جسٹس اطہر کا بھی چیف جسٹس کو خط،عوامی رائے دبانے کیلیے عدالت عظمیٰ کے استعمال پر اظہار افسوس
اشاعت کی تاریخ: 12th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251112-08-22
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) عدالت عظمیٰ کے جج اطہر من اللہ نے چیف جسٹس پاکستان یحییٰ افریدی کو ایک پر زور خط لکھا ہے، جس میں عدلیہ کو لاحق خطرات پر غور کے لیے ایک کانفرنس بلانے کی درخواست کی گئی ہے اور ساتھ ہی اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ عدالت عظمیٰ کو بعض اوقات عوام کی رائے دبانے کے لیے ’غیر منتخب اشرافیہ‘ کے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ یہ پیشرفت منگل کو اس وقت سامنے آئی ہے جب حکومت 27ویں آئینی ترمیم کے بل کی منظوری کے لیے اقدامات کر رہی ہے، سینیٹ سے منظور ہونے والا یہ بل عدلیہ اور فوجی قیادت سے متعلق کئی اہم تبدیلیوں پر مشتمل ہے۔ جج اطہر من اللہ نے خط میں لکھا کہ ’یہ خط وہ یہ آئین کے احترام اور ایک سنجیدہ فریضہ کے طور پر لکھ رہے ہیں تاکہ آئندہ نسلوں کے لیے ریکارڈ رہے کہ ان کی تقدیر کس طرح عدالت عظمیٰ کی سنگ مرمر کی دیواروں کے پیچھے طے کی جا رہی ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ یہ خط حالیہ واقعات کے پیش نظر لکھا جا رہا ہے جنہوں نے عوام کے عدلیہ پر اعتماد کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا کہ ادارے ایک دن میں نہیں بنائے جاتے، مگر خوف، ہتھیار ڈالنے یا طاقت کے سامنے جھک کر وہ بہت جلد تباہ ہو سکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ عدلیہ کی تاریخ بے داغ یا قابل تعریف نہیں، لیکن اس کی ماضی کی ناکامیاں چاہے کتنی بھی سنگین کیوں نہ ہوں، عدلیہ کو غیر منتخب اشرافیہ کے مفادات کے تابع رکھنے کا جواز نہیں دیتیں۔ انہوں نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کے موجودہ جج کے طور پر ان کا فریضہ ہے کہ وہ عوام کے اعتماد کو لاحق خطرات پر آواز بلند کریں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے آئین کے تحفظ کی قسم اٹھائی تھی لیکن وہ اکثر اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتے ہیں کیونکہ عوام کو دیے گئے بنیادی حقوق اکثر محض نعروں یا باتوں تک محدود ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’میں نے آئین کے دفاع، تحفظ اور بقا کی قسم اٹھائی تھی، لیکن خود کو بے بس محسوس کر رہا ہوں کیونکہ عوام کے لیے جو بنیادی حقوق آئین میں محفوظ کیے گئے ہیں، وہ اکثر محض نعروں یا الفاظ تک محدود رہ گئے ہیں، ہم اس کے برعکس دکھاوا کرسکتے ہیں لیکن اعلیٰ عدالت کے جج اور آئین کے محافظ کے طور میرے لیے حقیقت ناخوشگوار اور شرمناک ہے‘۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ حقیقت کو عوام سے بہت عرصے تک چھپایا گیا ہے اور انہیں غلط معلومات دی گئیں تاکہ اشرافیہ کا قبضہ قائم رہ سکے، انہوں نے کہا کہ پاکستان کی آزادی کے آغاز سے ہی ریاست کی تاریخ میں کچھ ریاستی اداروں اور مضبوط اشرافیہ کے درمیان ایک غیر اخلاقی اتحاد رہا ہے، جس کی علامت کنٹرول، خصوصی مراعات اور بے قابو ہونا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کو اکثر عوام کی رائے محفوظ رکھنے کے بجائے اسے دبانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ خط میں انہوں نے مزید