اپنے بیان میں ترجمان بی اے پی نے کہا کہ صوبائی اسمبلی کی نشستیں بڑھنے سے بے روزگاری اور امن و امان کے مسئلے پر قابو پانے میں کافی حد تک مدد ملے گی۔ اسلام ٹائمز۔ بلوچستان عوامی پارٹی نے 27ویں آئینی ترمیم میں بلوچستان کی صوبائی و قومی اسمبلی کی نشتیں بڑھانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے دوران بھی سیٹیں بڑھانے کے حوالے سے اتحادی جماعتوں نے وعدہ کیا تھا۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے مرکزی ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ صوبائی اسمبلی کی نشستیں بڑھنے سے بے روزگاری اور امن و امان کے مسئلے پر قابو پانے میں کافی حد تک مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم اتحادی جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ بلوچستان ایک پسماندہ صوبہ ہے۔ احساس محرومی کے خاتمے کے لئے 26ویں آئینی ترمیم کے دوران بھی بی اے پی نے بلوچستان میں سیٹوں کے حوالے سے بات کی تھی۔ جس پر سابق چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے بھی ہر فورم پر آواز اٹھائی۔ اتحادیوں نے ہمیں یقین دلایا تھا کہ اگلی آئینی ترمیم میں یہ معاملہ حل ہو جائے گا۔ ترجمان نے مسلم لیگ (ن) سے مطالبہ کیا کہ ستائیسویں آئینی ترمیم میں اس معاملے کو حل کیا جائے۔ جس سے بلوچستان کا یہ دیرینہ مطالبہ پورا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت بلوچستان میں ایک حلقہ 4 سے ساڑھے 3 لاکھ آبادی پر مشتمل ہے۔ جس کہ وجہ سے مسائل کے حل میں مشکلات کا سامنا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کہا کہ

پڑھیں:

27ویں آئینی ترمیم 14 نومبر تک دونوں ایوانوں سے منظور کروانے کا فیصلہ،ذرائع

27ویں آئینی ترمیم 14 نومبر تک دونوں ایوانوں سے منظور کروانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

اسپیکر قومی اسمبلی کی زیر صدارت پارلیمانی پارٹیوں کے رہنماؤں کا اجلاس نہ ہوسکا۔

ذرائع کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی کی زیر صدارت ہاؤس بزنس ایڈوائزری کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں پی ٹی آئی کے سوا تمام جماعتوں کے رہنما شریک ہوئے۔

ہاوس بزنس ایڈوائزری کمیٹی میں طے پایا کہ 27ویں آئینی ترمیم پہلے سینیٹ سے پاس کی جائے گی، سینیٹ سے پاس ہونے کے بعد قومی اسمبلی سے پاس کروائی جائے گی۔

پارلیمنٹ سے 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے معاملے پر حکومت کو قومی اسمبلی میں 237 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔

حکومت کو قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم کے لیے 237 ارکان کی حمایت حاصل ہے، ذرائع

ذرائع کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی میں ن لیگی ارکان کی تعداد 125، پیپلز پارٹی کے 74 ارکان ہیں، حکومت کو قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم کے لیے 237 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی میں ن لیگی ارکان کی تعداد 125، پیپلز پارٹی کے 74 ارکان ہیں، حکومت کو قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم کے لیے 237 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔

حکومت کو آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے 224 ووٹ درکار ہیں، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) 22، پاکستان مسلم لیگ (ق) 5، استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے 4 ارکان حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ضیا لیگ، نیشنل پارٹی، باپ پارٹی کا ایک ایک رکن، 4 آزاد ارکان بھی حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں، قومی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کے ارکان کی تعداد 89 ہے۔

سینیٹ میں حکمران اتحاد کے اراکین 61 اپوزیشن اراکین کی تعداد 35 ہے، سینیٹ میں دو تہائی اکثریت کے لیے 64 اراکین کی ضرورت ہے۔

حکومت کو سینیٹ میں جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) یا عوامی نیشنل پارٹی ( اے این پی) کے 3اراکین کی حمایت درکار ہوگی۔

متعلقہ مضامین

  • 27ویں آئینی ترمیم میں صوبائی خود مختاری سے چھیڑچھاڑ خطرناک نتائج لا سکتی ہے: بیرسٹر گوہر
  • 27ویں آئینی ترمیم سے قبل قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں میں وقفہ کیوں کیا گیا؟
  • وزیراعظم شہباز شریف سے ایم کیو ایم وفد کی ملاقات، 27ویں آئینی ترمیم پر مشاورت
  • قومی اسمبلی 14 نومبر کو 27ویں آئینی ترمیم منظور کرے گی
  • 27ویں ترمیم کی مخالفت کریں گے، یہ صوبائی خودمختاری پر ڈاکا ہے، وزیر اعلیٰ پختونخوا
  • 27ویں آئینی ترمیم 14 نومبر تک دونوں ایوانوں سے منظور کروانے کا فیصلہ،ذرائع
  • ہمارا کوئی اضافی مطالبہ نہیں، ایم کیو ایم کا 27ویں آئینی ترمیم کی مکمل حمایت کا اعلان
  • 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے اسپیکر قومی اسمبلی کو اہم ٹاسک دے دیا گیا
  • قومی اسمبلی کا اہم اجلاس آج، کیا 27ویں آئینی ترمیم پیش کی جائے گی؟