مشرقِ وسطیٰ سے سوڈان تک، امریکی صہیونی عرب پراکیسز
اشاعت کی تاریخ: 30th, October 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ایک امریکی یونیورسٹی نے سیٹلائٹ تصاویر کی مدد سے تصدیق کی ہے کہ الفاشر میں واقعی نسلی صفایا (Ethnic Cleansing) جاری ہے۔ دوسری جانب آر ایس ایف کے سربراہ محمد حمدان دقلو (حمیدتی) نے واقعے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ جنگ نے انہیں اس حال تک پہنچا دیا، اور تحقیقات کے لیے کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں۔ تاہم دارفور کی مقامی حکومت کے مطابق اب تک دو ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد عام شہریوں کی ہے۔ خصوصی رپورٹ:
1.
سوڈان کے شہر الفاشر میں ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کے ہاتھوں ہونے والی خوفناک نسل کشی کے بعد، امریکی کانگریس کے کئی ریپبلکن اور ڈیموکریٹ اراکین نے ٹرمپ انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ اس گروہ کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم کے طور پر فہرست میں شامل کیا جائے۔ اس فورس کو امارات کی عسکری و مالی سرپرستی حاصل ہے۔ یہ فورس دارفور میں جاری خانہ جنگی کے دوران نہتے شہریوں کے قتلِ عام میں ملوث پائی گئی ہے۔ اس تناظر میں امریکہ کے لئے الفاشر میں غزہ کے بعد افریقہ میں نسل کشی کا بے نقاب ہونا ایک اور سیاسی جھٹکا محسوس کیا جا رہا۔
2. امریکی سینیٹ کا ردِعمل
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے چیئرمین ریپبلکن سینیٹر جِم رِش (Jim Risch) نے کہا ہے کہ الفاشر میں ہونے والے جرائم اتفاقیہ نہیں، بلکہ پہلے سے تیار کردہ منصوبے کا حصہ ہیں۔ ریپڈ سپورٹ فورسز شروع سے ہی دہشت گردانہ سرگرمیوں، نسل کشی اور انسانیت سوز مظالم میں ملوث رہی ہیں۔ اسی تناظر میں ڈیموکریٹ سینیٹر جین شاہین (Jeanne Shaheen) نے بھی عندیہ دیا ہے کہ وہ اس اقدام کی حمایت کر سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موضوع کا مزید باریک بینی سے جائزہ لینا ضروری ہے۔ یہ نکتہ قابلِ توجہ ہے کہ امریکی قانون ساز پہلی مرتبہ کسی اماراتی حمایت یافتہ عرب ملیشیا کو باضابطہ دہشت گرد تنظیم قرار دینے پر غور کر رہے ہیں، جو خطے میں امریکی پالیسی کی ممکنہ تبدیلی کی علامت ہے۔
3. وائٹ ہاؤس کا موقف
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر مسعد بولس (Massad Boulos) نے ایک باضابطہ بیان میں الفاشر میں شہریوں پر حملوں پر “گہری تشویش” کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عام شہریوں کو نشانہ بنانا ناقابلِ قبول اور بین الاقوامی انسانی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ بولس نے مزید کہا کہ ٹرمپ ٹیم تمام خلاف ورزیوں کی شدید مذمت کرتی ہے اور آر ایس ایف سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ حملے فوری طور پر روکے، شہریوں کو تحفظ فراہم کرے، اور پناہ گزینوں کے لیے محفوظ راستہ فراہم کرے۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ان جرائم کے ذمہ داروں کو جواب دہ بنایا جائے گا، جو بین الاقوامی سطح پر احتساب کے امکان کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
4. الفاشر میں نسل کشی کی تصدیق
ایک امریکی یونیورسٹی نے سیٹلائٹ تصاویر کی مدد سے تصدیق کی ہے کہ الفاشر میں واقعی نسلی صفایا (Ethnic Cleansing) جاری ہے۔ دوسری جانب آر ایس ایف کے سربراہ محمد حمدان دقلو (حمیدتی) نے واقعے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ جنگ نے انہیں اس حال تک پہنچا دیا، اور تحقیقات کے لیے کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں۔ تاہم دارفور کی مقامی حکومت کے مطابق اب تک دو ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد عام شہریوں کی ہے۔
5. طبی عملے اور شہریوں کا قتل