کہا کہ عدلیہ نے طاقت کے سامنے جھک کر عوام کے حق میں فیصلے دینے میں ناکامی دکھائی ہے، انہوں نے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی معزولی اور پھانسی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ یہ عوام کے اعتماد اور ہمارے حلف کے ساتھ سب سے بڑی اور ناقابل معافی خیانت تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کو ’غیر منتخب عناصر‘ نے ہراساں کیا، نواز شریف اور ان کی بیٹی کو ہراساں کیا گیا، ’یہ اس رجحان کا تسلسل ہے کہ جس میں جب بھی غیر منتخب اشرافیہ کے مفادات کو خطرہ لاحق ہوا، عوام کی رائے کو دبایاگیا‘۔ انہوں نے کہاکہ صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف بھی اسی سلسلے کا شکار بنے۔ انہوں نے کہا کہ ’یہ رجحان اشرافیہ کے مسلسل کنٹرول کا مظہر ہے، جس میں رہنماؤں کو پہلے پروان چڑھایا جاتا ہے اور پھر انہیں برباد کر دیا جاتا ہے، جب وہ عوامی مینڈیٹ کے بل پر توانا ہو جاتے ہیں، اور مستحکم طاقت کو چیلنج کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو منظم طریقے سے تحلیل کر دیا جاتا ہے، عوام کی رائے کو بار بار دبایا گیا تاکہ ریاست پر اشرافیہ کا قبضہ قائم رہے، یہ ایک ایسی خیانت اور تباہ کاری ہے جو آئینی جمہوریت کے قلب کو نشانہ بناتی ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کے بانی عمران خان بھی اسی دباؤکے تسلسل کا نشانہ بن رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’سیاسی اختلاف کو جرم بنادیا گیا ہے، خواتین سمیت جو لوگ جھکنے سے انکار کرتے ہیں، انہیں غیر انسانی حالات میں گزارا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، اب یہ کوئی راز نہیں رہا کہ ان سے انصاف چھینا جا رہا ہے‘۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اطہر من اللہ نے انہوں نے کہا کہ عوام کی رائے اشرافیہ کے عدالت عظمی ا ئین کے عوام کے جاتا ہے کے طور کے لیے
پڑھیں:
تحریک تحفظ آئین کا 27 ویں ترمیم کی جعلی منظوری کے اگلے دن یوم سیاہ منانے کا اعلان
— اسکرین گریبتحریک تحفظ آئین نے 27ویں ترمیم کی جعلی منظوری کے اگلے دن یوم سیاہ منانے کا اعلان کردیا، جبکہ قومی مشاورتی اجلاس کے بعد ملک گیر جلسے جلوسوں کا اعلان کیا جائے گا۔
اعلامیہ کے مطابق اسلام آباد میں اسی ہفتے قومی مشاورتی کانفرنس بلائی جائے گی جس میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کو بلایا جائے گا۔
اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ 27ویں ترمیم کی جعلی منظوری کے اگلے دن یوم سیاہ منایا جائے گا۔ عوام سے اپیل ہوگی کہ سیاہ پٹیاں باندھ کر یومِ سیاہ میں شریک ہوں جبکہ وکلا عدالتوں میں کالی پٹیاں باندھ کر احتجاج کریں گے۔
اعلامیہ کے مطابق پاکستان میں نیا عمرانی معاہدہ لایا جائے۔ ہمیں عوامی رائے سازی کا آغاز کرنا ہے جس کے لیے کمیٹی بنادی ہے، اس مشاورت کو صرف اوپر کی سطح تک نہیں رکھیں گے، تاجر تنظیموں کو بھی اس مشاورت میں شرکت کی دعوت دیں گے، ہر عوامی رائے ساز سے درخواست ہے اس پر خیالات کا اظہار کرے۔
تحریک تحفظ آئین کے اعلامیہ کے مطابق عدلیہ کا نظام منہدم کیا جارہا ہے، وکلا کا اس مشاورت میں کلیدی کردار ہوگا، بار کونسل شرکت یقینی بنائیں، سپریم اور ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج صاحبان سے وفد کی صورت میں ملاقات کی جائے گی۔