اسلام آباد، پشاور(نمائندہ جسارت،خبر ایجنسیاں) پی ٹی آئی رہنما عمر ایوب نے کہا ہے کہ اگر حکومت واقعی اختیار رکھتی ہے تو عمران خان سے ملاقات کرائی جائے۔جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد میں صحافیوں سے گفت گو میں انہوں نے کہا کہ مذاکرات سے متعلق تین مطالبات ہیں، 9 مئی، 26 مئی کا جوڈیشل کمیشن اور کارکنان کی رہائی مطالبات میں شامل ہیں، بانی پی ٹی آئی سے ملاقات چاہتے ہیں لیکن ملاقات نہیں کروائی گئی۔انہوںنے کہا کہ ہمیں بتایا گیا کہ ملاقات کروانا جیل مینوئل میں شامل نہیں، اپنی بات سے حکومت مکر رہی ہے، اگر حکومت واقعی اختیار رکھتی ہے تو بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرائے تاکہ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کو میٹنگ کا حصہ بنادیں۔علاوہ ازیںپاکستان تحریک انصاف کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم نے کہا ہے کہ حکومت کی ضد کی وجہ سے مذاکرات تعطل کا شکار ہوئے۔ سیکرٹری اطلاعات پی ٹی آئی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی ضد کی وجہ سے مذاکرات تعطل کا شکار ہوئے ہیں، ہمیں یہ بتایا جارہا ہے کہ آپ مطالبات لکھ کردیں،ہم کبھی اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔ انہوں نے کہا کہ بانی چیئرمین عمران خان نے حکومت کو جبر اور فسطائیت کے باوجود موقع فراہم کیا، ہمارا مطالبہ ہے کہ بانی چیئرمین تک رسائی فراہم کی جائے۔شیخ وقاص اکرم نے کہا کہ ساڑھے تین ماہ سے عمران خان تک رسائی ختم کردی گئی ہے، وکلا کو بھی ان سے نہیں ملنے دیا جارہا۔انہوں نے کہا کہ ہم نے مطالبات کیلیے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا، بانی چیئرمین نے حکومت کے ساتھ تیسری نشست میں جوڈیشل کمیشن بنانا لازمی قرار دیا ہے ،انہوں نے کہا کہ عمران خان سے کمیٹی کی ایک ملاقات نہیں کرواسکتے تو ہمارے بڑے مطالبات کیسے منوائیں گے؟انہوں نے کہا کہ عمران خان کے ساتھ جیل میں رواسلوک رکھا جارہا ہے اورسہولیات کے حوالے سے جھوٹ بولا جارہا ہے ،بانی کو جس سیل میں رکھا گیا کیا وہ مناسب ہے؟بانی کو دہشت گردوں کے ڈیڈ سیل میں رکھا گیا ہے، ٹی وی،واش رومز اور ملاقات کی سہولیات نہیں دی جارہیں۔علاوہ ازیںعمران خان سے مذاکراتی کمیٹی کی ملاقات کے معاملے میں صورت حال عجیب ہو گئی۔حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنیو الی پاکستان تحریک انصاف کی کمیٹی کے ارکان کی اڈیالہ جیل میں بانی چیئرمین عمران خان کے ساتھ ملاقات کا معاملہ عجیب کشمکش کا شکار ہوگیا، جس میں پارٹی رہنماؤں اور جیل حکام کی جانب سے مختلف باتیں سامنے آ رہی ہیں۔عمران خان سے ملاقات کے معاملے میں دونوں جانب سے اپنا اپنا مؤقف پیش کیا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چودھری نے کہا ہے کہ جیل والے بلائیں گے تو ہم جیل آئیں گے۔ دوسری جانب جیل ذرائع کا کہنا ہے کہ جب تک کوئی ملاقات کے لیے جیل نہیں آتا، تو اجازت کس کو دیں؟۔صورت حال کے تناظر میں گزشتہ ملاقات کے روز بھی مذاکراتی کمیٹی اور جیل حکام کے درمیان رابطوں کا فقدان رہا تھا اور اب بھی جیل والے مذاکراتی کمیٹی کی آمد کے منتظر ہیں جب کہ مذاکراتی کمیٹی جیل حکام کی دعوت کی منتظر ہے۔جیل ذرائع کے مطابق بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کے لیے تاحال کوئی رہنما، وکیل یا فیملی ممبران جیل نہیں آئے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: بانی پی ٹی ا ئی سے ملاقات بانی چیئرمین ملاقات کے جیل حکام کے ساتھ

