Jasarat News:
2025-11-03@16:41:05 GMT

بھارت کی وجہ سے

اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT

بھارت کی وجہ سے

دنیا بھر میں مقیم کشمیری یوم حق خود ارادیت کے طور پر منا کر اپنے اس عزم کی تجدید کرتے ہیں کہ وہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ اپنے ناقابلِ تنسیخ حق، حق خود ارادیت کے حصول تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ یہ 5 جنوری 1949 کا دن تھا جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک تاریخی قرارداد منظور کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ریاست جموں و کشمیر کے پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کے سوال کا فیصلہ آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے کے جمہوری طریقے سے کیا جائے گا۔ اقوام متحدہ کی مذکورہ قرارداد پر عملدرآمد میں واحد رکاوٹ بھارت کا منفی رویہ، ہٹ دھرمی اور غیر حقیقت پسندانہ طرز عمل ہے۔ گزشتہ ساڑھے سات دہائیوں سے زائد عرصہ گزر چکا ہے لیکن اقوام متحدہ کی کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کے حوالے سے منظور شدہ قراردادوں پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔ بھارت یکم جنوری 1948 میں مسئلہ کشمیر خود ہی اقوام متحدہ میں لیکر گیا تھا۔ 15 جنوری 1948 میں سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر پر بحث کا آغاز ہوا، 20 جنوری کو سلامتی کونسل نے کمیشن برائے پاک و ہند کا تقرر عمل میں لایا اور 28 جنوری 1948میں سلامتی کونسل کے صدر نے اعلان کیا کہ پاکستان اور بھارت ریاست جموں وکشمیر کے مستقبل کا فیصلہ استصواب رائے کے ذریعے طے کرانے پر رضامند ہو گئے ہیں جو غیرجانبدارانہ اور آزاد انہ طور پر اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہو گا۔ یکم جنوری 1949 میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں جنگ بندی کا اعلان کیا گیا اور 5 جنوری 1949 میں کمیشن نے دونوں فریقوں کی رضا مندی سے اپنی دوسری تاریخی قرارداد پیش کی اس کے پہلے حصہ میں جنگ بندی کا ذکر تھا جس پر عمل بھی ہو چکا تھا۔

مسئلہ کشمیر پر پہلی جنگ اس وقت شروع ہوئی جب بھارت اس مسئلے کو اقوام متحدہ لیکر گیا۔ جب اقوام متحدہ کے کمیشن نے دونوں ممالک سے قرارداد پر عملدرآمد کے لیے مطلوبہ منصوبہ مانگا تو بھارت نے دو مزید مطالبات پیش کر دیے۔ ایک یہ کہ اسے جنگ بندی لائن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شمال اور شمال مغرب کے علاقوں پر کنٹرول دیا جائے اور دوسرا یہ کہ آزاد کشمیر میں پہلے سے قائم اداروں کو نہ صرف غیر مسلح کیا جائے بلکہ ان اداروں ہی کو ختم کر دیا جائے، اس بات کا اعتراف جوزف کاربل نے اپنی کتاب ڈینجر ان کشمیر کے صفحہ 157 پر کیا ہے۔ جوزف کاربل کا تعلق چیک سلواکیہ سے تھا اور یہ اقوام متحدہ کے کمیشن کے چیئرمین تھے اور کمیشن میں ان کی شمولیت بھارتی نمائندے کے طور پر ہوئی تھی۔ جوزف کاربل نے اعتراف کیا کہ بھارتی موقف اقوام متحدہ کی قرارداد سے تجاوز کر رہا تھا۔ پاکستان نے آزاد کشمیر سے اپنی افواج نکالنے پر رضامندی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ قرارداد کے مطابق بھارت جو ضروری افواج مقبوضہ جموں و کشمیر میں رکھے گا اس کی تعداد اور تعیناتی کا مقام اقوام متحدہ کمیشن کو پیش کیا جائے۔ بھارت نے اس سے بھی انکار کیا۔ اس پر جنگ بندی کمیشن نے امریکی صدر ٹرومین اور برطانوی وزیر اعظم کلیمنٹ ایٹلی کی تجویز پر کہا کہ دونوں ممالک اپنا موقف پیش کر یں جو ایک آربٹریٹر کے سامنے رکھا جائے اور وہ فیصلہ کر دے۔ اقوام متحدہ کی دستاویزات کے مطابق پاکستان نے یہ تجویز بھی قبول کر لی لیکن بھارت نے اسے بھی رد کر دیا۔ خود بھارتی نمائندے نے اعتراف کیا کہ اقوام متحدہ کی اس قرارداد پر بھارت کی وجہ سے عمل نہ ہو سکا۔ ان کے الفاظ تھے: ’’A lack of goodwill on part of India‘‘ معاملے کے حل کے لیے سلامتی کونسل نے سلامتی کونسل ہی کے صدر مک ناٹن پر مشتمل ایک یک رکنی کمیشن بنایا۔ اس کمیشن نے کہا کہ اب دونوں ممالک بیک وقت اپنی فوجیں نکالتے جائیں گے تا کہ کسی کو کوئی خطرہ نہ رہے۔ پاکستان نے یہ تجویز بھی قبول کر لی۔ بھارت نے اس تجویز کو بھی رد کر دیا۔

