیچوں سے نو بار وزیر اعلیٰ رہنے والے نتیش کماراب اپنی سیاسی زندگی کے نازک موڑ پر ہیں۔وہ اس وقت بی جے پی کی زیر قیادت قومی جمہوری اتحاد کے رکن ہیں۔ مگر بی جے پی ان کے ساتھ رہتے ہوئے ان کے اثر کو کم کرنے کی پالیسی پر چل رہی ہے ۔وہ اب اپنے بل بوتے پر اس اہم صوبہ میں حکومت سازی کرناچاہتی ہے ۔
سیاسی مبصرین کے مطابق، بی جے پی گو کہ نتیش کے سہارے ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے ، مگر نتائج کے بعد ان کو کنارے کرنے کے امکانات بھی ڈھونڈ رہی ہے ،جس طرح اس نے مہاراشٹرمیں شیو سینا کے سہارے ووٹ تو لیے مگر پھر ان کو دودھ میں مکھی کی طرح قیادت سے باہر نکال دیا۔بی جے پی، چونکہ تاریخی طور پر اونچی ذات کی پارٹی رہی ہے ، اس لیے وہ ذات پات کی سیاست سے پرہیز کرتی رہی ہے ۔ مگر اب حالات بدل چکے ہیں۔ ہندو اتحاد کے نعرے کے ساتھ ساتھ بی جے پی نے ذاتوں کو اپنے بیانیے میں سمو لیا ہے ۔وہ اب ذات پات کو مٹانے کی نہیں،بلکہ اس کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے ۔پارٹی نے بہار کے ایک سابق وزیر اعلیٰ آنجہانی کرپوری ٹھاکر کو اعلیٰ ترین سویلین ایوارڈ بھارت رتن دے کرای بی سی طبقے میں رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس طبقہ کے لیے قرض معافی اور دیہی روزگار پروگراموں میں ترجیحی حصہ دے کر و ہ اس طبقہ میں ایک طرح کی سرمایہ کاری کر رہی ہے ۔دوسری طرف راشٹریہ جنتا دل، کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتوں پر مشتمل اتحاد جس کو عظیم اتحاد یا مہا گٹھ بندھن کہتے ہیں ظاہری طور پر ذات پات کی بیداری کا سب سے فطری وارث تھا۔مگر اندر سے اس اتحاد کی بنیادیں کمزور ہو چکی ہیں۔حکومت کے خلاف ناراضگی کا فائدہ اٹھانے کی اس کی کوششیں نشستوں کی تقسیم کی لڑائی میں دب گئی ہے ۔لگتا ہے کہ اس کے پاس ووٹر ہے مگر وژن نہیں۔اس اتحاد کی کلیدی پارٹی راشٹریہ جنتا دل کا ووٹ بینک مسلم اور یادو یعنی ایم وائی رہا ہے ۔ اس کے لیڈر تیجسوی یادو اگرچہ پرعزم دکھائی دیتے ہیں،مگر پرانے یادو لیڈران کی نوجوان قیادت پر کھلے عام اعتماد نہیں کرتے ہیں۔ چونکہ ان کے ووٹ بینک میں مودی نے بھی سیندھ لگائی ہے ، اس لیے وہ بھی اب دلتوں اور ای بی سی طبقات کے امیدوار کھڑے کرکے ووٹ بینک کی بھر پائی کرنا چاہتے ہیں۔
کانگریس جو پچھلے تین انتخابات میں مہاگٹھ بندھن کی کمزور کڑی سمجھی جاتی تھی،اس بار قدرے جارح دکھائی دے رہی ہے ۔مگر اس کی زیادہ سے زیادہ سیٹوں پر لڑنے کی چاہت ہی اس کو ڈبونے کا سامان کرسکتی ہے ۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، کانگریس نظریاتی طور پر بیدار ضرور ہوئی ہے ،مگر تنظیمی سطح پر اب بھی سست ہے ۔بہار کی زمین پر لڑائی بیانیہ سے زیادہ نیٹ ورک سے لڑی جاتی ہے ۔ اس میدان میں بی جے پی سب سے مضبوط ہے ۔بہار میں مسلمان آبادی کا 17.
