Express News:
2025-06-06@15:54:36 GMT

شکریہ ٹرمپ

اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT

امریکی صدر ٹرمپ کی صدارت کا منصب سنبھالنے میں اب تھوڑے ہی دن رہ گئے ہیں۔ لیکن انھوں نے کافی حد تک اپنا ایجنڈا کلیئر کر دیا ہے۔ اس ایجنڈے میں ابھی تک پاکستان کا کوئی ذکرنہیں۔ یہ کافی حد تک اچھی بات ہے کہ ٹرمپ کے ایجنڈے میں کہیں بھی پاکستان نہیں ہے۔ وہ کینیڈا کو امریکا کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ وہ پانامہ کینال واپس لینا چاہتے ہیں۔

وہ یورپ سے اتحاد کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ وہ روس یوکرین جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ وہ اسرائیل کی غزہ میں فتح چاہتے ہیں۔ وہ میکسیکو سے لوگوں کا آنا بند کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے ملک سے ناجائز مقیم لوگوں کو نکالنا چاہتے ہیں۔ وہ چین سے معاشی جنگ چاہتے ہیں۔ وہ چینی الیکٹرک گاڑیوں پر امریکا میں ٹیرف لگانا چاہتے ہیں۔ وہ نیٹو میں امریکا کے پیسے لگانا بند کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں کہیں بھی پاکستان نہیں ہے۔

مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ ایک دفعہ ایک گاؤں میں سیلاب آگیا۔ لوگ اپنی قیمتی چیزیں اٹھا کر محفوظ مقامات کی طرف بھاگنے لگے۔گاؤں میں ایک فقیر چھت پر چڑھ کر ناچ رہا تھا۔ لوگ پریشان تھے اور وہ ناچ رہا تھا، گانے گا رہا تھا۔ کسی نے اس سے پوچھا سب طرف پریشانی ہے۔ لوگ اپنی اپنی قیمتی چیزیں لے کر بھاگ رہے ہیں۔ تم کیوں ناچ گا رہے ہو۔ اس نے کہا میری پاس کچھ ہے ہی نہیں۔ میں فقیر ہوں۔ لیکن آج ہی تو فقیری کا مزہ آیا ہے۔

 پاکستان تو اس وقت امریکا سے کوئی ایڈ نہیں لے رہا۔ ملٹری ایڈ بھی بند ہو چکی ہے۔ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور میں جب بانی تحریک انصاف پاکستان کے وزیر اعظم تھے پاکستان کی ملٹری ایڈ ختم کر دی تھی۔ اس کے بعد بائیڈن نے دوسرے شعبوں میں ملنے والی ایڈ بھی بند کر دی تھی۔ اب یو ایس ایڈ کا حجم 200ملین ڈالر سے بھی کم ہے۔ جو کسی خاطر میں ہی نہیں آتا۔ جہاں ایک طرف 200 بلین ڈالر کی بات ہو رہی ہے۔

ایسے میں 200ملین ڈالر کی کیا اہمیت۔ یہ امریکا کو بند کر کے کوئی فائدہ نہیں۔ اور اگر بند بھی ہو جائے تو ہمیں کوئی نقصان نہیں۔ اس لیے اس محاذ پر پاکستان کے لیے فکر کی کوئی بات نہیں۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان تجارتی خسارہ بھی کوئی خاص نہیں۔ امریکا ہمیں 3.

2بلین ڈالر برآمدات کرتا ہے اور ہم سے 6بلین ڈالر کی درآمدات کرتا ہے۔

اس لیے سارا تجارتی خسارہ تین بلین ڈالر سے بھی کم ہے۔ ہم خیر سے کوئی سبسڈی نہیں لیتے۔ ہماری کوئی سبسڈی ختم نہیں ہو سکتی۔ فکر کی کوئی بات نہیں۔ پاکستان کو ٹرمپ کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ ٹرمپ کی اس پالیسی کا ویسے تو پاکستان پر کوئی اثر نہیں۔ ابھی تو ہمیں ہماری فاقہ مستی کا مزہ آئے گا۔ پاکستان کو شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ ٹرمپ نے افغان طالبان کو ملنے والی امریکی امدادکو بھی ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

