امریکی مفادات میں یورپ کی قربانی
اشاعت کی تاریخ: 14th, December 2025 GMT
اسلام ٹائمز: یکم دسمبر کو رہبرِ معظم آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ایؒ کا یہ بیان کہ امریکہ نے یوکرائن کو دانستہ طور پر جنگ میں جھونکا اور اب اس پر جبری امن مسلط کرنا چاہتا ہے، اس پورے بحران کا نچوڑ پیش کرتا ہے۔ یہ جنگ اس امر کی یاد دہانی ہے کہ بڑی طاقتیں اپنے مفادات کے لیے نہ صرف دشمنوں بلکہ دوستوں کو بھی قربان کرنے سے گریز نہیں کرتیں۔ آخر میں سوال یہ نہیں کہ یوکرائن اس جنگ سے کیا حاصل کرے گا، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ یورپ کب تک امریکی مفادات کی اس آگ میں جلتا رہے گا۔؟ اگر یورپ نے بروقت اپنے مفادات کا تعین نہ کیا تو تاریخ اسے ایک اور خاموش قربانی کے طور پر یاد رکھے گی۔ تحریر: سید انجم رضا
اس وقت عالمی سیاست ان سوالات کا جواب ڈھونڈ رہی ہے، جو نہ صرف یورپ کی سیاست کو جھنجھوڑ رہا ہے بلکہ عالمی طاقتوں کے توازن پر بھی گہرے اثرات ڈال رہا ہے۔ یوکرائن اور روس کی جنگ۔۔۔۔ جو بظاہر دو ممالک کا تنازعہ ہے، مگر اس کے اثرات پوری دنیا کی معیشت، سلامتی اور مستقبل پر پڑ رہے ہیں۔" اس جنگ کے پیچھے چھپے بڑے سوالات میں سے ایک سوال یہ بھی ہے کہ: "کیا امریکہ اپنے اسٹریٹجک اور جیو پولیٹیکل مفادات کے لیے یورپ کو قربان کر رہا ہے۔؟ کیا یورپی یونین آزادانہ فیصلے کر رہی ہے یا واشنگٹن کی پالیسیوں نے اسے ایک ایسے راستے پر ڈال دیا ہے، جہاں مہنگی توانائی، کمزور ہوتی معیشت اور عوامی بے چینی اس کا مقدر بن چکی ہے۔؟" یوکرائن کی جنگ نے یورپ کے صنعتی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا، گیس کی قیمتوں نے ریکارڈ توڑ دیئے، کاروبار بند ہوئے اور کئی یورپی ممالک اب بھی توانائی کے شدید بحران سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس سب کا فائدہ آخر کس کو ہوا۔؟
کیا یہ جنگ ایک "پراکسی وار" ہے۔؟ کیا یورپ کے فیصلے اس کے اپنے ہیں یا امریکہ کی اسٹریٹجک ترجیحات کا نتیجہ؟ اور سب سے اہم بات۔۔۔۔ اگر یورپ اسی راستے پر چلتا رہا تو اس کے مستقبل پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔؟ یوکرائن اور روس کے درمیان جاری جنگ کو اگر محض دو ریاستوں کا عسکری تصادم سمجھا جائے تو یہ ایک سطحی تجزیہ ہوگا۔ درحقیقت یہ جنگ اکیسویں صدی کے عالمی نظام میں ایک ایسی دراڑ ثابت ہو رہی ہے، جو طاقت کے توازن، معاشی ڈھانچوں اور سیاسی اتحادوں کو ازسرِنو ترتیب دے رہی ہے۔ یہ جنگ اس تلخ حقیقت کو بے نقاب کر رہی ہے کہ عالمی سیاست میں اصول، اخلاقیات اور انسانی ہمدردی محض بیانیہ ہیں، جبکہ اصل فیصلے مفادات کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔
یوکرائن، جو مشرقی یورپ کا رقبے کے لحاظ سے تیسرا بڑا ملک ہے، آج ایک وسیع انسانی اور جغرافیائی سانحے کا شکار ہوچکا ہے۔ جنگ کے آغاز کے بعد سے اس کے تقریباً بیس فیصد علاقے پر روس کا عملی کنٹرول قائم ہوچکا ہے، جبکہ کئی ایسے خطے بھی روس کے زیرِ اثر آچکے ہیں، جو یوکرائن کی صنعتی، زرعی اور دفاعی حیثیت کے لیے کلیدی اہمیت رکھتے تھے۔ اس جنگ نے یوکرائنی عوام کو شدید عدم تحفظ میں مبتلا کر دیا ہے اور لاکھوں افراد اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوچکے ہیں، جو یورپ کے لیے ایک نئے انسانی بحران کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ اس جنگ کا ایک اہم پہلو نیٹو کی مشرق کی جانب توسیع ہے، جسے روس اپنی سلامتی کے لیے براہِ راست خطرہ سمجھتا ہے۔ روس ابتداء ہی سے یہ واضح کرتا آیا ہے کہ وہ کسی صورت نیٹو افواج کو اپنی سرحدوں کے قریب برداشت نہیں کرے گا، مگر امریکہ نے یوکرائن کو مغربی بلاک میں شامل کرنے کی کوششوں کے ذریعے اس تنازعے کو ہوا دی۔ یہی وہ مقام ہے، جہاں یہ جنگ ایک علاقائی تنازعے کے بجائے عالمی طاقتوں کی پراکسی جنگ بن گئی۔
