Express News:
2025-11-11@23:09:40 GMT

خوارج کا صفایا ضروری

اشاعت کی تاریخ: 12th, November 2025 GMT

جنوبی وزیرستان کے کیڈٹ کالج وانا پر بھارتی سرپرستی میں سرگرم فتنہ الخوارج کے دہشت گردوں نے بزدلانہ حملہ کیا، ادھر منگل کو اسلام آباد جی الیون کچہری پر بھی دہشت گردوں نے خود کش حملہ کیا ہے۔

دہشت گردوں نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ وہ کسی رحم و رعایت کے مستحق نہیںہیں ۔ان کی سہولت کاری کرنے والے، انھیں پناہ دینے والے اور انھیں معلومات فراہم کرنے والے اور انھیں معاشی لائف لائن فراہم کرنے والے عناصر بھی اسی صف میں کھڑے ہیں۔ قبل ازیں خیبرپختونخوا میں سیکیورٹی فورسز نے دو مختلف کارروائیوں کے ذریعے بھارتی حمایت یافتہ فتنہ الخوارج کے 20 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا ہے ۔ مزید کارروائیاں جاری ہیں۔

پاکستان نے متعدد مواقعے پر افغانستان کی عبوری حکومت کی توجہ اس جانب دلائی ہے کہ دہشت گرد گروہ افغان سر زمین پر پناہ لے کر پاکستان میں حملے کر رہے ہیں۔ حالیہ استنبول کانفرنس میں بھی افغانستان کے وفد دہرا معیار اپنائے رہے۔ افغانستان کی طالبان حکومت اور بھارت کی ہندو انتہاپسند حکمران جماعت بی جے پی کے درمیان اتحاد بن چکا ہے۔ پاکستان متعدد بار افغانستان کی عبوری حکومت کی توجہ اس امرکی جانب دلوا چکا ہے کہ افغانستان میں فتنہ الخوارج ٹی ٹی پی کے دہشت گرد پناہ لینے ہوئے ہیں اور وہ وہاں آزادانہ نقل و حرکت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ دہشت گرد افغانستان کے علاقوں سے آتے ہیں اور سرحد پار کر پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیاں کرتے ہیں۔

انھیں افغان عبوری کی مکمل سرپرستی اور حمایت حاصل ہے، اسی طرح پاکستانی فورسز دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے آپریشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں فتنہ الخوارج کے متعدد دہشت واصل جہنم ہوئے ہیں۔ خیبر پختون خوا کی صوبائی حکومت صوبائی سرکاری مشینری کو استعمال کرتے ہوئے دہشت گردوں اور ان کے مقامی سہولت کاروں کے خلاف سخت کارروائی یقینی بنائے۔ سیاستدانوں اور دیگر لوگوں کو دہشت گردوں کے خلاف آپریشنز کو متنازعہ بنانے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ ہمیں ملک کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لیے دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو ان کے انجام تک پہنچانا ہوگا۔

افغانستان میں حکومتِ وقت کے غیر مؤثر کنٹرول کے بارے میں شکوک درست ثابت ہوچکے، بین الاقوامی وقار، علاقائی استحکام اور پاکستان کی اندرونی سلامتی کے لیے یہ انتہائی تشویش ناک صورتحال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے فوجی آپریشن کے ساتھ ساتھ، موثر سفارتی محاذ، بارڈر مینجمنٹ، انٹیلی جنس شیئرنگ اور علاقائی تعاون ناگزیر ہیں۔ پاکستان کی طرف سے اٹھائے گئے اعتراض اور خدشات پر افغان عبوری انتظامیہ کی طرف سے ٹھوس اور شفاف ردِ عمل ضروری ہے، بصورتِ دیگر یہ صورتحال وقت کے ساتھ بگڑتی جائے گی۔

 سیاسی جماعتوں کی قیادت کے پاس آج ایک تاریخی موقع ہے کہ وہ سیاسی اختلافات اور الزام تراشیوں سے بالاتر ہو کر ملکی سلامتی کو اولین ترجیح دے۔ تمام صوبائی حکومتیں دہشت گردوں کے خلاف نہ صرف آپریشنز میں تعاون کریں بلکہ دہشت گردانہ رویے کے انسداد کے لیے سماجی، اقتصادی اور تعلیمی اصلاحات بھی نافذ کریں جو طویل المدت بنیادوں پر نوجوانوں کو انتہا پسندی سے دور رکھ سکیں۔ اس کے علاوہ مقامی سطح پر ریلیف، بحالی اور متاثرین کے لیے قانونی و سماجی معاونت فراہم کرنی چاہیے تاکہ انتہا پسند نظریات کی زمین کمزور ہو جائے۔دہشت گردی کی تہہ میں بہت سی وجوہات ہیں۔

غربت، ناانصافی، سیاسی بے چینی، نظریاتی شدت، بیرونی سازشیں اور فرقہ وارانہ یا علاقائی تنازعات۔ بیرونی معاونت، سرپرستی یا مالی مدد ایک خطِ ثقل کا کردار ادا کرتی ہے مگر اندرونی کمزوریاں بھی اتنی ہی اہم ہیں۔