کورونا وبا کے دوران بہار کے لاکھوں مزدور بغیر روزگار اور بغیر مدد کے واپس لوٹے ۔یہ تجربہ ان کی اجتماعی یادداشت کا حصہ بن چکا ہے ۔پرشانت کشور نے انہیں اپنی سیاست کا مرکز بنادیا ہے ۔ان کے جلسوں میں سب سے زیادہ نعرہ گونجتا ہے ؛’ہمیں فرقہ واریت نہیں، کام چاہیے ۔ہمیں وعدے نہیں، روٹی چاہیے ‘۔یہ وہ زبان ہے جس نے نوجوانوں اور مزدوروں کو ایک پلیٹ فارم پر جوڑ دیا ہے ۔’روزی، عزت، حصہ داری کے نعرے دیہاتوں میں سنائی دینے لگے ہیں۔تجزیہ کارو ں کا کہنا ہے کہ یہ ایک نیا بہار ہے ، جو خالی وعدوں سے اب شاید نہیں چلے گا۔بی جے پی کے لیے یہ الیکشن اس کے ہندوتوانظریے کی بقا کا سوال ہے ۔پارٹی کے اندر خود کئی سطحوں پر بے چینی ہے ۔ایک طرف اتر پردیش ماڈل کا دباؤہے ۔جہاں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی ہندو قوم پرستی اور مسلمانوں کے تئیں نفرت نے ان کو انتخابی کامیابی دلا دی۔ دوسری طرف بہار میں وہی فارمولہ ذات پات کے پیچیدہ نظام کی وجہ سے ناکام ہو رہا ہے ۔فرنٹ لائن جریدہ کے مطابق بی جے پی ہر ذات کو اپنی الگ پالیسی سے جوڑ رہی ہے ، تاکہ انہیں اجتماعی شناخت کے بجائے انفرادی مفادات میں الجھایا جا سکے ۔پارٹی کے تھنک ٹینک کا ماننا ہے کہ اگر 112 ذیلی ذاتیں اپنے اپنے مفاد میں مصروف رہیں،تو کوئی ایک متحد سیاسی بیانیہ اونچی ذاتوں کے خلاف نہیں بن سکے گا۔اسی حکمت کے تحت بی جے پی ہر ذات کے لیے الگ’وعدوں کی فہرست’جاری کر رہی ہے ۔مثلاً کشواہا برادری کے لیے کرپوری ٹھاکر یوجنا، ملاحوں کے لیے گنگا متسیا سکھ شکتی اسکیم، اور بھومیہار طبقے کے لیے کسان قرض راحت پیکیج۔ ان کی وجہ سے ہر برادری انفرادی طور پر فیصلہ کریں گے ۔ مگر سوال یہ ہے کیا بہار کے باشعور ووٹراس حکمت عملی کے آگے جھکیں گے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: ذات پات کی سیاست میں وزیر اعلی کے مطابق ووٹ بینک کی سیاست سے زیادہ بی جے پی کے خلاف بہار کے کے ساتھ جنتا دل چکے ہیں رہا ہے کے بعد اور اس دیا ہے رہی ہے کے لیے اس لیے
پڑھیں:
ایم کیو ایم ماضی میں کی گئی بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ پر قوم سے معافی مانگے، ڈپٹی میئر کراچی
ایم کیو ایم کی پریس کانفرنس پر سلمان عبداللہ مراد کا ردعمل میں کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کے دور میں کراچی کو لسانیت، بدمعاشی اور خوف کی سیاست کا نشانہ بنایا گیا، آج پیپلز پارٹی کے دور میں شہر میں امن، ترقی اور روشنی لوٹ رہی ہے، جو لوگ کل تباہی کے ذمہ دار تھے، آج خود کو مسیحا ظاہر کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ ڈپٹی میئر کراچی سلمان عبداللہ مراد نے ایم کیو ایم کی پریس کانفرنس پر ردِعمل دیتے ہوئے کہاہے کہ کراچی کی تباہی کی کوئی اور نہیں بلکہ ایم کیو ایم خود ذمہ دار ہے، جنہوں نے تین دہائیوں تک شہر پر حکومت کی، آج وہی اس کی بدحالی پر مگرمچھ کے آنسو بہا رہے ہیں۔ ڈپٹی میئر کراچی نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ عوامی خدمت کی سیاست کی ہے، لوٹ مار نہیں، ایم کیو ایم کو چاہیئے کہ ماضی میں کی گئی کرپشن، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ پر قوم سے معافی مانگے۔ انہوں نے کہا کہ شہر کو دوبارہ اندھیروں میں دھکیلنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے دور میں کراچی کو لسانیت، بدمعاشی اور خوف کی سیاست کا نشانہ بنایا گیا، آج پیپلز پارٹی کے دور میں شہر میں امن، ترقی اور روشنی لوٹ رہی ہے، جو لوگ کل تباہی کے ذمہ دار تھے، آج خود کو مسیحا ظاہر کر رہے ہیں۔ سلمان عبداللہ مراد نے کہا کہ شہری باشعور ہیں، وہ جھوٹے دعوؤں اور پروپیگنڈے میں نہیں آئیں گے، سیاست الزامات سے نہیں، عوامی خدمت سے کی جاتی ہے اور پیپلز پارٹی نے یہ کر کے دکھایا ہے، ایم کیو ایم کو اب الزام تراشی چھوڑ کر کراچی کی بہتری کے سفر میں رکاوٹ ڈالنا بند کرنا چاہیئے۔