دنیا بھر میں مقیم کشمیری یوم حق خود ارادیت کے طور پر منا کر اپنے اس عزم کی تجدید کرتے ہیں کہ وہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ اپنے ناقابلِ تنسیخ حق، حق خود ارادیت کے حصول تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ یہ 5 جنوری 1949 کا دن تھا جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک تاریخی قرارداد منظور کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ریاست جموں و کشمیر کے پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کے سوال کا فیصلہ آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے کے جمہوری طریقے سے کیا جائے گا۔ اقوام متحدہ کی مذکورہ قرارداد پر عملدرآمد میں واحد رکاوٹ بھارت کا منفی رویہ، ہٹ دھرمی اور غیر حقیقت پسندانہ طرز عمل ہے۔ گزشتہ ساڑھے سات دہائیوں سے زائد عرصہ گزر چکا ہے لیکن اقوام متحدہ کی کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کے حوالے سے منظور شدہ قراردادوں پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔ بھارت یکم جنوری 1948 میں مسئلہ کشمیر خود ہی اقوام متحدہ میں لیکر گیا تھا۔ 15 جنوری 1948 میں سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر پر بحث کا آغاز ہوا، 20 جنوری کو سلامتی کونسل نے کمیشن برائے پاک و ہند کا تقرر عمل میں لایا اور 28 جنوری 1948میں سلامتی کونسل کے صدر نے اعلان کیا کہ پاکستان اور بھارت ریاست جموں وکشمیر کے مستقبل کا فیصلہ استصواب رائے کے ذریعے طے کرانے پر رضامند ہو گئے ہیں جو غیرجانبدارانہ اور آزاد انہ طور پر اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہو گا۔ یکم جنوری 1949 میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں جنگ بندی کا اعلان کیا گیا اور 5 جنوری 1949 میں کمیشن نے دونوں فریقوں کی رضا مندی سے اپنی دوسری تاریخی قرارداد پیش کی اس کے پہلے حصہ میں جنگ بندی کا ذکر تھا جس پر عمل بھی ہو چکا تھا۔
مسئلہ کشمیر پر پہلی جنگ اس وقت شروع ہوئی جب بھارت اس مسئلے کو اقوام متحدہ لیکر گیا۔ جب اقوام متحدہ کے کمیشن نے دونوں ممالک سے قرارداد پر عملدرآمد کے لیے مطلوبہ منصوبہ مانگا تو بھارت نے دو مزید مطالبات پیش کر دیے۔ ایک یہ کہ اسے جنگ بندی لائن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شمال اور شمال مغرب کے علاقوں پر کنٹرول دیا جائے اور دوسرا یہ کہ آزاد کشمیر میں پہلے سے قائم اداروں کو نہ صرف غیر مسلح کیا جائے بلکہ ان اداروں ہی کو ختم کر دیا جائے، اس بات کا اعتراف جوزف کاربل نے اپنی کتاب ڈینجر ان کشمیر کے صفحہ 157 پر کیا ہے۔ جوزف کاربل کا تعلق چیک سلواکیہ سے تھا اور یہ اقوام متحدہ کے کمیشن کے چیئرمین تھے اور کمیشن میں ان کی شمولیت بھارتی نمائندے کے طور پر ہوئی تھی۔ جوزف کاربل نے اعتراف کیا کہ بھارتی موقف اقوام متحدہ کی قرارداد سے تجاوز کر رہا تھا۔ پاکستان نے آزاد کشمیر سے اپنی افواج نکالنے پر رضامندی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ قرارداد کے مطابق بھارت جو ضروری افواج مقبوضہ جموں و کشمیر میں رکھے گا اس کی تعداد اور تعیناتی کا مقام اقوام متحدہ کمیشن کو پیش کیا جائے۔ بھارت نے اس سے بھی انکار کیا۔ اس پر جنگ بندی کمیشن نے امریکی صدر ٹرومین اور برطانوی وزیر اعظم کلیمنٹ ایٹلی کی تجویز پر کہا کہ دونوں ممالک اپنا موقف پیش کر یں جو ایک آربٹریٹر کے سامنے رکھا جائے اور وہ فیصلہ کر دے۔ اقوام متحدہ کی دستاویزات کے مطابق پاکستان نے یہ تجویز بھی قبول کر لی لیکن بھارت نے اسے بھی رد کر دیا۔ خود بھارتی نمائندے نے اعتراف کیا کہ اقوام متحدہ کی اس قرارداد پر بھارت کی وجہ سے عمل نہ ہو سکا۔ ان کے الفاظ تھے: ’’A lack of goodwill on part of India‘‘ معاملے کے حل کے لیے سلامتی کونسل نے سلامتی کونسل ہی کے صدر مک ناٹن پر مشتمل ایک یک رکنی کمیشن بنایا۔ اس کمیشن نے کہا کہ اب دونوں ممالک بیک وقت اپنی فوجیں نکالتے جائیں گے تا کہ کسی کو کوئی خطرہ نہ رہے۔ پاکستان نے یہ تجویز بھی قبول کر لی۔ بھارت نے اس تجویز کو بھی رد کر دیا۔
یہاں دلچسپ امر یہ ہے کہ اس تجویز کو سلامتی کونسل نے 14 مارچ 1950 میں ایک قرارداد کی شکل میں منظور کر لیا۔ گویا اب اقوام متحدہ کی قرارداد یہ کہہ رہی ہے کہ دونوں ممالک بیک وقت فوجیں نکالنا شروع کریں گے۔ اقوام متحدہ نے اوون ڈکسن کو جو آسٹریلیا کے چیف جسٹس رہے اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا۔ انہوں نے فوجی انخلا کی بہت سی تجاویز دیں۔ پاکستان نے سب مان لیں، بھارتی وزیر اعظم نے ایک بھی نہ مانی۔ 1951 میں بھارت نے کہا ہمیں خطرہ ہے، لہٰذا ہم فوجیں نہیں نکالیں گے۔ آسٹریلیا کے وزیر اعظم گورڈن منزیز نے مشترکہ افواج کی تجویز دی بھارت نے وہ بھی رد کر دی۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی نگرانی میں مقامی فورس بنانے کی بات کی بھارت نے اسے بھی رد کر دیا۔ انہوں نے کہا ہم کامن ویلتھ کی افواج بھیج دیتے ہیں، بھارت نے یہ تجویز بھی رد کر دی۔ معاملہ ایک بار سلامتی کونسل میں چلا گیا۔ 30 مارچ 1951 میں سلامتی کونسل نے امریکی سینیٹر فرینک پی گراہم کو نیا نمائندہ مقرر کر کے کہا کہ تین ماہ میں فوجیں مقبوضہ جموں و کشمیر سے نکالی جائے اور پاکستان اور بھارت اس پر متفق نہ ہو سکیں تو عالمی عدالت انصاف سے فیصلہ کرا لیا جائے۔ مسٹر فرینک نے چھے تجاویز دیں بھارت نے تمام کی تمام تجاویز رد کر دیں۔ صرف خانہ پری کے لیے بھارت نے کہا وہ تو مقبوضہ جموں وکشمیر میں اکیس ہزار فوجی رکھے گا جب کہ پاکستان آزاد کشمیر سے اپنی افواج نکال لے، وہاں صرف چار ہزار مقامی اہلکار ہوں، ان میں سے بھی دو ہزار عام لوگ ہوں، ان کا آزاد کشمیر حکومت سے کوئی تعلق نہ ہو۔ ان میں سے بھی آدھے غیر مسلح ہوں۔ گراہم نے اس میں کچھ ردو بدل کیا، پاکستان نے کہا یہ ہے تو غلط لیکن ہم اس پر بھی راضی ہیں، بعد میں بھارت اس سے بھی مکر گیا۔ سلامتی کونسل کے صدر نے ایک بار پھر تجویز دی کہ آربٹریشن کروا لیتے ہیں تا کہ معلوم ہو انخلا کے معاملے میں کون سا ملک تعاون نہیں کر رہا۔ پاکستان اس پر بھی راضی ہو گیا، بھارت نے یہ تجویز بھی ردکر دی تھی۔
مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے کے لیے برسر پیکار کشمیری عوام اقوام متحدہ کی منظور شدہ قراردادوں کی روشنی میں غیرجانبدارانہ استصواب رائے چاہتے ہیں۔ جو ان کا بنیادی حق ہے، جس کی ضمانت اقوام متحدہ کی قراردادوں میں دی جاچکی ہے۔ جبکہ بھارت اقوام عالم کو گواہ ٹھیرا کر کشمیری عوام کے ساتھ حق خود ارادیت کا یہ وعدہ کرچکا ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر پربھارت کے ظالمانہ قبضے کے 78 برس مکمل ہونے کے باوجود بھی کشمیری عوام استصواب رائے کے اپنے مطالبے پر قائم ودائم ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں کشمیری عوام کے استصواب رائے کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے حق کو برقرار رکھا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت استصواب رائے مسئلہ کشمیر کا واحد حل ہے۔ کشمیری عوام کو اقوام متحدہ کی لازمی رائے شماری کے مطالبے پر بھارت کی بدترین ریاستی دہشت گردی کا سامنا ہے۔ کشمیری عوام استصواب رائے کے لیے تاریخ کی لازوال اور بے مثال قربانیاں دے رہے ہیں۔ کشمیری عوام اقوام متحدہ کی سرپرستی میں غیر جانبدارانہ رائے شماری کے انعقاد تک قربانیوں سے مزیں اپنی جدوجہد جاری رکھنے کا عزم رکھتے ہیں۔ جس میں لاکھوں جانوں کی قربانیاں دی جاچکی ہیں، جبکہ آج بھی قربانیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ فسطائی مودی وحشیانہ ہتھکنڈوں اور ظالمانہ حربوں کا سہارا لیکر کشمیری عوام کے جذبہ آزادی کو ختم نہیں کر سکتا۔ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں رائے شماری سے انحراف کرکے کئی دہائیوں سے مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی منظور شدہ قراردادوں کی صریحاً خلاف ورزی کر رہا ہے۔ یقینا مقبوضہ جموں و کشمیر پر بین الاقوامی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کے لیے بھارت کو جوابدہ ٹھیرایا جانا چاہیے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ کی قرارداد استصواب رائے کے سلامتی کونسل نے کشمیری عوام کے حق خود ارادیت بھی رد کر دی جموں وکشمیر دونوں ممالک مسئلہ کشمیر بھارت نے اس پاکستان نے پاکستان ا نے کہا کہا کہ سے بھی کے لیے کر دیا
پڑھیں:
اقوام متحدہ مالی بحران کا شکار،مجموعی وسائل کم پڑ گئے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نیویارک:۔ اقوام متحدہ کو شدید مالی دشواریوں کا سامنا ہے جس کے باعث عالمی ادارہ مجموعی وسائل میں15.1 اور ملازمین کی تعداد میں18.8 فیصد کمی کر رہا ہے، کرائے پر لی گئی عمارتیں خالی کی جارہی ہیں جبکہ جنیوا اور نیویارک کے ملازمین کی تنخواہوں کا مرکزی نظام قائم کیا جائے گا قیام امن کی کارروائیوں کا بجٹ بھی کم کیا جارہا ہے چند اہم ذمہ داریاں نیویارک اور جنیوا جیسے مہنگے مراکز سے کم لاگت والے مراکز میں منتقل کی جائیں گی۔
اقوام متحدہ کی مشاورتی کمیٹی برائے انتظامی و میزانیہ امور (اے سی اے بی کیو) کو پیش کیے نظرثانی شدہ تخمینوں میں رواں سال کے مقابلے میں اقوام متحدہ کے وسائل میں 15.1 فیصد اور اسامیوں میں 18.8 فیصد کمی کی تجویز دی گئی ہے۔ 26-2025 میں قیام امن کی کارروائیوں کے لیے استعمال ہونے فنڈ میں بھی کٹوتیاں کی جائیں گی۔ اس فنڈ کے ذریعے امن کاری سے متعلق مشن اور عملے کے لیے مالی وسائل مہیا کیے جاتے ہیں۔
اے سی اے بی کیو کی سفارشات جنرل اسمبلی کی پانچویں کمیٹی کو پیش کی جائیں گی جہاں اقوام متحدہ کے تمام 193 رکن ممالک انتظامی اور میزانیے (بجٹ) کے امور پر فیصلے کریں گے۔ مزید بچت املاک میں کمی کے ذریعے کی جائے گی اور ادارہ 2027ءتک نیویارک میں کرائے پر لی گئی دو عمارتوں کو خالی کر دے گا جس کی بدولت 2028 سے سالانہ سطح پر بچت متوقع ہے۔ ان اقدامات کے ذریعے کام کی تکرار کو کم کیا جائے گا۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے رکن ممالک کے نام خط میں کہا ہے کہ یہ کٹوتیاں ان اقدامات کے بعد کی گئی ہیں جو اس بات کا جائزہ لینے کے لیے اٹھائے گئے تھے کہ اقوام متحدہ کی ذمہ داریوں کا نفاذ کیسے ہو رہا ہے اور ان کے لیے وسائل کس طرح مختص کیے جا رہے ہیں۔
ادارے کے چارٹر کے تین بنیادی ستونوں یعنی امن و سلامتی، انسانی حقوق اور پائیدار ترقی کے درمیان توازن کو برقرار رکھتے ہوئے سیکرٹریٹ کی مختلف اکائیوں نے خدمات کی فراہمی بہتر بنانے کے طریقے ڈھونڈے تاکہ وسائل کے استعمال کو موثر بنایا جا سکے۔