افغانستان کی طالبان حکومت کو امریکا کی جانب سے چالیس بلین ڈالر کی امداد مل رہی تھی۔ امریکا طالبان کی افغان حکومت کو مدد دینے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اب ٹرمپ نے یہ امداد بند کرنے کا اعلان کیا ہے جو پاکستان کے لیے خوش آئند ہے۔ اسی امداد کی وجہ سے تو افغان طالبان پاکستان کے کنٹرول سے بھی باہر ہوئے تھے۔ چین نے بھی کافی امداد دی ہے لیکن وہ امریکا سے کم ہے۔ اس لیے جب پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ بند کرتا ہے تو افغان طالبان اس کو برداشت کر لیتے ہیں کیونکہ امریکا سے بڑی امداد مل رہی تھی۔ اس لیے اگر یہ امداد بند ہو جاتی ہے تو افغان طالبان شدید مالی بحران میں آجائیں گے۔اس لیے ابھی تک ٹرمپ پاکستان کے لیے خوش آئند ہی ہیں۔ ہمارے لیے اس وقت افغانستان سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

وہ پاکستان میں دہشت گردی کی سرپرستی کر رہا ہے۔ لیکن اس بار ان کا رویہ کافی مختلف تھا۔ اس کی بنیادی وجہ امریکی امداد تھی۔ افغان کرنسی بھی اسی امداد کی وجہ سے مستحکم نظر آرہی تھی۔ اس لیے وہاں کوئی بحران بھی نظر نہیں آرہا تھا اورانھیں پاکستان سے کسی قسم کے تعاون مانگنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں تھے۔افغانستان کے لیے صرف امریکی ڈالر بند ہونے دیں۔ ٹرمپ دنیا سے ایک معاشی جنگ شروع کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے اتحادیوں اور دشمنوں سے بھی معاشی جنگ شروع کرنا چاہتے ہیں۔ اس جنگ میں سب سے پہلے وہ ان ممالک کو نشانہ بنا رہے ہیں جو امریکا سے معاشی فوائد اٹھا رہے ہیں وہ اس کو بند کرنا چاہتے ہیں۔دوسرا، وہ ممالک ہیں جن کو امریکا معاشی فوائد دے رہا ہے، وہ اس کو بھی بند کرنا چاہتے ہیں۔

پاکستان دونوں فہرست میں نہیں۔ نہ ہم مفاد لے رہے ہیں اور نہ ہی ہم مفاد دے سکتے ہیں۔ اس لیے آپ سمجھیں ہماری غربت بھی اس وقت ہمارے لیے نعمت سے کم نہیں۔ ہماری کوئی اہمیت ہی نہیں، ہمارا کوئی ذکر ہی نہیں۔ آپ سمجھیں ٹرمپ کے ایجنڈے میں ہم کہیں ہے ہی نہیں۔ کسی بھی لسٹ میں پاکستان کا نام ہی نہیں۔ پاکستان کی حکومت کو تو فوری طور پر ٹرمپ کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ ان کی پالیسی کی مکمل حمایت کرنی چاہیے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بند کرنا چاہتے ہیں افغان طالبان پاکستان کے امریکا سے اس لیے ا رہے ہیں ہی نہیں ڈالر کی سے بھی کے لیے

پڑھیں:

بھارت کیخلاف اپنے وسائل پر انحصار کیا، کوئی مدد نہیں لی: جنرل ساحر

راولپنڈی(آئی این پی )چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی   جنرل ساحر شمشاد مرزا نے کہا ہے کہ بھارت کے ساتھ حالیہ تنازع میں پاکستان نے 96 گھنٹے  کی لڑائی میں  مکمل طور پر اپنے وسائل پر انحصار کیا، کہیں سے کوئی مدد نہیں لی۔  برطانوی نشریاتی ادارے  (  بی بی سی)   کو انٹرویو میں  اس سوال کہ چین سے پاکستان کو کتنی مدد حاصل ہوئی؟ کیونکہ ایسی رپورٹس آئی ہیں کہ چین نے پاکستان کی مدد کے لیے سیٹلائٹس کی پوزیشن بدلیں،جواب میں جنرل ساحر شمشاد مرزا نے کہا کہ اس دوران ہم نے جو آلات استعمال کیے وہ یقینا ایسے ہی ہیں جیسے انڈیا کے پاس ہیں اور ہم نے کچھ ساز و سامان دوسرے ملکوں سے خریدا ہے، مگر اس کے علاوہ حقیقی وقت میں ہم نے کہیں سے کوئی مدد حاصل نہیں کی۔ صرف اور صرف پاکستان کی اندرونی صلاحیتوں پر انحصار کیا گیا۔ جنرل ساحر شمشاد مرزا کا کہنا تھا کہ پہلی بات یہ ہے کہ پہلے جو جھڑپیں ہوتی تھیں، وہ صرف متنازعہ علاقوں تک محدود رہتی تھیں۔ وہ کبھی بین الاقوامی سرحد تک نہیں پہنچتی تھیں۔ لیکن اس بار معاملہ الٹا تھا، سرحدوں پر نسبتاً سکون رہا اور شہروں میں کشیدگی تھی اور یہ سب زیادہ تر بین الاقوامی سرحد کے آس پاس ہوا۔انھوں نے کہا اب چونکہ کسی بھی تنازعے کو بڑی جنگ میں بدلنے کے لیے بہت کم وقت اور جواز چاہیے، اس کا مطلب ہے کہ مستقبل میں اگر کوئی تنازع ہوا تو وہ صرف مخصوص علاقوں تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ پورے انڈیا اور پورے پاکستان کو متاثر کرے گا۔ اور اس کا اثر 1.5 ارب لوگوں کی تجارت، سرمایہ کاری اور ترقی کی ضروریات پر بھی پڑے گا۔جنرل ساحر شمشاد مرزا نے مزید کہا کہ اس وقت پاکستان اور انڈیا کے درمیان تنازعات کو حل کرنے یا قابو میں رکھنے کے لیے کوئی موثر اور منظم طریقہ کار موجود نہیں، سوائے ڈی جی ایم او ہاٹ لائن کے۔ دونوں ملکوں کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کے درمیان یہ ہاٹ لائن منگل کے دن باقاعدگی سے استعمال ہوتی ہے تاکہ معلومات اور مسائل کا تبادلہ کیا جا سکے اور کسی بھی ہنگامی یا ناخوشگوار واقعے کی صورت میں کسی بھی وقت رابطے کے لیے دستیاب ہوتی ہے۔یہی واحد ذریعہ ہے اور اگر تنازعے سے نمٹنے کے لیے آپ کے پاس صرف ایک ہی نظام ہو، جو اتنے بڑے بحران کو سنبھالنے کے لیے کافی نہ ہو، اور دوسری جانب آپ کا واسطہ ایک ایسے ملک سے ہو جس کی قیادت انتہا پسندانہ ذہنیت رکھتی ہو اور بین الاقوامی سرحد تک غیر ذمہ دارانہ اقدامات کرنے پر آمادہ ہو، تو ایسے میں عالمی برادری کے پاس مداخلت کے لیے جو تھوڑا بہت وقت ہوتا ہے، جیسے اس بار امریکہ اور دیگر ممالک نے کیا، وہ مہلت بھی اب بہت محدود ہو چکی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بلاول بھٹو نے بھارت کیخلاف پاکستان کا مقدمہ ٹرمپ انتظامیہ کے سامنے پیش کردیا
  • مذاکرات ناکام ہونے سے پہلے ایران پر حملہ نہیں کریں گے،اسرائیل
  • عید اپنے ساتھ بہت سے سوالات لیکر آ رہی ہے، علی محمد خان
  • امریکی صدر ٹرمپ نے ایران، افغانستان اور یمن سمیت 12 ممالک کے عوام پر امریکا میں داخلے پر مکمل پابندی عائد کردی
  • جوہری معاہدے کے حوالے سے ایران سست روی کا مظاہرہ کر رہا ہے، ٹرمپ
  • پاک بھارت جنگ بندی سے ٹرمپ نے ثابت کیا امن کے پیامبر ہیں، شہباز شریف
  • صدر ٹرمپ دنیا میں امن کے داعی، پاک بھارت جنگ بندی میں کردار کو سراہتے ہیں، وزیراعظم شہباز شریف
  • بھارت سے پانی، تجارت اور انسداد دہشت گردی پر سنجیدہ مذاکرات چاہتے ہیں، وزیراعظم
  • سابق امریکی صدر جو بائیڈن روس کو تباہ کرنا چاہتے تھے، برازیلی صدر کا انکشاف
  • بھارت کیخلاف اپنے وسائل پر انحصار کیا، کوئی مدد نہیں لی: جنرل ساحر