Express News:
2025-09-19@08:19:00 GMT

شکریہ ٹرمپ

اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT

امریکی صدر ٹرمپ کی صدارت کا منصب سنبھالنے میں اب تھوڑے ہی دن رہ گئے ہیں۔ لیکن انھوں نے کافی حد تک اپنا ایجنڈا کلیئر کر دیا ہے۔ اس ایجنڈے میں ابھی تک پاکستان کا کوئی ذکرنہیں۔ یہ کافی حد تک اچھی بات ہے کہ ٹرمپ کے ایجنڈے میں کہیں بھی پاکستان نہیں ہے۔ وہ کینیڈا کو امریکا کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ وہ پانامہ کینال واپس لینا چاہتے ہیں۔

وہ یورپ سے اتحاد کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ وہ روس یوکرین جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ وہ اسرائیل کی غزہ میں فتح چاہتے ہیں۔ وہ میکسیکو سے لوگوں کا آنا بند کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے ملک سے ناجائز مقیم لوگوں کو نکالنا چاہتے ہیں۔ وہ چین سے معاشی جنگ چاہتے ہیں۔ وہ چینی الیکٹرک گاڑیوں پر امریکا میں ٹیرف لگانا چاہتے ہیں۔ وہ نیٹو میں امریکا کے پیسے لگانا بند کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں کہیں بھی پاکستان نہیں ہے۔

مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ ایک دفعہ ایک گاؤں میں سیلاب آگیا۔ لوگ اپنی قیمتی چیزیں اٹھا کر محفوظ مقامات کی طرف بھاگنے لگے۔گاؤں میں ایک فقیر چھت پر چڑھ کر ناچ رہا تھا۔ لوگ پریشان تھے اور وہ ناچ رہا تھا، گانے گا رہا تھا۔ کسی نے اس سے پوچھا سب طرف پریشانی ہے۔ لوگ اپنی اپنی قیمتی چیزیں لے کر بھاگ رہے ہیں۔ تم کیوں ناچ گا رہے ہو۔ اس نے کہا میری پاس کچھ ہے ہی نہیں۔ میں فقیر ہوں۔ لیکن آج ہی تو فقیری کا مزہ آیا ہے۔

 پاکستان تو اس وقت امریکا سے کوئی ایڈ نہیں لے رہا۔ ملٹری ایڈ بھی بند ہو چکی ہے۔ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور میں جب بانی تحریک انصاف پاکستان کے وزیر اعظم تھے پاکستان کی ملٹری ایڈ ختم کر دی تھی۔ اس کے بعد بائیڈن نے دوسرے شعبوں میں ملنے والی ایڈ بھی بند کر دی تھی۔ اب یو ایس ایڈ کا حجم 200ملین ڈالر سے بھی کم ہے۔ جو کسی خاطر میں ہی نہیں آتا۔ جہاں ایک طرف 200 بلین ڈالر کی بات ہو رہی ہے۔

ایسے میں 200ملین ڈالر کی کیا اہمیت۔ یہ امریکا کو بند کر کے کوئی فائدہ نہیں۔ اور اگر بند بھی ہو جائے تو ہمیں کوئی نقصان نہیں۔ اس لیے اس محاذ پر پاکستان کے لیے فکر کی کوئی بات نہیں۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان تجارتی خسارہ بھی کوئی خاص نہیں۔ امریکا ہمیں 3.

2بلین ڈالر برآمدات کرتا ہے اور ہم سے 6بلین ڈالر کی درآمدات کرتا ہے۔

اس لیے سارا تجارتی خسارہ تین بلین ڈالر سے بھی کم ہے۔ ہم خیر سے کوئی سبسڈی نہیں لیتے۔ ہماری کوئی سبسڈی ختم نہیں ہو سکتی۔ فکر کی کوئی بات نہیں۔ پاکستان کو ٹرمپ کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ ٹرمپ کی اس پالیسی کا ویسے تو پاکستان پر کوئی اثر نہیں۔ ابھی تو ہمیں ہماری فاقہ مستی کا مزہ آئے گا۔ پاکستان کو شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ ٹرمپ نے افغان طالبان کو ملنے والی امریکی امدادکو بھی ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