جب معاشرتی انصاف، روزگار کے مواقع، تعلیم اور سماجی شمولیت کمزور ہوں تو بیرونی عناصر مقامی کمزور لوگوں کو متاثر کر کے انھیں انتہا پسندی کی طرف راغب کر لیتے ہیں، لہٰذا انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے صرف انتظامی جواب کافی نہیں بلکہ جامع سماجی پالیسی، معاشی بہبود، نوجوانوں کے لیے مثبت مواقع اور سیاسی شمولیت بھی لازمی ہے۔ وزارتیں، سول سوسائٹی، مذہبی رہنما اور تعلیمی ادارے مل کر ایسی پروگرامز متعارف کرائیں جن سے انتہا پسندی کے بیج نہیں بوئے جا سکیں۔

اب یہ بات ضروری ہوچکی ہے کہ دہشت گردوں کے نیٹ ورک، مالی لین دین، اسلحے کی فراہمی، اطلاعات کے ذرایع اور مواصلاتی چینلز کو بھی ختم کیا جائے۔ سہولت کار، فنڈز، عقائدی حمایت فراہم کرنے والے افراد اور بیرونی ایجنٹ اکثر مقامی سطح پر موجود رہے کر دہشت گردی کو جاری رکھتے ہیں۔ ان لوگوں کا بھی قانونی طریقے سے تعاقب اور سزا ناگزیر ہے تاکہ آیندہ کوئی دوسرا گروہ یا فرد ایسے کام میں ملوث ہونے سے پہلے سوچے۔ اس کے ساتھ ساتھ عدالتی نظام کی مضبوطی، شواہد کی بنیاد پر کارروائیاں، تیز انصاف اور سزا یہ سب مل کر دہشت گردی کے سہولت کاروں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کریں گے۔ عوامی سطح پر بھی ایسے نیٹ ورکس کی شناخت کے لیے بیداری مہمات چلانی چاہئیں تاکہ لوگ مدد فراہم کرنے والے عناصر کی پہچان کر سکیں اور حکام تک اطلاع پہنچائیں۔

تعلیمی ادارے کسی بھی سماج کی کمزوری یا طاقت کا آئینہ ہوتے ہیں۔ کیڈٹ کالج وانا پر حملہ اسی حقیقت کا ظہوری ثبوت ہے کہ تعلیمی مراکز پہلے نشانے بنائے جا رہے ہیں۔

ہمیں تعلیمی اداروں کی حفاظت کو یقینی بنانا ہوگا، یہ نہ صرف فورسز کی ذمے داری ہے بلکہ تعلیمی اداروں، والدین، صوبائی و وفاقی حکومتوں اور مقامی انتظامیہ کا مشترکہ فرض ہے۔ سماجی لیڈروں کی بھی ذمے داری ہے کہ دہشت گردی کے خلاف دو ٹوک موقف اختیار کریں۔ دہشت گردوں کے ماسٹر مائنڈز اور سہولت کار گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہیں اور بھیڑیئے کی طرح مکاری کا لبادہ اوڑھ کر امن پسندی کا راگ الاپتے ہیں۔ انھیں بے نقاب کرنا انتہائی اہم ہے۔ایسی حساس صورتحال میں سوشل میڈیا کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔ خبر کی رپورٹنگ میں غیر جانبداری، تصدیق شدہ معلومات کی اشاعت اور افواہوں سے پاک رپورٹنگ ضروری ہے۔

مظاہروں، سیاسی بیانات یا دہشت گردوں کے خلاف جاری کارروائیوں کے حوالے سے جذباتی زبان استعمال کرنے سے صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ قوم کو باخبر رکھے مگر ایسا کرے کہ دشمن کے پروپیگنڈے کا راستہ مسدود رہے۔دراصل دہشت گردوں کی سرپرستی یا سہولت کاری کا مسئلہ خطی مسئلہ بن چکا ہے۔ اس کے حل کے لیے سخت محاذ آرائی کے ساتھ ساتھ سفارتی کوششیں بھی ضروری ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ علاقائی اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر اس معاملے کو اٹھائے، بین الاقوامی قوانین اور معاہدات کے ذریعے دباؤ بنائے اور باہمی تعاون کو فروغ دے۔

دوسری قوموں کے ساتھ معلومات کی شیئرنگ، سرحدی نگرانی کے جدید نظام اور دہشت گردی کے خلاف مشترکہ پالیسیوں کا نفاذ ضروری ہے۔ یہ عالمی تعاون نہ صرف فورسز کی کارروائیوں کو موثر بنائے گا بلکہ دہشت گردوں کے پاس محفوظ ٹھکانے کم ہوتے جائیں گے۔ اسی طرح سیاسی قیادت کو اپنے بیانات میں ذمے داری برتنی چاہیے تاکہ قوم میں ڈرانے، نفرت پھیلانے یا فرقہ وارانہ جذبات بھڑکانے والی زبان کی گنجائش نہ رہے۔ایک مضبوط ریاست کے لیے عوام کا کردار سب سے اہم ہے۔ ہمیں نفرت اور تعصب سے گریزکرتے ہوئے منظم تعاون فراہم کرنا ہو گا۔ ممنوعہ نظریات کی حمایت یا دہشت گردانہ سرگرمیوں میں شریک افراد کے خلاف بلاخوف و ہراس اطلاعات دیں۔