امریکہ اور اس کے قریبی اتحادیوں نے اس جنگ کو اپنے اسٹریٹجک اور معاشی مفادات کے لیے بھرپور انداز میں استعمال کیا۔ برطانیہ نے روسی جارحیت کو جواز بنا کر اپنے ملک میں موجود روسی اثاثوں پر قبضہ کیا، جبکہ امریکہ نیٹو ممالک کے ساتھ مل کر یوکرائن کی نایاب معدنیات اور قدرتی وسائل پر اثر و رسوخ بڑھانے کے منصوبوں میں مصروف رہا۔ یہ سب اقدامات اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ یوکرائن کی خودمختاری دراصل بڑی طاقتوں کے مفادات کے کھیل میں ایک مہرے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ اس جنگ کی سب سے بھاری قیمت یورپ ادا کر رہا ہے۔ یورپی معیشتیں، جو طویل عرصے سے روسی گیس اور تیل پر انحصار کرتی رہی ہیں، امریکی پابندیوں کے نتیجے میں توانائی کے شدید بحران کا شکار ہوچکی ہیں۔ یورپ کو اب وہی ایندھن امریکہ سے کئی گنا مہنگے داموں خریدنا پڑ رہا ہے، جس سے مہنگائی، بیروزگاری اور صنعتی زوال میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ کساد بازاری کے خدشات گہرے ہوتے جا رہے ہیں اور یورپی عوام آنے والے موسمِ سرما کو شدید اضطراب کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔
یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ آیا امریکہ واقعی یورپ کی فلاح و بہبود کا خواہاں ہے، یا اسے محض ایک منڈی اور اسٹریٹجک میدان کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی خود غرضانہ پالیسیوں نے یورپ کو عملی طور پر معاشی بحران کی طرف دھکیل دیا ہے۔ توانائی کی قیمتوں میں اضافہ، صنعتوں کی بندش اور عوامی فلاحی منصوبوں میں کٹوتیاں یورپی عوام کے غصے کو بھڑکا رہی ہیں۔ اسی تناظر میں غزہ کی جنگ نے یورپ اور امریکہ کے تعلقات میں مزید دراڑ ڈال دی ہے۔ امریکی دباؤ پر اسرائیل کی حمایت کے لیے یورپی حکومتوں نے اپنے عوام کے وسائل خرچ کیے، جس کے نتیجے میں عوامی سطح پر شدید ردِعمل سامنے آیا۔ فرانس، جرمنی اور دیگر یورپی ممالک میں اسرائیل اور صیہونی پالیسیوں کے خلاف مظاہرے دراصل امریکہ کی منافقانہ خارجہ پالیسیوں کے خلاف ایک عوامی ریفرنڈم بن چکے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس امریکی پالیسی کے خلاف ردِعمل خود امریکہ کے اندر بھی بڑھ رہا ہے۔ نیویارک کے میئر کے انتخابات میں عوامی رجحان نے امریکی حکومتی پالیسیوں سے بیزاری کا اظہار کیا، جبکہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نیٹو کو چھوڑنے کی دھمکیاں امریکی سیاسی بوکھلاہٹ کی عکاس ہیں۔ یورپی یونین کے لیے ٹرمپ کا رویہ پہلے ہی ناقابلِ قبول تھا، مگر اب وہ ناقابلِ برداشت بنتا جا رہا ہے۔ ٹرمپ کی جانب سے یوکرائن–روس جنگ بندی کے لیے پیش کیے گئے بائیس نکات بھی دراصل امریکی مفادات کے تحفظ کی ایک اور کوشش دکھائی دیتے ہیں، نہ کہ پائیدار امن کا کوئی سنجیدہ منصوبہ۔