افغانستان کی طالبان حکومت کو امریکا کی جانب سے چالیس بلین ڈالر کی امداد مل رہی تھی۔ امریکا طالبان کی افغان حکومت کو مدد دینے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اب ٹرمپ نے یہ امداد بند کرنے کا اعلان کیا ہے جو پاکستان کے لیے خوش آئند ہے۔ اسی امداد کی وجہ سے تو افغان طالبان پاکستان کے کنٹرول سے بھی باہر ہوئے تھے۔ چین نے بھی کافی امداد دی ہے لیکن وہ امریکا سے کم ہے۔ اس لیے جب پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ بند کرتا ہے تو افغان طالبان اس کو برداشت کر لیتے ہیں کیونکہ امریکا سے بڑی امداد مل رہی تھی۔ اس لیے اگر یہ امداد بند ہو جاتی ہے تو افغان طالبان شدید مالی بحران میں آجائیں گے۔اس لیے ابھی تک ٹرمپ پاکستان کے لیے خوش آئند ہی ہیں۔ ہمارے لیے اس وقت افغانستان سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

وہ پاکستان میں دہشت گردی کی سرپرستی کر رہا ہے۔ لیکن اس بار ان کا رویہ کافی مختلف تھا۔ اس کی بنیادی وجہ امریکی امداد تھی۔ افغان کرنسی بھی اسی امداد کی وجہ سے مستحکم نظر آرہی تھی۔ اس لیے وہاں کوئی بحران بھی نظر نہیں آرہا تھا اورانھیں پاکستان سے کسی قسم کے تعاون مانگنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں تھے۔افغانستان کے لیے صرف امریکی ڈالر بند ہونے دیں۔ ٹرمپ دنیا سے ایک معاشی جنگ شروع کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے اتحادیوں اور دشمنوں سے بھی معاشی جنگ شروع کرنا چاہتے ہیں۔ اس جنگ میں سب سے پہلے وہ ان ممالک کو نشانہ بنا رہے ہیں جو امریکا سے معاشی فوائد اٹھا رہے ہیں وہ اس کو بند کرنا چاہتے ہیں۔دوسرا، وہ ممالک ہیں جن کو امریکا معاشی فوائد دے رہا ہے، وہ اس کو بھی بند کرنا چاہتے ہیں۔

پاکستان دونوں فہرست میں نہیں۔ نہ ہم مفاد لے رہے ہیں اور نہ ہی ہم مفاد دے سکتے ہیں۔ اس لیے آپ سمجھیں ہماری غربت بھی اس وقت ہمارے لیے نعمت سے کم نہیں۔ ہماری کوئی اہمیت ہی نہیں، ہمارا کوئی ذکر ہی نہیں۔ آپ سمجھیں ٹرمپ کے ایجنڈے میں ہم کہیں ہے ہی نہیں۔ کسی بھی لسٹ میں پاکستان کا نام ہی نہیں۔ پاکستان کی حکومت کو تو فوری طور پر ٹرمپ کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ ان کی پالیسی کی مکمل حمایت کرنی چاہیے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بند کرنا چاہتے ہیں افغان طالبان پاکستان کے امریکا سے اس لیے ا رہے ہیں ہی نہیں ڈالر کی سے بھی کے لیے

پڑھیں:

سعودی معاہدے کی کوئی خفیہ شرائط نہیں، خلیجی ممالک شامل ہو سکتے ہیں: خواجہ آصف

پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان باہمی دفاعی معاہدے کے بعد ممکنہ طور پر دوسرے خلیجی ممالک بھی ایسا معاہدہ کرنا چاہیں گے۔الجزیرہ ٹی وی کو انٹرویو میں وزیرِ دفاع خواجہ آضف نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین سکیورٹی معاہدے کے بعد اور خطے کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے فطری طور پر اس کا دائرہ کار دوسرے ممالک تک بھی بڑھے گا کیونکہ اپنی سکیورٹی کے لیے یہ ممالک میلوں دور کسی دوسرے ملک پر انحصار کرنے کے بجائے اُس خودمختار ملک کی جانب دیکھیں گے جو انہیں تحفظ دینے کی صلاحیت اور اہلیت رکھتا ہو۔دوسرے خلیجی ممالک کی شمولیت کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں خواجہ آصف نے مزید کہا کہ یہ ممکن ہے اگر جی سی سی میں شامل کوئی بھی ملک ایسا کوئی اشارہ دیتا ہے تو جیسا باہمی معاہدہ سعودی عرب کے ساتھ ہوا ہے ہم باقی ممالک کو بھی اس میں شامل کرنے پر غور کر سکتے ہیں۔یاد رہے کہ پاکستان اور سعودی عرب نے دفاعی معاملات میں تعاون اور سلامتی سے متعلق باہمی دفاع کا سٹریٹجک معاہدہ کیا ہے جس کے تحت کسی ایک ملک کے خلاف بیرونی جارحیت کو دونوں ملکوں کے خلاف جارحیت تصور کیا جائے گا۔پاکستان اور سعودی عرب کے رہنماؤں کی جانب سے اس معاہدے کو تاریخی قرار دیا جا رہا ہے۔پاکستان کے وزیرِِ دفاع نے کہا کہ پاکستان کی دفاعی صلاحیتیں اس معاہدے کے تحت سعودی عرب کے لیے بھی کسی بھی ممکنہ صورتحال میں مدد گار ہوں گی لیکن میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں آخری بار جوہری ہتھیاروں کا استمعال ہیروشیما پر ہوا تھا اور خوش قسمتی سے اب دنیا نیوکلئیر جنگوں سے محفوظ ہے اور اُمید کرتا ہوں کہ آئندہ بھی ایسا کچھ نہیں ہو گا۔خواجہ آصف نے واضح کیا کہ سعودی عرب کے ساتھ ہونے والے اس دفاعی معاہدے کی کوئی ذیلی یا خفیہ شرائط نہیں ہیں اور اس معاہدے کے تحت بہت سادہ اور دوٹوک الفاظ میں کہا گیا ہے کہ ایک کے خلاف جارحیت دوسرے کے خلاف جارحیت تصور کی جائے گی۔یاد رہے کہ اسی موضوع پر نجی ٹی وی کے پروگرام میں خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ دفاعی مقاصد کے لیے ہے اور اس کے مقاصد ہرگز جارہانہ نہیں ہیں لیکن اگر جارحیت ہوتی ہے تو مل کر دفاع کریں گے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس خطے میں گزشتہ کئی دہائیوں سے جنگ جاری ہے اور اس خطے میں موجود مسلم ممالک کا بنیادی حق ہے کہ وہ اپنا دفاع کریں، پاکستان اور سعودی عرب کے مابین پرانے دفاعی تعلقات ہیں، پاکستانی فوج اُن کی فوج کی تربیت کرتی رہی ہے اور باہمی دفاعی معاہدے نے ان تعلقات کو باضابطہ شکل دے دی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سعودی معاہدے کی کوئی خفیہ شرائط نہیں، خلیجی ممالک شامل ہو سکتے ہیں: خواجہ آصف
  • امریکا نے بھارت کا چاہ بہار منصوبہ مشکل میں ڈال دیا، چاہ بہار استثنیٰ ختم
  • پاکستان اورسعودی عرب کا دفاعی معاہدہ کسی ملک کیخلاف نہیں ،خواجہ آصف
  • اسرائیل اور غزہ کا معاملہ پیچیدہ ہے مگر حل ہوجائے گا، افغانستان سے بگرام ایئربیس واپس لینا چاہتے ہیں، ٹرمپ
  • چارلی کرک کا قتل
  • اگر کوئی سمجھتا ہے کہ میں ٹوٹ جا ئوں گا تو یہ غلط فہمی ہے ، عمران خان
  • وزیرِ اعظم کیلئے سعودی عرب کا خصوصی پروٹوکول، سعودی فضائی حدود میں پہنچنے پر تاریخی استقبال
  • معاہدہ ہوگیا، امریکا اور چین کے درمیان ایک سال سے جاری ٹک ٹاک کی لڑائی ختم
  • پی سی بی نے ایشیا کپ کے حوالے سے ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا، ترجمان
  • ملکی سالمیت پر کوئی سمجھوتہ قابل قبول نہیں :اسحاق ڈار