اسلام میں مصالح اور علما کی آرا
اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT
اسلام کی مختلف خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ دین مصلحتوں اور حکمتوں پر مبنی ہے۔ اس کے لیے ’دین میں مصالح‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو احکام دیے ہیں ان میں انسانوں کے لیے بے پناہ فوائد پوشیدہ ہیں۔ اگر ان احکام پر عمل نہ کیا جائے اور دین کو ترک کردیا جائے تو ان فوائد سے محرومی کے ساتھ طرح طرح کے نقصانات لاحق ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور اللہ نے تمھارے لیے دین میں کوئی حرج نہیں بنایا ہے‘‘۔ (الحج: 78)
قرآن و حدیث میں ایسی بے شمار نصوص ہیں جن میں احکام میں مصالح اور حکمتوں کی وضاحت کی گئی ہے اور علما نے اس پر مستقل کتابیں تصنیف کی ہیں، جن میں اسرار شریعت اور احکام کی علتوں کو بیان کیا گیا ہے۔ علماے اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ حکیم ہے اور اس کے احکام میں حکمت و مصلحت پائی جاتی ہے۔ امام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں: تمام اَئمہ و فقہا احکام شرع میں حکمت و مصالح کے اثبات کے مسئلے پر متفق ہیں۔ اس سلسلے میں قیاس کو نہ ماننے والوں اور کچھ دوسرے لوگوں نے اختلاف کیا ہے۔
جو لوگ احکام میں مصالح اور حکمتوں کا انکار کرتے ہیں ان کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے امام موصوف لکھتے ہیں: ’’اہل سنت اللہ تعالیٰ کے احکام میں تعلیل (علت) کے قائل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی چیز کو پسند کرتا ہے اور وہ راضی ہوتا ہے، جیسا کہ قرآن و سنت سے ثابت ہے۔ ان کے نزدیک پسند کرنا اور راضی ہونا مطلق طور پر کسی چیز کا ارادہ کرنے کے مقابلے میں زیادہ خاص ہے (یعنی کسی حکم کی بجا آوری رضاے الٰہی کے لیے ہونا اس کی علت قرار دی جاسکتی ہے)۔ بے شک اللہ تعالیٰ کفر، فسق اور عصیان کو پسند نہیں کرتا، اگرچہ اللہ کی مشیّت و ارادے کے بغیر کوئی شخص ان افعال کو انجام نہیں دے سکتا‘‘۔ (منھاج السنۃ النبوی، ابن تیمیہ)
ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ احکام میں علّت تسلیم کرنے کی صورت میں تسلسل اور دور لازم آئے گا اور اللہ تعالیٰ حکمت کا تابع قرار پائے گا، جس سے وہ برتر و بالا ہے۔ اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے امام موصوف لکھتے ہیں: ’’یہ تسلسل مستقبل میں واقع ہونے والے واقعات کے بارے میں لازم آتا ہے نہ کہ گذشتہ واقعات کے بارے میں۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے کسی کام کو کسی حکمت کے لیے انجام دیا تو حکمت اس فعل کے بعد حاصل ہوگئی۔ اب اگر اس حکمت سے دوسری حکمت چاہی جائے تو یہ تسلسل مستقبل میں پیش آئے گا۔ اور وہ حاصل شدہ حکمت اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ اور ایک دوسری حکمت کا سبب ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ایسی حکمتیں پیدا کرتا رہتا ہے جن کو وہ پسند کرتا ہے اور ان کو دوسری حکمتوں کا سبب بھی بناتا رہتا ہے۔ جمہور مسلمان اور دوسرے فرقوں کے لوگ مستقبل میں تسلسل کے قائل ہیں، ان کے نزدیک جنت اور جہنم میں ثواب و عذاب ایک کے بعد ایک تسلسل کے ساتھ حاصل رہے گا‘‘۔ (ایضاً)
امام موصوف دین میں مصالح اور حکمتوں کی موجودگی کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’جب فرد کو معلوم ہوگیا کہ فی الجملہ اللہ تعالیٰ کے دین (اوامر و نواہی) میں عظیم حکمتیں ہیں تو اتنی ہی بات اس کے لیے کافی ہے، پھر جوں جوں اس کے ایمان و علم میں اضافہ ہوگا اس پر حکمت اور رحمت الٰہی کے اسرار کھلتے جائیں گے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا ہے: ’’عن قریب ہم ان کو ا پنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی، یہاں تک کہ ان پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ یہ قرآن برحق ہے‘‘۔ (حٰم السجدہ: 53) یا جیسا کہ ایک حدیث میں اس مفہوم کو مزید واضح کیا گیا ہے: ’’اللہ بندوں کے حق میں اس سے زیادہ رحیم ہے، جتنا ماں اپنے بچے کے لیے رحم دل ہوتی ہے‘‘۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ)
شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغۃ میں ان لوگوں کی پْرزور تردید کی ہے جنھوں نے احکام میں مصلحتوں کا انکار کیا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ احکام شرعیہ قطعاً حکمتوں اور مصلحتوں پر مشتمل نہیں ہیں۔ یہ خیال سراسر فاسد ہے اور سنت اور اجماعِ امت سے اس کی تردید ہوتی ہے‘‘۔
مصالح کے فوائد
شاہ ولی اللہؒ نے ان مصالح اور حکمتوں کو جاننے کے فوائد بھی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ ان میں سے بعض اہم فوائد درج ذیل ہیں:
1۔اس سے معجزۂ قرآن کی طرح (جس کے معارضے سے انسان عاجز ہوگئے) شریعت کے معجزے کا اظہار ہوتا ہے کہ سیدنا محمدؐ کی لائی ہوئی شریعت تمام شریعتوں سے کامل تر ہے، اور اس میں ایسی مصلحتیں پیش نظر رکھی گئی ہیں جن کی رعایت کسی اور طریقے پر ممکن نہیں۔ یہ کامل شریعت ایک نبی اْمی کی طرف سے پیش کی گئی ہے۔
2۔شریعت ِاسلامیہ پر کامل ایمان ویقین کے ساتھ اگر اس کی مصلحتیں بھی معلوم ہوجائیں تو اطمینانِ قلبی حاصل ہوتا ہے اور یہ طمانیت شرعاً مطلوب ہے، جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایمان کامل کے باوجود اللہ تعالیٰ سے اس کا مطالبہ کیا تھا۔ چنانچہ اس کے لیے ان کے سامنے ایک معجزہ دکھا دیا گیا۔ (البقرہ: 260)
3۔فروعی مسائل میں فقہا کے درمیان اختلافات رونما ہوئے ہیں۔ مصالح کے علم سے ان اختلافات میں کسی ایک مسئلے کو ترجیح دینے میں مدد ملتی ہے۔
4۔شریعت کے بعض مسائل میں بعض فرقوں کو شک ہے۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ ان میں شریعت کا حکم خلافِ عقل ہے اور جو چیز عقل کے خلاف ہو، اسے رد کردینا چاہیے، جیسے عذابِ قبر کے بارے میں معتزلہ کو شک ہے۔ اسی طرح قیامت میں حساب کتاب اور اعمال کے تولے جانے کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ علیم و خبیر ہے، اسے حساب لینے اور اعمال کو تولنے کی کیا ضرورت؟ غرض کہ اس طرح کے اور دیگر مسائل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خلافِ عقل ہیں۔ اس کا سدّباب اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ ان کے بارے میں مصلحتوں اور حکمتوں کو بیان کیا جائے، تاکہ شک کا ازالہ ہو۔(حجۃ اللہ البالغۃ)
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: میں مصالح اور کے بارے میں احکام میں جیسا کہ ہیں کہ ہے اور کے لیے
پڑھیں:
اللہ نے عمران خان کو قبول کیا ہے، پنجاب پولیس کے اہلکار کی بانی پی ٹی آئی کے حق میں گفتگو
راولپنڈی:اڈیالہ جیل کے قریب ڈیوٹی پر تعینات پنجاب پولیس کے اہلکار نے بانی پی ٹی آئی کیلیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق آج بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کا دن تھا جس کے لیے تینوں بہنیں، عظمی، علیمہ اور نورین خان اپنے کزن قاسم خان کے ہمراہ اڈیالہ جیل روانہ ہوئیں تو انہیں پولیس نے گورکھپور ناکے پر روک لیا۔
اس دوران وہاں پر تعینات پنجاب پولیس کے اہلکار نے بانی پی ٹی آئی کی بہنوں اور کزن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ اللہ کی طرف سے امتحان ہے اور امتحان نیک لوگوں کیلیے ہوتا ہے‘۔
پولیس اہلکار کی گفتگو سُن کر بانی پی ٹی آئی کی بہن نے جواب دیا کہ ’اللہ ہمت بھی دے گا‘۔
اس پر پولیس اہلکار نے کہا کہ اللہ پاک نے عمران خان کو ہر نکتہ نظر سے قبول کیا ہے۔