یہاں دلچسپ امر یہ ہے کہ اس تجویز کو سلامتی کونسل نے 14 مارچ 1950 میں ایک قرارداد کی شکل میں منظور کر لیا۔ گویا اب اقوام متحدہ کی قرارداد یہ کہہ رہی ہے کہ دونوں ممالک بیک وقت فوجیں نکالنا شروع کریں گے۔ اقوام متحدہ نے اوون ڈکسن کو جو آسٹریلیا کے چیف جسٹس رہے اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا۔ انہوں نے فوجی انخلا کی بہت سی تجاویز دیں۔ پاکستان نے سب مان لیں، بھارتی وزیر اعظم نے ایک بھی نہ مانی۔ 1951 میں بھارت نے کہا ہمیں خطرہ ہے، لہٰذا ہم فوجیں نہیں نکالیں گے۔ آسٹریلیا کے وزیر اعظم گورڈن منزیز نے مشترکہ افواج کی تجویز دی بھارت نے وہ بھی رد کر دی۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی نگرانی میں مقامی فورس بنانے کی بات کی بھارت نے اسے بھی رد کر دیا۔ انہوں نے کہا ہم کامن ویلتھ کی افواج بھیج دیتے ہیں، بھارت نے یہ تجویز بھی رد کر دی۔ معاملہ ایک بار سلامتی کونسل میں چلا گیا۔ 30 مارچ 1951 میں سلامتی کونسل نے امریکی سینیٹر فرینک پی گراہم کو نیا نمائندہ مقرر کر کے کہا کہ تین ماہ میں فوجیں مقبوضہ جموں و کشمیر سے نکالی جائے اور پاکستان اور بھارت اس پر متفق نہ ہو سکیں تو عالمی عدالت انصاف سے فیصلہ کرا لیا جائے۔ مسٹر فرینک نے چھے تجاویز دیں بھارت نے تمام کی تمام تجاویز رد کر دیں۔ صرف خانہ پری کے لیے بھارت نے کہا وہ تو مقبوضہ جموں وکشمیر میں اکیس ہزار فوجی رکھے گا جب کہ پاکستان آزاد کشمیر سے اپنی افواج نکال لے، وہاں صرف چار ہزار مقامی اہلکار ہوں، ان میں سے بھی دو ہزار عام لوگ ہوں، ان کا آزاد کشمیر حکومت سے کوئی تعلق نہ ہو۔ ان میں سے بھی آدھے غیر مسلح ہوں۔ گراہم نے اس میں کچھ ردو بدل کیا، پاکستان نے کہا یہ ہے تو غلط لیکن ہم اس پر بھی راضی ہیں، بعد میں بھارت اس سے بھی مکر گیا۔ سلامتی کونسل کے صدر نے ایک بار پھر تجویز دی کہ آربٹریشن کروا لیتے ہیں تا کہ معلوم ہو انخلا کے معاملے میں کون سا ملک تعاون نہیں کر رہا۔ پاکستان اس پر بھی راضی ہو گیا، بھارت نے یہ تجویز بھی ردکر دی تھی۔

مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے کے لیے برسر پیکار کشمیری عوام اقوام متحدہ کی منظور شدہ قراردادوں کی روشنی میں غیرجانبدارانہ استصواب رائے چاہتے ہیں۔ جو ان کا بنیادی حق ہے، جس کی ضمانت اقوام متحدہ کی قراردادوں میں دی جاچکی ہے۔ جبکہ بھارت اقوام عالم کو گواہ ٹھیرا کر کشمیری عوام کے ساتھ حق خود ارادیت کا یہ وعدہ کرچکا ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر پربھارت کے ظالمانہ قبضے کے 78 برس مکمل ہونے کے باوجود بھی کشمیری عوام استصواب رائے کے اپنے مطالبے پر قائم ودائم ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں کشمیری عوام کے استصواب رائے کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے حق کو برقرار رکھا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت استصواب رائے مسئلہ کشمیر کا واحد حل ہے۔ کشمیری عوام کو اقوام متحدہ کی لازمی رائے شماری کے مطالبے پر بھارت کی بدترین ریاستی دہشت گردی کا سامنا ہے۔ کشمیری عوام استصواب رائے کے لیے تاریخ کی لازوال اور بے مثال قربانیاں دے رہے ہیں۔ کشمیری عوام اقوام متحدہ کی سرپرستی میں غیر جانبدارانہ رائے شماری کے انعقاد تک قربانیوں سے مزیں اپنی جدوجہد جاری رکھنے کا عزم رکھتے ہیں۔ جس میں لاکھوں جانوں کی قربانیاں دی جاچکی ہیں، جبکہ آج بھی قربانیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ فسطائی مودی وحشیانہ ہتھکنڈوں اور ظالمانہ حربوں کا سہارا لیکر کشمیری عوام کے جذبہ آزادی کو ختم نہیں کر سکتا۔ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں رائے شماری سے انحراف کرکے کئی دہائیوں سے مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی منظور شدہ قراردادوں کی صریحاً خلاف ورزی کر رہا ہے۔ یقینا مقبوضہ جموں و کشمیر پر بین الاقوامی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کے لیے بھارت کو جوابدہ ٹھیرایا جانا چاہیے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اقوام متحدہ کی قرارداد استصواب رائے کے سلامتی کونسل نے کشمیری عوام کے حق خود ارادیت بھی رد کر دی جموں وکشمیر دونوں ممالک مسئلہ کشمیر بھارت نے اس پاکستان نے پاکستان ا نے کہا کہا کہ سے بھی کے لیے کر دیا

پڑھیں:

مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں سچ بولنے پر صحافیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے

ذرائع کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں صحافی انتہائی مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں اور سچ بولنے پر ان کے خلاف کالے قوانین کے تحت مقدمات درج کئے جا رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ آج جب دنیا بھر میں صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، بھارتی فورسز کے اہلکار کشمیری صحافیوں کو مسلسل ہراساں اور گرفتار کر رہے ہیں اور انہیں دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ذرائع کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں صحافی انتہائی مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں اور سچ بولنے پر ان کے خلاف کالے قوانین کے تحت مقدمات درج کئے جا رہے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی کی زیر قیادت بھارتی حکومت مقبوضہ علاقے میں میڈیا کا گلا گھونٹنے کے لیے ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں صحافیوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے، انہیں گرفتاریوں، پوچھ گچھ اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام اور پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے کالے قوانین کے تحت کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مخصوص واقعات میں صحافیوں سے ان کے ذرائع کے بارے میں پوچھ گچھ، آلات کی ضبطگی اور سوشل میڈیا پوسٹس یا خبروں کی رپورٹنگ پر ملک دشمن قرار دینے کے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس سے مقبوضہ علاقے میں صحافیوں کے اندر خوف و دہشت اور سیلف سنسر شپ کا کلچر پیدا ہوا ہے۔2019ء میں دفعہ370 کی منسوخی کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزادی صحافت میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ مقامی صحافیوں کو ہراساں کیے جانے، نگرانی اور انسداد دہشت گردی کے الزامات کا سامنا ہے جبکہ غیر ملکی نامہ نگاروں کو تنقیدی رپورٹنگ پر علاقے تک رسائی سے انکار یا ملک بدر کر دیا جاتا ہے۔ ان اقدامات کا مقصد بھارتی بیانیے کو فروغ دینا اور خطے میں حالات معمول کے مطابق ظاہر کرنا ہے جس پر بین الاقوامی سطح پر تنقید کی جا رہی ہے۔ الجزیرہ نے نومبر 2024ء کی اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ اکتوبر کی ایک سرد دوپہر کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں دس سالہ تجربہ رکھنے والے صحافی 33سالہ احمد(فرضی نام) کو ایک نامعلوم نمبر سے کال موصول ہوئی۔ کال کرنے والے نے اپنی شناخت ایک پولیس افسر کے طور پر کرتے ہوئے احمد سے اس کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کے بارے میں سوالات پوچھے۔احمد نے انتقامی کارروائیوں کے خوف سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر الجزیرہ کو بتایا کہ ایسا پہلی بار نہیں تھا بلکہ گزشتہ پانچ سالوں میں مجھے ہر چند ماہ بعد اس طرح کی کالیں موصول ہوتی رہی ہیں۔