پڑھیں:

بلدیاتی حکومتوں کو بااختیار بنانے کیلئے27 ویں ترمیم کی بازگشت

مقامی حکومتوں کے معاملے پر کھل کر بات ہونی چاہئے، تحفظ کیلئے آئین میں ترمیم کرکے نیا باب شامل کیا جائے،اسپیکرپنجاب اسمبلی
مقررہ وقت پر انتخابات کرانا لازمی قرار دیا جائے،بے اختیار پارلیمنٹ سے بہتر ہے پارلیمنٹ ہو ہی نہیں،ملک احمد خان کی پریس کانفرنس

اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے کہا ہے کہ مقامی حکومتوں کے معاملے پر کھل کر بات ہونی چاہئے، مقامی حکومتوں کے تحفظ کے لیے آئین میں ترمیم کرکے نیا باب شامل کیا جائے، مقررہ وقت پر انتخابات کرانا لازمی قرار دیا جائے۔پریس کانفرنس کرتے ہوئے سپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ منگل کے روز صوبائی اسمبلی پنجاب نے ایک متفقہ قرارداد پاس کی، ایسی قرارداد جس میں سیاسی اورآئینی پیچیدگیاں ہوں اس کا متفقہ طور پر منظور ہونا اہمیت کی بات ہے، اپوزیشن کے 35اراکین نے متن میں حصہ لیا۔ملک احمد خان نے کہا کہ میں پوری ذمہ داری سے بات کررہا ہوں، مقامی حکومتوں کا ایک ٹریک ریکارڈ ہے، مقامی حکومتوں کے ایک درجن کے قریب قوانین سے گزرے ہیں، کوئی بھی سیاسی حکومت ہو لیکن مقامی حکومتوں کا تحفظ، انتخابات کا وقت طے ہونا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل کہتا ہے صوبے مقامی حکومتیں قائم کریں گے، کچھ مسائل اٹھارہویں ترمیم نے بھی حل کیے، جو مسائل درپیش آتے رہے، ان کا ذکر کررہا ہوں، قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ایسی ترمیم ہوجو لوکل گورنمنٹ کو تحفظ دے۔ملک احمد خان نے کہا کہ صوبائی اسمبلی پنجاب آئین میں تبدیلی نہیں کرسکتی، یہ پارلیمنٹ ہی کرسکتی ہے، لازمی قراردیا جائے کہ مقررہ مدت میں انتخابات ہوں، ہم کہتے ہیں کہ آئینی اورانتظامی اختیارات گراس روٹ تک پہنچنے چاہئیں۔انہوں نے کہا کہ سیاسی سہولت کے تحت سیاسی جماعت ایسا نہ کرسکے کہ مقامی حکومت کی مدت کم کردی جائے، تقریباً ایک صدی سے معاملات طے نہیں پائے جاسکے،پنجاب کی 77سالہ تاریخ اٹھائوں تو 50سال مقامی حکومتوں کا وجود نہیں جوبہت بڑی الارمنگ بات ہے۔انہوں نے کہا کہ مقامی حکومتوں پر بات ضروری ہے، بات چیت کا آغاز کرنے پر معزز اراکین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، اراکین کی جانب سے آنے والی آئینی وقانونی تجاویز پر تحسین پیش کرتا ہوں، توقع کرتا ہوں وزیر قانون، پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن، پی ٹی آئی، جماعت اسلامی اوردیگر جماعتیں اس کو اہمیت دیں کی۔اسپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ تمام جماعتوں کے نمائندوں نے یہ معاملہ پنجاب اسمبلی سے وفاق کو بھیجا ہے، توقع ہے اس کو اہمیت دی جائے گی، لوکل گورنمنٹ کے ساتھ گزشتہ صورتحال سے آگاہ کیا،ا سپیڈ بریکر آتے رہے، یہ ٹوٹتی رہیں۔