مستقبل کے منظرنامے پر نگاہ ڈالی جائے تو واضح ہوتا ہے کہ یورپ اور نیٹو کے لیے امریکی اثر و رسوخ سے نکلنے کی خواہش مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ نیٹو کے سربراہ کی جانب سے تیسری عالمی جنگ کے خدشات کا اظہار اس بات کی علامت ہے کہ عالمی نظام خطرناک حد تک عدم استحکام کا شکار ہوچکا ہے۔ یکم دسمبر کو رہبرِ معظم آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ایؒ کا یہ بیان کہ امریکہ نے یوکرائن کو دانستہ طور پر جنگ میں جھونکا اور اب اس پر جبری امن مسلط کرنا چاہتا ہے، اس پورے بحران کا نچوڑ پیش کرتا ہے۔ یہ جنگ اس امر کی یاد دہانی ہے کہ بڑی طاقتیں اپنے مفادات کے لیے نہ صرف دشمنوں بلکہ دوستوں کو بھی قربان کرنے سے گریز نہیں کرتیں۔ آخر میں سوال یہ نہیں کہ یوکرائن اس جنگ سے کیا حاصل کرے گا، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ یورپ کب تک امریکی مفادات کی اس آگ میں جلتا رہے گا۔؟ اگر یورپ نے بروقت اپنے مفادات کا تعین نہ کیا تو تاریخ اسے ایک اور خاموش قربانی کے طور پر یاد رکھے گی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: امریکی مفادات مفادات کے لیے اپنے مفادات نے یوکرائن یوکرائن کی یہ ہے کہ رہے ہیں کی جانب سوال یہ رہا ہے سے ایک رہی ہے یہ جنگ
پڑھیں:
برطانیہ کا بڑے پیمانے پر جنگ کی تیاری کا آغاز، یورپ پر خطرات کے بادل منڈلانے لگے
برطانیہ نے بدلتی ہوئی عالمی صورتحال اور بڑھتے ہوئے خطرات کے پیشِ نظر بڑے پیمانے پر جنگی تیاریوں کا آغاز کر دیا ہے۔ مسلح افواج کے وزیر کرنل ایسکاٹ کارنز نے خبردار کیا ہے کہ جنگ کے سائے یورپ کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں، برطانیہ کو ہر صورت تیار رہنا ہوگا۔
ایک انٹرویو میں کرنل کارنز نے انکشاف کیا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران برطانیہ کے خلاف دشمن ممالک کی انٹیلیجنس سرگرمیوں میں 50 فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے جو صورتحال کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نیٹو ممالک کو اپنی سلامتی یقینی بنانے کے لیے دفاعی اخراجات بڑھانے ہوں گے کیونکہ موجودہ خطرات پہلے سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور سنگین ہو چکے ہیں۔
وزیر نے اعتراف کیا کہ پچھلے 50 سے 60 برسوں سے برطانیہ نے اپنے دفاع کے معاملات کسی حد تک امریکا کو آؤٹ سورس کر رکھے تھے، مگر اب یہ انحصار ختم کرنا ہوگا، ان کا کہنا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ برطانیہ اپنا دفاع خود کرے اور امریکا پر مکمل انحصار کے رویے کو ترک کرے۔
خبر ایجنسی کے مطابق برطانوی حکومت نے ایک نئی ڈیفنس کاؤنٹر انٹیلیجنس یونٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا جو مخالف ریاستوں کی جاسوسی سرگرمیوں کا سراغ لگانے اور انہیں ناکام بنانے میں مدد کرے گا۔ یہ یونٹ مستقبل کے خطرات سے نمٹنے کے لیے اہم کردار ادا کرے گا۔
یہ بیانات اس وقت سامنے آئے ہیں جب نیٹو کے نئے سربراہ مارک روٹے نے یورپی اتحادیوں کو خبردار کیا ہے کہ انہیں روس کے ساتھ ممکنہ بڑے تصادم کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
یورپ میں بڑھتے تناؤ اور عسکری تیاریوں نے خطے میں بے چینی کی فضا پیدا کر دی ہے جبکہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آنے والے مہینے سیکیورٹی کے اعتبار سے فیصلہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