احمد کا کہنا ہے کہ وہ پوچھتے ہیں کہ میں کیا کر رہا ہوں، میں اس وقت کس کے لئے لکھ رہا ہوں، میں کس قسم کی خبریں چلاتا ہوں اور یہاں تک کہ آیا میں نے حال ہی میں بیرون ملک سفر کیا ہے؟سرینگر میں ایک صحافی نے بتایا کہ پچھلے چھ سالوں سے کم از کم ایک درجن ممتاز صحافیوں کو مسلسل نگرانی میں رکھا جا رہا ہے۔ ان سے ان کی رپورٹنگ یا سفر کے بارے میں تفصیلات پوچھی جا رہی ہیں جس سے حق رازداری اور پریس کی آزادی کا حق سلب کیا جا رہا ہے۔ ان صحافیوں کے پاسپورٹ ضبط کر لیے گئے ہیں جس سے انہیں بیرون ملک سفر کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ اس ماحول نے صحافیوں کو سیلف سنسر شپ اور حساس موضوعات سے گریز پر مجبور کیا ہے۔
متعدد صحافیوں پر کالے قوانین لاگوں کئے گئے ہیں جن کے تحت بغیر مقدمہ چلائے گرفتار اور نظربند کیا جا سکتا ہے۔ کئی صحافیوں کو نام نہاد مشکوک سرگرمیوں پر گرفتار اور نظربند کیا گیا ہے اور انہیں ضمانت پر رہا ہوتے ہی دوبارہ گرفتار کیا جاتا ہے۔

صحافیوں کو ان کے ذرائع یا رپورٹنگ کے بارے میں پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا جاتا ہے اور موبائل فون، لیپ ٹاپ اور کیمرے سمیت ان کا سامان ضبط کیا جاتا ہے اور اکثر واپس نہیں کیا جاتا۔ احتجاجی مظاہروں کی کوریج کے دوران کئی صحافیوں کو پولیس نے مارا پیٹا۔ کئی صحافیوں کو گرفتار کر کے طویل عرصے تک نظربند کیا گیا۔ اگست 2018ء میں آصف سلطان کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت سرینگر میں فائرنگ سے متعلق ایک خبر چلانے پر گرفتار کیا گیا۔ مسرت زہرہ کو کالے قانون یو اے پی اے کے تحت اپریل 2020ء میں سوشل میڈیا پوسٹس پر ملک دشمن قرار دیا گیا جو اب جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ الجزیرہ اور بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق سجاد گل کو جنوری 2022ء میں گرفتار کیا گیا اور رہائی کے عدالتی حکم کے باوجود پی ایس اے کے تحت نظربند رکھا گیا۔

عرفان معراج کو مارچ 2023ء میں بھارت مخالف سرگرمیوں کے الزام پر کالے قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا۔ فہد شاہ کو بی جے پی حکومت اور اس کی پالیسیوں پر تنقیدی رپورٹس شائع کرنے پر پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا۔ پیرزادہ عاشق کے خلاف اپریل 2020ء میں ایک خبر چلانے پر مقدمہ درج کیا گیا۔ پلٹزر ایوارڈ یافتہ فوٹو جرنلسٹ ثنا ارشاد متو اور مصنف گوہر گیلانی سمیت کئی ممتاز صحافیوں کو بھارتی حکام نے فرانس، امریکہ اور جرمنی جیسے ممالک میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنسوں، ایوارڈ زکی تقریبات اور نمائشوں میں شرکت سے روکنے کے لیے بیرون ملک سفر نہیں کرنے دیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی حکومت علاقے میں میڈیا کی آزادی کو سلب کرنے کے لیے بار بار گرفتاریوں سمیت ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ دفعہ 370کی منسوخی سے پہلے اور بعد میں آصف سلطان، فہد شاہ، ماجد حیدری اور سجاد گل جیسے نامور صحافیوں کو اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی پر کالے قوانین پی ایس اے اور یواے پی اے کے تحت گرفتار کیا گیا۔ رپورٹ میں افسوس کا اظہار کیا گیا کہ ممتاز صحافی عرفان معراج انہی کالے قوانین کے تحت دہلی کی تہاڑ جیل میں نظر بند ہیں۔