انہوں نے واضح کیا کہ مقامی حکومتوں، لوکل گورنمنٹ کا گراس روٹ لیول پر نہ ہونا ریاست کے شہری سے معاہدے کو بالکل کمزور کرتا ہے، ریاست کا میرے ساتھ ایک سوشل کنٹریکٹ ہے، ریاست نے بنیادی طور پر مجھے کچھ چیزیں لازمی دینی ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر مجھ سے میری مقامی حکومت ٹیکس وصول کرے تو مجھے پتہ ہے کہ یہ میرے علاقے میں خرچ ہوگا، کسی بڑی سوسائٹی میں رہنے والے کے سامنے مسائل نہیں، متوسط طبقے کے ساتھ کئی مسائل ہیں، مقامی حکومتوں کو آئینی تحفظ ملنا چاہئے، پارلیمان اس پر ضرور غور کرے۔سپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان نے کہا کہ ہم پارلیمان سے کہہ رہے ہیں اگر 27ویں ترمیم کرنی ہے تو شہریوں کے ساتھ ریاست کا معاہدہ مضبوط کریں، اگر آل پارٹیز کانفرنس بھی کرنا پڑتی ہے تو مہربانی کرکے فوری کرائیں، یہ شہری اورریاست کے معاہدے کو مضبوط رکھنے کیلئے لازم ہے۔اسپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ متفقہ قرارداد میں کہا گیا کہ 140 اے نامکمل ہے، صوبے مقامی حکومتیں قائم کریں گے، نئی حکومت نے آتے ہی لوکل گورنمنٹ کو ختم کردیا پھر کیا قانون بنانے میں 3 سال کا عرصہ لگا، لازمی قرار دیا جائے کہ مقررہ مدت میں بلدیاتی انتخابات ہوں۔انہوںنے کہا کہ پنجاب اسمبلی آئین میں تبدیلی نہیں کر سکتی، بلدیاتی اداروں کو سیاسی، انتظامی اور مالیاتی اختیارات دیے جائیں، لوکل گورنمنٹ کے لیے اگر 27ویں ترمیم کرنا پڑتی ہے تو فوراً کریں۔انہوں نے کہا کہ میں نے فیض آباد اور مری روڈ کو جلتے ہوئے دیکھا، مجھے تشویش ہوتی تھی کہ پاکستان میں لاقانونیت کیوں ہے، میں نے دیکھا کہ کچھ بلوائیوں نے سڑک پر گڑھے کھودے، پولیس پر سیدھے فائر کیے، امن و امان کا قیام حکومت کی ذمہ داری ہے۔ملک احمد خان نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کو بڑا سیاست دان سمجھتا ہوں، مولانا نے جو کہا وہ ان کی رائے ہے ، ملک میں 27ویں آئینی ترمیم کی بہت بازگشت ہے ، بے اختیار پارلیمنٹ سے بہتر ہے کہ پارلیمنٹ ہو ہی نہیں، مقامی حکومتوں کو آئینی تحفظ ملنا چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • سیاسی درجہ حرارت میں تخفیف کی کوشش؟
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • پاکستانی سیاست… چائے کی پیالی میں طوفان
  • اسرائیلی حملے، 24 گھنٹے میں مزید 5 فلسطینی شہید
  • سابق رہنماؤں کا بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے سیاسی جماعتوں و دیگر سے رابطوں کا فیصلہ
  • بلدیاتی حکومتوں کو بااختیار بنانے کیلئے27 ویں ترمیم کی بازگشت
  • عمران خان کیخلاف مقدمات انسداد دہشتگردی عدالت منتقل
  • آئمہ کرام کی رجسٹریشن کیلئے کوئی قواعد و ضوابط جاری نہیں کیے، محکمہ داخلہ
  • پیپلزپارٹی نے کراچی کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی‘پی ٹی آئی
  • پی ٹی آئی کی حکومت یا اسٹیبلشمنٹ سے کوئی بات چیت نہیں ہورہی، بیرسٹر گوہر