WE News:
2025-11-05@07:01:32 GMT

27 ویں آئینی ترمیم، عام پاکستانیوں کا کیا موقف ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 5th, November 2025 GMT

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

پڑھیں:

27ویں ترمیم  آرہی ، پی پی کیساتھ ایک پوائنٹ پر : اسحاق ڈار 

اسلام آباد؍ لاہور (نوائے وقت رپورٹ+ خبرنگار+ خصوصی نامہ نگار) 27 ویں آئینی ترمیمی بل 7 نومبر کو سینٹ اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق سینٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیاں بل کا اجلاس میں جائزہ لیں گی۔ 27 ویں آئینی ترمیم کا بل آئندہ ہفتے منظور کیا جائے گا۔ وفاقی حکومت نے 27 ویں آئینی ترمیم کی تیاری شروع کر دی ہے۔ 27 ویں آئینی ترمیم میں آرٹیکل 243 میں ترمیم ہو گی جس کا مقصد آرمی چیف کو دیئے گئے فیلڈ مارشل کے عہدے کو آئین میں شامل کرنا اور اسے تسلیم کرنا ہے۔  وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء تارڑ نے ممکنہ 27 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے کہا ہے کہ ترمیم کے ذریعے عدلیہ کے ادارہ جاتی ڈھانچے کو مضبوط بنانے پر مشاورت جاری ہے۔ ہم آئینی بنچ سے آئینی کورٹ کی طرف بڑھ رہے ہیں تاکہ نظام انصاف بہتر ہو۔ عدالتی نظام کو مضبوط بنانے کیلئے آئینی ترمیم پر غور جاری ہے۔ آئینی عدالت بنانے پر مشاورت ہو گی۔ سیشن کورٹ لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے  یہ بات  کہی۔ انہوں نے  کہا ملک کو سکیورٹی چینلجز درپیش، اس وقت کوئی حتمی بات کرنا قبل از وقت ہے۔ 27 ویں ترمیم پر قیاس آرائیاں نہ  کی جائیں۔ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے کہا ہے کہ آئین میں مجوزہ ترامیم اگر منظور کرلی گئیں تو یہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے خاتمے کے مترادف ہوں گی۔ وفاقی حکومت کی جانب سے صوبائی خودمختاری سے متعلق مجوزہ آئینی ترامیم دراصل 18ویں ترمیم کو ختم کرنے کی کوشش ہیں۔ 2010 میں منظور کردہ 18ویں ترمیم نے صوبوں کے خدشات دور کرتے ہوئے کئی وفاقی وزارتیں اور محکمے صوبوں کو منتقل کر دیے تھے، جن میں تعلیم اور آبادی کے محکمے بھی شامل تھے۔ رضا ربانی نے  خبردار کیا کہ موجودہ نازک سیاسی حالات میں صوبائی خودمختاری سے چھیڑ چھاڑ  سے وفاق کمزور ہو گا۔ 18ویں ترمیم نے شدت پسند قوم پرستوں کو سیاسی بحث سے باہر کر دیا تھا اور مجوزہ تبدیلیاں انہیں دوبارہ غیر آئینی سرگرمیوں کی طرف راغب کر سکتی ہیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ اگر وفاقی حکومت اپنے مالی معاملات نہیں سنبھال سکتی تو صوبوں کو تمام ٹیکس جمع کرنے اور وفاقی اخراجات کو مشترکہ مفادات کونسل کے ذریعے پورا کرنے کی اجازت دی جائے۔ پیپلزپارٹی کی رہنما شازیہ مری نے کہا   18 ویں ترمیم صوبوں کے دلوں کے بہت قریب ہے اور اس پر ہرگز سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ نجی چینل کے  پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے شازیہ مری نے کہا کہ  کافی عرصے سے 27 ویں ترمیم کے حوالے سے قیاس آرائیاں ہورہی ہیں تاہم حکومت نے باقاعدہ پیپلزپارٹی سے 27 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے رابطہ کیا ہے اور ترمیم پر حمایت مانگی ہے۔18 ویں ترمیم میں صوبوں کے اختیارات سے پیچھے ہٹنا مناسب بھی نہیں اور ممکن بھی نہیں ہوگا، حکومت کے پرپوزل کو پیپلزپارٹی کی سی ای سی کمیٹی میں رکھا جائے گا اور  سی ای سی میں فیصلے کیے جائیں گے۔ سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے کہا ہے کہ مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم میں دیکھنا ہوگا کہ صوبوں کو این ایف سی کی مد میں ملنے والے فنڈز کے بعد کیا وفاق کے بعد اتنی گنجائش رہ جاتی ہے کہ وہ اپنے معاملات کو چلا سکے۔ اس کا ایک حل یہ موجود ہے کہ وفاق نے جو قرض کی ادائیگیاں کرنی ہے اس میں صوبے اپنا حصہ ڈالیں۔ ہمارا مقدمہ ستائیسویں ترمیم میں ضلعی حکومتوں کو آئینی تحفظ فراہم کرنا ہے اور کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ پنجاب اسمبلی میڈیا سے گفتگو میں  کہا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم پر کام شروع ہو چکا ہے۔ ہمارا مقدمہ بلدیاتی اداروں سے وابستہ ہے جس کیلئے پنجاب اسمبلی سے تمام جماعتوں کے ارکان نے متفقہ قرارداد منظور کی تھی۔ جس طرح وفاق اور صوبائی حکومتوں کو آئینی تحفظ حاصل ہے ایسے ہی وہ چاہتے ہیں کہ مقامی حکومتوں کو بھی تحفظ حاصل ہو اور امید کرتے ہیں اس آئینی ترمیم پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ دریں اثناء نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے واضح کیا ہے کہ حکومت 27 ویں آئینی ترمیم مشاورت کے بعد لا رہی ہے، جلد پارلیمنٹ میں پیش کی جائے گی۔ پیپلز پارٹی  اور ہم ایک پوائنٹ پر پہنچے ہیں اور اب دیگر اتحادیوں کو لائیں گے۔ سینٹ کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ27 ویں  ترمیم آنے والی ہے، کوشش کریں گے آئین کے مطابق پیش کریں گے،  آپ 27ویں ترمیم پر تقریر کریں گے، رائے دیں گے۔ کمیٹی میں معاملہ جائے گا، اس کمیٹی میں قومی اسمبلی کی کمیٹی بھی آجائے گی،  یہ یقین دہانی کرواتا ہوں کہ یہ نہیں ہو گا کہ جلد بازی میں ترمیم منظور کروا لی جائے۔ ہم ابھی اپنے سب سے بڑے اتحادی کے ساتھ بیٹھے ہیں، دیگر اتحادی جماعتوں ایم کیو ایم ، اے این پی، بی اے پی کو بھی اعتماد میں لینا ہے۔ حتمی دستاویز آپ کے سامنے پیش کر دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سے کہتا ہوں کہ آئینی ترمیم قومی اسمبلی سے پہلے سینٹ میں لے آئیں۔ بلاول بھٹو کا بیان دیکھا تھا، بیان دینا ان کا حق ہے، بلاول نے جن باتوں کی نشاندہی کی وہ ہوا میں نہیں کی، ان پر بات ہوئی ہے۔ وزیر قانون آئینی ترمیم کو سینٹ میں لا کر کمیٹی کو بھیجیں،  کمیٹی کو چیئرمین ہدایت دیں وہ قومی اسمبلی کی قانون و انصاف کی کمیٹی کو اجلاس میں مدعو کریں۔ کہا گیا یہ آئینی ترمیم کہاں سے آ رہی ہے، یہ آئینی ترمیم حکومت کی ہے۔ یہ کہیں سے پیراشوٹ نہیں ہو رہی‘ ہم اس پر شراکت داروں‘ وکلاء فورمز سے بھی بات کریں گے۔ ادھر سینٹ میں اپوزیشن نے ہنگامہ کرتے ہوئے بائیکاٹ کر دیا۔ ایوان بالا میں قائد ایوان سینیٹر اسحاق ڈار نے کہاکہ اپوزیشن لیڈر کی تعیناتی ہونی چاہیے وہ اس سسٹم کا حصہ ہے۔ یہ ذمہ چیئرمین سینٹ کی ہے اور وہ چیمبر میں یہ فیصلہ کرتے ہیں، ہم اس میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ہیں۔ اسحاق ڈار نے کہاکہ 27ویں ترمیم حکومت ہی لارہی ہے اور یہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ اصول اور آئین اور قانون کے مطابق اس کو ایوان میں پیش کریں گے اور اس پر کمیٹی بھی فیصلہ کرے گی۔ حکومت کو کسی بھی معاملے پر کوئی تحفظات نہیں ہیں اور اس پر ایوان میں بحث ہوگی۔ انہوں نے کہاکہ بلاول بھٹو ہمارے اتحادی ہیں اور جو بھی حکومت میں ہوتے ہیں وہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مشورہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اپنے بڑے اتحادی کے ساتھ تین مشاورتیں ہوچکی ہیں اور اب ایم کیو ایم ، باپ اور اے این پی سمیت دیگر جماعتوں کے ساتھ مشاورت کریں گے جس کے بعد آئینی ترمیم ایوان کے سامنے پیش کی جائے گی۔ تاہم میں حکومت سے درخواست کروں گا کہ اس کو پہلے ایوان بالا میں پیش کی جائے۔ بلاول بھٹو ایک سیاستدان ہیں اور ایک پارٹی کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے جن نکات کی نشاندہی کی ہے اس پر بات ہوسکتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ جو بات چیت ہوئی ہے اس کے بعد ہم ایک نکتہ پر پہنچ چکے ہیں اور اب دیگر اتحادیوں کے ساتھ بات چیت کریں گے۔ 27 ویں ترمیم کے حوالے سے تمام پراسس شفافیت سے ہوگا اور اس بل کو کمیٹی کو بھجوایا جائے تاکہ اس پر سیر حاصل بحث کی جائے۔ انہوں نے کہاکہ یہ بل کہیں اور سے نہیں آرہا ہے بلکہ حکومت خود لیکر آرہی ہے اور اس حوالے سے وکلاء برادری سمیت ہر شعبے سے مشاورت کریں گے۔ ایوان بالا میں اپوزیشن رکن سینیٹر علی ظفر نے حکومت کی جانب سے 27ویں آئینی ترمیم لانے کو خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت 1973 کے آئین کا چہرہ مسخ کر رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ آئین کبھی گولیوں سے نہیں مرتا بلکہ غیر آئینی اصلاحات سے مرتا ہے جو 27ویں آئینی ترمیم میں شامل ہیں۔ پیپلز پارٹی سے یہ امید رکھتا ہوں کہ وہ اس ترمیم کے خلاف اپوزیشن کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ انہوں نے کہاکہ یہ اب صرف قانونی معاملہ نہیں بلکہ اخلاقی معاملہ بھی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم 1973کے آئین پر قائم رہیں۔ اس ترمیم سے اس ملک کو بہت بڑا نقصان ہوسکتا ہے۔ ایوان بالا میں اپوزیشن لیڈر کی عدم تقرری پر اپوزیشن ارکان نے شدید احتجاج کیا۔ پریذائیڈنگ آفیسر نے اپوزیشن ارکان سے معذرت کر لی۔ منگل کو اپوزیشن ارکان کی بڑی تعداد چیئرمین سینٹ کے ڈائس کے قریب جمع ہوگئی اور احتجاج شروع کیا۔ اس موقع پر پریذائیڈنگ آفیسر نے کہاکہ ایوان میں اپوزیشن لیڈر ضرور ہونا چاہیے تاہم اس کی تقرری میرا اختیار نہیں ہے۔ اس حوالے سے چیرمین سینٹ کے پاس چلے جائیں یہ اس کا اختیار ہے۔ وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ نے کہا ہے 18 ویں ترمیم میں صوبوں اور مرکز کے پاس جو وسائل ہیں انہیں بیلنس کرنے کی ضرورت ہے۔ نجی چینل کے شو میں گفتگو کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا آئین کسی بھی ملک کی مقدس دستاویز ہوتی ہے لیکن حرف آخر نہیں ہوتی۔ آئین میں بہتری کے لئے ترامیم کی جاتی ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم صبح 27 ویں ترمیم لا رہے ہیں، مثبت بات چیت اور بحث جمہوریت کا خاصہ ہے اور وہ ہوتا رہنا چاہیے، مختلف چیزیں ہیں جن پر پارلیمینٹرین اور مختلف جماعتوں کے درمیان بات چیت ہو رہی ہے، بنیادی مسائل پر بات بنتے بنتے بنتی ہے، فوری طور پر یہ چیزیں نہیں ہوتیں۔ نائب صدر پیپلز پارٹی سینیٹر شیری رحمن نے نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کہا ہے کہ بلاول بھٹو نے حکومت کو بتایا تھا کہ میں یہ معاملہ عوام اور پارٹی میں لے جاؤں گا۔ حکومت نے 27 ویں ترمیم کا ڈرافٹ ہم سے شیئر کیا ہے۔ آئینی ترمیم پر اپنی پارٹی سے پہلے مشاورت کریں گے۔ یہ طے ہوا ہے کہ مسودہ پہلے قائمہ کمیٹی میں جائے گا۔ باقاعدہ بحث ہو گی، عوام کے حقوق پر کوئی یکطرفہ کلہاڑی تو نہیں مار سکتا۔ صوبائی خود مختاری پر پیپلز پارٹی کی پوزیشن واضح ہے جو حکومت بھی سمجھتی ہے۔

اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) اپوزیشن اتحاد تحریک تحفظ آئین پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ 27 ویں آئینی ترمیم منظور نہیں ہونے دیں گے کیونکہ اس کے بدترین نقصانات ہوں گے اور ملک کی بنیادیں ہل جائیں گی۔ تحریک تحفظ آئین پاکستان کے صدر محمود خان اچکزئی کی سربراہی میں ہنگامی اجلاس ہوا جس میں ملک کی سیاسی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ بعد ازاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسد قیصر نے کہا کہ  جو 27 ویں آئینی ترمیم کا پنڈورا باکس کھولا گیا ہے، بلاول بھٹو زرداری کا بھی جو ٹویٹ آیا ہے وہ تشویش ناک ہے، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) بھی اس ٹوپی ڈرامے میں شریک ہے، اس کا فیصلہ پہلے ہو چکا ہے یہ صرف لوگوں کو دکھانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اسد قیصر نے کہا کہ ایک پی پی پی تھی ذوالفقار علی بھٹو والی جس نے آئین کی بنیاد رکھی، دوسری بینظیر بھٹو والی جس نے جمہوریت کے لیے جان دے دی، آج بھی پی پی پی جمہوریت کو دفن کرنے کے لیے جان لگا رہی ہے۔ میاں صاحب جو کچھ عرصہ پہلے ووٹ کو عزت دینے کے لیے مہم چلا رہے تھے، اب ووٹ کو عزت دو کا نعرہ کہاں گیا؟۔ اس اقتدار کا آپ کو کیا کرنا ہے جو پاؤں پڑنے کی بنیاد پر دیا جائے۔ میاں نواز شریف کو خود کو ووٹ کو عزت دینے کا چیمپئن سمجھ رہے تھے وہ اب خاموش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے عمران خان کو بھی اپنی سفارشات بھیجی ہیں، اگر ملاقات ہو جاتی ہے تو پریس ریلیز جاری کردیں، ہم ہر صورت جمہوریت اور آئین کی بالادستی کے لیے عوام کے پاس بھی جائیں گے اور پارلیمنٹ میں بھی بھرپور احتجاج ریکارڈ کروائیں گے۔  سابق سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ اس بات میں تو کسی پاکستانی کو شک و شبہ نہیں ہے کہ کچھ عرصے سے اس ملک میں جبر کا نظام نافذ ہے، تمام چیزیں جو پاکستانی شہریوں کے لیے آئین نے فراہم کی تھی وہ سبوتاژ کردی گئی ہیں۔ بلاول کی ٹویٹ کے ذریعے ہمیں آئینی ترمیم کا پتا چلا، آپ نے جب آئینی بینچز بنائے تو یہ بیان رکھا کہ اس سے انصاف کی فراہمی بہتر ہو جائے گی، ایک ایسی عدالت بنانے جا رہے ہیں جس کی مدت 70 سال ہو گی۔ یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ جو حکومت کو خوش رکھے گا اس کے لیے آگے موقع موجود ہے، یہ عدلیہ کے ساتھ کیا کھلواڑ کر رہے ہیں، ججوں کی ٹرانسفر پوسٹنگ باقی بیورو کریسی کی طرح ہوگی، جن کے فیصلے پسند نہیں آتے انہیں اٹھا کر دوسری جگہ پھینک دیں گے، اس طرح کون سا جج عوام کو انصاف دینے کے لیے کھڑا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ کوئی ادارہ کسی دوسرے ادارے کا اختیار استعمال نہیں کرے گا، آپ پھر سے انگریزوں کا کالا قانون واپس لانا چاہتے ہیں، جو عدلیہ، میڈیا اور دیگر کے خلاف استعمال ہوں گے۔ مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی تقرری کے لیے نئی ترامیم لائی جائیں گی، آج اس ملک میں الیکشن کمیشن خود ایک مذاق بن گیا ہے، جو ٹربیونل بنائے گئے تھے آپ نے انہیں سبوتاژ کیا، جو اختیارات صوبوں کو دیے گئے ان میں سے کئی محکمے وفاق کو دیے جائیں گے۔ اس کابینہ کے اجلاس میں چند ارکان کو میں نے روتے ہوئے دیکھا، ہم نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ آپ نے یہ بھی نوید سنا دی، آرٹیکل 243 جس کے تحت آرمی چیف کی تقرری ہوتی ہے اس میں بھی ترمیم آنے جا رہی ہے، اگر اس میں ترمیم کریں گے تو ملک کا انفراسٹرکچر تبدیل ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ جو گفتگو ہو رہی ہے اس کے مطابق کمانڈر ان چیف کا عہدہ بنایا جا رہا ہے، یہ ملک آپ کس کے حوالے کر رہے ہیں؟ کہاں گئی سویلین بالادستی کی باتیں؟۔ سویلین اداروں کو اسٹیبلشمنٹ کے ماتحت بنا دیا جائے گا، اس ترمیم کے وہ نقصانات ہوں گے کہ ملک کی بنیادیں ہلا دیں گے اور لوگ اس کو ماننے سے انکار کر دیں گے۔ ہم اس کو منظور نہیں ہونے دیں گے۔ ہم میڈیا، سول سوسائٹی اور دیگر تنظیمیوں سے رابطہ کریں گے، اس ناجائز پارلیمان کو یہ قدم اٹھانے سے روکنا ہے، ہم صرف انتظار کررہے ہیں کہ اگر پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی ملاقات ہوجاتی ہے بانی سے تو ان کا اِن پٹ لے کر پلان دیں۔ سابق گورنر سندھ زبیر عمر نے کہا کہ میاں نواز شریف سے میں گزارش کروں گا کہ 26 آئینی ترمیم اور 27 ویں آئینی ترمیم پر صرف ایک بیان دے دیں، مجھے امید ہے کہ وہ اس سے بھرپور اختلاف کریں گے اور وہ اپنے بھائی کو یہ کرنے سے روکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کل جو وزیروں نے پریس کانفرنس کی اس میں عوام کو کچھ نہیں بتایا گیا، پچھلے 30سال میں تقریباً 25 واں آئی ایم ایف پروگرام ہے۔ پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ بانی سے ملاقات کے بعد ہی 27ویں ترمیم پر رسپانس دیں گے، اس معاملے پر سیاسی کمیٹی میں بات کریں گے اور اس پر اپنی سٹرٹیجی بنائیں گے۔ میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ بانی عمران خان سے آج بھی ملاقات کی اجازت نہیں دی جا رہی، دو سال سے عدالت کے احکامات پر عمل نہیں ہو رہا، یہ ظلم اور زیادتی ہے۔ آئین میں اگر ترمیم ہونی ہے تو وہ پہلے اتفاق رائے سے ہوتی رہی ہے، عدلیہ ہمیشہ متنازع رہی ہے لیکن 26 ویں ترمیم نے ملک میں دراڑ پیدا کر رکھی ہے، اب 27ویں ترمیم آرہی ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا 27 ویں ترمیم کو رد کرتے ہیں۔ میڈیا ٹاک میں حامد خان نے کہا کہ ہم نے چھبیسویں ترمیم قبول نہیں کی تو 27ویں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سب کو پتا ہے یہ کون کروا رہا ہے باقی تو سب کھلونے ہیں، جس کے پاس طاقت ہوتی ہے اسی کے بارے میں بات کی جاتی ہے، آزاد کشمیر میں جس طرح گولیاں برسائی گئیں وہ بھی زیادتی ہے، ہم 27 ویں ترمیم کے مخالفین کے ساتھ ہوں گے۔ پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر نے کہا ہے کہ بلاول بھٹو  کا مؤقف  آئین کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔

متعلقہ مضامین

  • 27 ویں آئینی ترمیم کا فریم ورک تیار
  • 27ویں ترمیم  آرہی ، پی پی کیساتھ ایک پوائنٹ پر : اسحاق ڈار 
  • بیرونی مداخلت اور سازشوں کے خلاف ٹھوس موقف
  • 27 ویں آئینی ترمیم پر پرویز رشید نے کیا کہا؟
  • 27ویں آئینی ترمیم: 11 نکاتی مسودہ منظر عام پر آگیا
  • 47فیصد پاکستانیوں نے کبھی ٹرین کا سفر نہیں کیا، سروے میں انکشاف
  • ستائیسویں آئینی ترمیم کی گونج: ڈی جی آئی ایس پی آر کا افغانستان کو واضح پیغام
  • اسد قیصر نے 27 ویں آئینی ترمیم کا پروپوزل مسترد کردیا
  • اسد قیصر نے 27ویں آئینی ترمیم کا پروپوزل مسترد کردیا