ایران کیجانب سے یمن پر امریکی، برطانوی و صیہونی جارحیت کی مذمت
اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT
اپنے ایک جاری بیان میں اسماعیل بقائی کا کہنا تھا کہ فلسطین کی حمایت میں نکلنے والے ملین مارچ کے دوران یمن کے شہری ڈھانچے پر جارح مثلث کے حملے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ امریکہ اور برطانیہ غزہ میں صیہونی رژیم کے قبیح جرائم میں برابر کے شریک ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان "اسماعیل بقائی" نے کہا کہ یمن کے صوبوں "صنعاء"، "الحدیدہ" اور "عمران" پر امریکہ، برطانیہ و صیہونی رژیم کے وحشیانہ حملے، بین الاقوامی قوانین و اقوام متحدہ کے منشور کی بالا ترین خلاف ورزی ہیں۔ جس کی شدید مذمت کی جانی چاہئے۔ ترجمان وزارت خارجہ نے کہا کہ فلسطین کی حمایت میں نکلنے والے ملین مارچ کے دوران یمن کے شہری ڈھانچے پر جارح مثلث کے حملے اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ امریکہ اور برطانیہ غزہ میں صیہونی رژیم کے قبیح جرائم میں برابر کے شریک ہیں۔ انہوں نے صیہونی رژیم کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی اور جنگ کے شعلے بھڑکانے پر عالمی اداروں کی خاموشی کو قابل مذمت قرار دیا۔ اسماعیل بقائی نے کہا کہ مقبوضہ فلسطین میں انسانی حقوق کی سرعام پامالیوں اور نسل کشی کو روکنا تمام حکومتوں سمیت عالمی و اسلامی اداروں کی قانونی و اخلاقی ذمے داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ یمن کے خلاف معاندانہ حملوں کو روکنے کے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں آواز اٹھانی چاہئے۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ یمن پر امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کے بڑھتے ہوئے حملے غزہ میں انسانیت سوز جرائم سے عام لوگوں کی توجہ نہیں ہٹا سکتے۔
.ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
دوحہ پر حملے سے 50 منٹ پہلے صدر ٹرمپ کو خبر تھی، امریکی میڈیا کا دھماکہ خیز انکشاف
امریکی میڈیا نے سنسنی خیز انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے قطر کے دارالحکومت دوحہ پر حملے سے محض 50 منٹ قبل ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو آگاہ کر دیا تھا مگر امریکی صدر نے کوئی عملی اقدام نہ کیا۔
تین اعلیٰ اسرائیلی حکام کے حوالے سے امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے دوحہ میں موجود حماس کی قیادت پر میزائل حملے کی پیشگی اطلاع امریکہ کو دے دی تھی۔
پہلے یہ معلومات سیاسی سطح پر صدر ٹرمپ تک پہنچائی گئیں، بعد ازاں فوجی چینلز کے ذریعے تفصیلات شیئر کی گئیں۔
اسرائیلی حکام کے مطابق اگر ٹرمپ اس حملے کی مخالفت کرتے تو اسرائیل دوحہ پر حملے کا فیصلہ واپس لے سکتا تھا۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ امریکہ نے صرف دنیا کے سامنے ناراضی کا دکھاوا کیا درحقیقت حملے کو روکنے کی نیت موجود ہی نہیں تھی۔
یاد رہے کہ 9 ستمبر کو اسرائیل نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حماس قیادت کو نشانہ بنانے کے لیے میزائل حملہ کیا تھا جس پر بین الاقوامی سطح پر شدید ردِعمل سامنے آیا تھا۔
وائٹ ہاؤس نے واقعے کے بعد وضاحت کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ جب اسرائیلی میزائل فضا میں تھے، تب امریکہ کو مطلع کیا گیا، اور اس وقت صدر ٹرمپ کے پاس حملہ رکوانے کا کوئی موقع باقی نہیں تھا۔