data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اُفففف… خدایا سڑکوں کا کیا حال ہو گیا ہے۔ جگہ جگہ بڑے بڑے گڑھے، کہیں مٹی کے چھوٹے چھوٹے تودے، کہیں پتھروں کے چھوٹے ٹیلے، کہیں اُبلتے گٹر، کہیں کچرے کے انبار۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے دل نہیں کرتا ہے گھر سے نکلنے کو۔ کب ٹھیک ہوگا سب کچھ؟ ہم جو خوشی خوشی تیار ہو کر میاں کے ساتھ موٹر سائیکل پر پارک جانے کے لیے نکلے تھے سڑکوں کی حالت زار دیکھ کر حسرت سے پوچھا؟؟ انہوں نے جیسے ہی جواب دینے کے لیے توجہ ہماری جانب مبذول کی سامنے پھرچھوٹا سا گڑھا موجود تھا۔ موٹر سائیکل ہوا میں اچھلی، ہلکی سی ڈگمگائی لیکن شکر ہے گری نہیں۔ ہماری ساری خوشی ویسے ہی ہوا ہو گئی تھی سروائیکل پین شروع ہو چکا تھا لہٰذا ہم نے ان سے واپس چلنے کو کہا لیکن جواب سن کر دوبارہ کچھ بولنے کا یارا نہ رہا کہنے لگے ’’ارے آپ اتنے سے سفر میں پریشان ہو گئیں!! ہم سے پوچھیں جو روزانہ غم روزگار کے لیے انہی سڑکوں پر کئی کئی کلو میٹر کا سفر طے کرتے ہیں ہمارے جوڑ و بند کا کیا حال ہوتا ہوگا۔ شکر کریں آپ گرے بغیر گھر واپس جا رہی ہیں ورنہ آج کل موٹر سائیکل والوں کی اکثریت ان گڑھوں کا شکار ہو کر اسپتال پہنچ رہی ہے۔ یہ صرف ایک گھر کی کہانی نہیں ہے کراچی میں بسنے والا ہر شخص کہیں نہ کہیں اس صورتحال سے دو چار ہے۔ خاص کر وہ لوگ جن کا گھر ان کے دفتروں سے فاصلے پر ہے اور جنہیں خود ڈرائیو کر کے جانا پڑتا ہے وہ دوہری اذیت کا شکار ہوتے ہیں ایک تو ٹوٹی پھوٹی سڑکیں جن پہ ہچکولے کھا کے سفر کرنا اور دوسرے ٹریفک جام کی اذیت میں مبتلا ہونا کہ جہاں ایک گھنٹے کا سفر چار گھنٹوں میں طے کرنا پڑتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کراچی کی موجودہ صورتحال نے لوگوں کو ڈپریشن کا مریض بنا دیا ہے۔
چند دہائیاں پہلے تک شہر کراچی ایسا نہیں تھا۔ یہ تو روشنیوں کا شہر ہوا کرتا تھا۔ یہاں کی ہوائیں بھی زہریلی نہیں تھیں اب تو ایک رپورٹ کے مطابق آلودہ شہروں میں کراچی دسویں نمبر پر آگیا ہے۔ پہلے بارشوں میں سڑکیں تالاب کا منظر پیش نہیں کیا کرتی تھیں، نہ نالوں میں ڈوبنے کے حادثات رونما ہوا کرتے تھے، مائیں بے خطر بچوں کو چیزیں لینے محلے کی دکان بھیج دیا کرتی تھیں، خواتین اپنے سونے گہنے بھی آرام سے پہن کر گھر سے باہر نکلتی تھیں، نہ چھننے کا خوف نہ لٹنے کا ڈر، مرد حضرات بے خوف و خطر دفتر سے اپنی تنخواہ وصول کر کے با آسانی گھر لے آتے تھے۔ اب تو حال یکسر مختلف ہے ہر شہری ایک انجانے خوف میں مبتلا ہے۔ گھر سے نکلنے سے پہلے مائیں قرآنی آیات کا دم کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہدایات کرتی ہیں کہ بیٹا کوئی موبائل چھیننے آئے تو بحث مت کرنا بلکہ فوراً نکال کر حوالے کر دینا موبائل کا کیا ہے دوسرا آجائے گا۔ اسی طرح اے ٹی ایم سے رقم نکالنے جائیں تو ہدایات دیتی نظر آتی ہیں بیٹا دیکھ کر اندر جانا کوئی مشکوک بندہ باہر نظر آئے تو واپس آ جانا۔ اگر کوئی پیچھا کرتا ہوا دروازے تک آ جائے تو فوراً ساری رقم اس کے ہاتھ پر رکھ دینا کیونکہ جان ہے تو جہان ہے اور اب تو ایک اور ہدایت کا اضافہ ہو گیا ہے کہ بیٹا گڑھے پر بائیک آرام سے نکالنا خود بھی بچنا دوسروں کو بھی بچانا۔ اگر کہیں سڑک پر کوئی مٹی کا تودہ ہو تو رانگ سائیڈ سے بالکل نہ آنا ورنہ ای چالان بھیج دیا جائے گا اور وہ بھی سیکڑوں میں نہیں بلکہ ہزاروں میں۔
آج کل شہر کراچی کے باسی ای چالان کے زد میں ہیں کیونکہ کیمرے کی آنکھ ان سب لوگوں کو دیکھ رہی ہے جو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ اسے دن دہاڑے ڈکیتی کرنے والے لوگ نظر نہیں آتے، موبائل چھیننے والے نظر نہیں آتے لوگوں کو لوٹنے کے دوران جان سے مار دینے والے نظر نہیں آتے، رشوت لیتے ہوئے پولیس اہلکار نظر نہیں آتے، بچوں کو اغوا کرنے والے افراد نظر نہیں آتے، گاڑی چور نظر نہیں آتے ہاں اگر کوئی سیٹ بیلٹ نہ باندھے تو کیمرے کی آنکھ اسے دیکھ لیتی ہے لہٰذا پیارے لوگو ’’زرا سنبھل کر رہنا‘‘۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: نظر نہیں ا تے
پڑھیں:
دو تہائی اکثریت موجود، عطا تارڑ: 18ویں ترمیم ختم نہیں کر رہے: رانا ثناء
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) وفاقی وزیر اطلاعات عطاء تارڑ نے نجی ٹی ی سے گفتگو میں کہا ہے کہ 27 ویں آئینی ترمیم کیلئے حکومت کے پاس دوتہائی اکثریت موجود ہے۔ امید ہے 27 ویں ترمیم جلد دونوں ایوانوں سے منظور ہو جائے گی۔ ایمل ولی خان 27 ویں ترمیم کیلئے وٹو کریں گے۔ آزاد سینیٹرز سے بھی بات چیت چل رہی ہے۔ آئینی ترمیم میں کچھ درستگی کی گئی ہے۔ فوجی ہیروز کو اعزازات دینے کا ماڈل پوری دنیا میں ہے۔ آئینی عدالت کا پورا طریقہ کار ہو گا اور ججز کی تعیناتی میرٹ پر ہو گی جو اہل ہو گا وہی آئینی عدالت کا جج بنے گا۔ سپریم کورٹ کو آئینی مقدمات کی بجائے عام عوام کے مقدمات بھی سننے چاہئیں۔ ادھر مشیر وزیراعظم برائے سیاسی امور سینیٹر رانا ثناء اﷲ نے کہا ہے کہ 27 ویں آئینی ترمیم میں وسائل کی تقسیم سے متعلق معاملہ ہے۔ پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ 18 ویں ترمیم کو ختم کیا جا رہا ہے۔ ایسا کوئی معاملہ نہیں کہ 18 ویں ترمیم کو تبدیل یا ختم کیا جا رہا ہے۔ انہوںنے کہا کہ اس وقت دفاع اور قرض ادائیگی کے پیسے نکال دیں تو وفاق کے پاس کچھ نہیں بچتا۔ دفاع پورے ملک اور تمام صوبوں کا ہے کوئی نہ کوئی طریقہ کار نکالنا ہو گا۔ تجاویز پر بحث چل رہی ہے کسی اتفاق رائے تک پہنچنا ہو گا۔ آئینی ترمیم کے دو اہم معاملات ہیں جن پر مکمل اتفاق ہے۔