متاثرین کے ساتھ ہمدردی کریں اور اپنے محلے، اسکول اورکام کی جگہوں پر نفرت انگیز تقاریرکا سدِباب کریں۔ یہ چھوٹے چھوٹے اقدامات مل کر ایک بڑی تبدیلی لا سکتے ہیں۔سیکیورٹی فورسزکی حالیہ کامیاب کارروائیاں قابلِ قدر ہیں اور قوم کے لیے امید کی کرن ہیں، مگر حقیقی کامیابی کا پیمانہ صرف دشمنوں کے مارے جانے سے ماپا نہیں جا سکتا، بلکہ اس سے ماپا جائے گا کہ کیا ہم نے اپنی سرزمین کو دہشت گردوں سے مکمل طور پر پاک کیا، کیا ہم نے سہولت کاروں اور سرپرستوں کا قلع قمع کیا اور کیا ہم نے اپنے نوجوانوں کو انتہا پسندی سے بچانے کے لیے معاشرتی و اقتصادی بنیادیں مضبوط کیں۔ صوبائی اور وفاقی حکومتوں، فورسز، سول سوسائٹی، مذہبی قائدین اور عوام یہ تمام اکائیاں مل کر ہی طویل المدت امن کو ممکن بنا سکتی ہیں۔

آج جب ہمارے بہادر افسران اور جوان قوم کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں، تو ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم انھیں ہر سطح پر مکمل تعاون فراہم کریں، سیاسی اختلافات کو پیچھے رکھیں اور دہشت گردی کے ہر روپ کا مقابلہ اجتماعی محاذ کے ساتھ کریں، اگر ہم متحد، ہوشیار اور اصولی رہیں تو نہ صرف خیبرپختونخوا بلکہ پورا پاکستان ایک بار پھر امن، ترقی اور خوشحالی کا مرکز بن سکتا ہے۔ ہمیں یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم اپنے وطن کو دہشت گردی، سازش اور بیرونی مداخلت سے پاک کریں گے اور یہ سفر جہد مسلسل، عزم و استقلال اور قومی یکجہتی کے بغیر ممکن نہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: فراہم کرنے والے دہشت گردوں کے فتنہ الخوارج دہشت گردی کے سہولت کاروں انتہا پسندی ہے کہ دہشت ہوئے ہیں کے خلاف کو دہشت ہیں اور کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

وزیراعظم کی صدر مملکت سے ملاقات، دہشت گردوں اور سہولت کاروں کیخلاف کارروائیاں جاری رکھنے کا عزم

صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف کے درمیان اہم ملاقات ہوئی، جس میں دہشت گردوں اور سہولت کاروں کیخلاف کارروائیاں جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق صدرِ مملکت آصف علی زرداری سے وزیراعظم محمد شہباز شریف نے ایوانِ صدر میں ملاقات کی، جس میں ملک کی مجموعی سیاسی اور سیکیورٹی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

صدرِ مملکت اور وزیراعظم نے دہشت گردی کے حالیہ واقعات (کچہری دھماکا، وانا کیڈیٹ کالج پر حملے) کی شدید مذمت کی اور اس عزم کا اعادہ کہ غیر ملکی پشت پناہی یافتہ دہشت گردوں اور اُن کے سہولت کاروں کے خلاف کارروائیاں مکمل خاتمے تک جاری رہیں گی۔

ملاقات میں چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی، اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، وفاقی وزرا سید محسن رضا نقوی، چوہدری سالک حسین، اعظم نذیر تارڑ، خالد حسین مگسی اور عبدالعلیم خان بھی موجود تھے۔

متعلقہ مضامین

  • جنگ میں شکست کے بعد بھارت پراکسی وار کررہاہے، عطا تارڑ
  • صدر مملکت اور وزیراعظم کی ملاقات، دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھنے پر اتفاق
  • بنوں، سی ٹی ڈی نے فتنہ الخوارج کے انتہائی مطلوب 2 ٹارگٹ کلرز ہلاک کردیے
  • وزیراعظم کی صدر مملکت سے ملاقات، دہشت گردوں اور سہولت کاروں کیخلاف کارروائیاں جاری رکھنے کا عزم
  • بنوں، سی ٹی ڈی کارروائی، فتنہ الخوارج کے انتہائی مطلوب 2 ٹارگٹ کلرز ہلاک
  • دہشت گردوں کا کیڈٹ کالج پر حملہ ناکام،2خوارج مارے گئے
  • افغانستان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے، تعاون کیلئے تیار ہیں: وزیراعظم
  • افغانستان، دہشت گردوں سے فاصلہ اختیارکرے
  • جنوبی وزیرستان: دہشت گردوں کا کیڈٹ کالج وانا پر حملہ، بارود سے بھری گاڑی ٹکرادی، دو خوارج ہلاک