بی جے پی حکومت نے 2014ء میں اقتدار میں آنے کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں درجنوں صحافیوں کو گرفتار اور ہراساں کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2020ء میں نام نہاد میڈیا پالیسی متعارف کرانے کے بعد بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزاد صحافت کو تقریبا ناممکن بنا دیا ہے۔ صحافیوں کو ان کے کام کی وجہ سے ہراساں اور اغوا کیا جاتا ہے، دھمکیاں دی جاتی ہیں اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں صحافت کو جرم بنا کر زمینی حقائق کو چھپا رہا ہے۔ د

ی وائر کے ایک تجزیے میں کہا گیا ہے کہ سرینگر سے شائع ہونے والے اخبارات کے ادارتی صفحات بی جے پی کے بیانیے کو فروغ دینے کے لیے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ تجزیہ سے پتا چلا ہے کہ اخبارات کے مضامین میں تنازعہ کشمیر جیسے موضوعات پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے غیر سیاسی مسائل پر بحث کی جاتی ہے۔ 2024ء میں فرانسیسی صحافی وینیسا ڈوگناک کو جو طویل عرصے سے کشمیر اور دیگر حساس مسائل پر رپورٹنگ کرنے پر مودی کی ہندوتوا حکومت کی نگرانی میں تھیں، بھارت سے نکال دیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2014ء سے بی جے پی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر اور بھارت بھر میں 20 سے زیادہ صحافیوں کو گرفتار کیا ہے۔

بھارت میں سیاسی اسکینڈلز کی تحقیقات کے لیے مشہور صحافی راجیو پرتاپ کے حالیہ قتل نے صحافیوں کو درپیش خطرات کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔ پرتاپ 18 ستمبر 2025ء کو اتراکھنڈ میں لاپتہ ہو گیا تھا اور دس دن بعد اس کی لاش اترکاشی ضلع کے جوشیارہ ہائیڈرو الیکٹرک بیراج سے ملی تھی۔ اسی طرح روزنامہ جاگرن کے صحافی راگھویندر باجپائی کو 8 مارچ 2025ء کو بی جے پی کے زیر اقتدار ریاست اتر پردیش کے ضلع سیتاپور میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ تحقیقات سے پتہ چلا کہ مندر کے ایک پجاری نے اس کے قتل کا منصوبہ بنایا جب باجپائی نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑا اور اسے کیمرے میں ریکارڈ کیا۔ایک اور کیس میں چھتیس گڑھ کے ضلع بیجاپور سے تعلق رکھنے والے ایک 33 سالہ فری لانس صحافی مکیش چندراکر لاپتہ ہو گیا جس نے یکم جنوری 2025ء کو بستر کے علاقے میں 120کروڑ روپے لاگت کی سڑک کی تعمیر کے منصوبے میں بدعنوانی کو بے نقاب کیا تھا۔ دو دن بعد اس کی لاش ایک ٹینک سے ملی جو ایک مقامی کنٹریکٹر کی ملکیت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اقوام متحدہ، یورپی یونین، اوآئی سی سے کشمیری حریت رہنمائوں کی رہائی کو یقینی بنانے کا مطالبہ
  • مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں سچ بولنے پر صحافیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے
  • غزہ صحافیوں کے لیے خطرناک ترین خطہ ہے، سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ
  • اسرائیل غزہ امن معاہدے کے تحت امداد پنچانے نہیں دے رہا، اقوام متحدہ
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں،متنازع علاقہ ، پاکستان
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے‘ کبھی تھا نہ کبھی ہوگا‘ پاکستانی مندوب
  • غزہ میں عالمی فورس کیلیے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے‘اردن ‘جرمنی
  • غزہ میں عالمی فورس کیلئے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے، اردن اور جرمنی کا مقف
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، کبھی تھا نہ کبھی ہوگا، پاکستانی مندوب
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، کبھی تھا نہ کبھی ہوگا، پاکستان