سوڈانی ڈاکٹروں کی انجمن نے العربیہ کو بتایا ہے کہ آر ایس ایف کے حملے میں الفاشر کے واحد فعال اسپتال سعودی ہسپتال کو نشانہ بنایا گیا، جس میں 700 شہری قتل کیے گئے اور 450 مریضوں و طبی عملے کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔ مزید یہ کہ شہر میں 300 سے زائد اغوا کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں زیادہ تر مالدار خاندانوں کے افراد شامل ہیں اور اغواکاروں نے تاوان کے بدلے رہائی کی پیشکش کی ہے۔
6. امریکہ کا دہرا معیار اور دوغلاپن
یہ پیش رفت دراصل امریکی پالیسی کے اندرونی تضاد کو نمایاں کرتی ہے، ایک طرف واشنگٹن امارات کو اسٹراٹیجک اتحادی” قرار دیتا ہے، اور دوسری طرف اسی اتحادی کے زیرِحمایت ملیشیاؤں کو دہشت گرد قرار دینے پر غور کر رہا ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف سوڈان کے بحران کو نئی بین الاقوامی جہت دے سکتی ہے، بلکہ خلیجی سیاست میں امریکہ امارات تعلقات کی بنیادوں پر بھی سوال اٹھا سکتی ہے۔
یہ پیش رفت امریکی پالیسی کے اندر اخلاقی اور سیاسی تضاد کو نمایاں کرتی ہے۔ ایک طرف واشنگٹن ابوظہبی کو اسٹراٹیجک اتحادی اور استحکام کا ضامن قرار دیتا ہے، دوسری طرف اسی کے فنڈ سے چلنے والے گروہوں کو نسل کشی اور دہشت گردی کے مرتکب ٹھہراتا ہے۔ یہ تضاد اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ امریکہ کا انسانی حقوق کا بیانیہ سیاسی مفادات کے تابع ہے، نہ کہ اصولی موقف کے۔ نتیجتاً، امارات جیسی ریاستیں امریکی پالیسی میں بیک وقت دوہری حیثیت رکھتی ہیں یعنی شریکِ جرم بھی اور شراکت دار بھی۔
7. عرب ریاست بطورِ پراکسی: انصاراللہ کے مؤقف کی تصدیق
انصاراللہ کا مؤقف ہے کہ امارات ایک امریکی صہیونی آلہ بن چکا ہے، یہی دعویٰ اب خود مغربی اداروں اور امریکی قانون سازوں کی بحثوں میں جھلکنے لگا ہے۔ جب امریکی سینیٹرز امارات کے زیرِ حمایت ریپڈ سپورٹ فورسز کو دہشت گرد قرار دینے کی بات کرتے ہیں، تو دراصل وہ اسی استعماری نیٹ ورک کی حقیقت کو تسلیم کر رہے ہیں جو مشرقِ وسطیٰ سے افریقہ تک امریکی صہیونی مفادات کے لیے عرب قوتوں کو پراکسی کے طور پر استعمال کرتا ہے۔
8. افریقہ سے خلیج تک، نئے عالمی صف بندی کا خاکہ
الفاشر کی نسل کشی اور اس پر امریکی ردِعمل، دراصل ایک وسیع تر جغرافیائی رجحان کی علامت ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کی پراکسی پالیسی اب افریقہ تک پھیل چکی ہے۔ یمن میں انصاراللہ کے خلاف، لیبیا میں حفتر کی حمایت، اور اب سوڈان میں آرایس ایف کی پشت پناہی۔ یہ سب اس اماراتی اسٹریٹجی کے اجزاء ہیں جو واشنگٹن اور تل ابیب کے طاقت کے نئے مرکز (Power Corridor) کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ یہ رجحان ظاہر کرتا ہے کہ عرب ریاستیں اب خود مختار فاعل نہیں بلکہ بین الاقوامی نظام کے ایجنٹس بن چکی ہیں۔ انصاراللہ کی تعبیر کے مطابق یہ صہیونی امریکی نظمِ بالادستی کا وہ عملی مظہر ہے جو خطے میں ہر آزاد مزاحمتی یا خودمختار آواز کو دبانے کے لیے عرب ہاتھوں سے عرب لہو بہانے کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: امریکی پالیسی بین الاقوامی الفاشر میں ا ر ایس ایف کہ الفاشر کے مطابق کرتا ہے کرتی ہے ہے کہ ا کے لیے کہا کہ
پڑھیں:
سوڈان میں باغی فوج کا الفشر شہر پر قبضہ: 2 ہزار افراد قتل کرڈالے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
خرطوم: سوڈان میں باغی فوج نے 2ہزار افراد قتل کرڈالے،ریپڈ سپورٹ فورس نے الفشر شہر پرقبضہ کرلیاہے۔
میڈیا ذرائع کے مطابق باغی فوج آر ایس ایف سوڈانی فوج کا گڑھ سمجھے جانے والے شہر الفشر پر حملہ کرتے ہوئے قبضہ کیا۔ الفشر پر قبضے کے بعد آر ایس ایف نے دارفور کے وسیع علاقے پر تقریباً مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔
سوڈانی حکومت کے مطابق شہر میں اب تک کم از کم 2 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ امدادی تنظیموں نے عام شہریوں کے قتل، فرار کے دوران حملوں، گھروں پر چھاپوں اور اجتماعی پھانسیوں کی مصدقہ اطلاعات دی ہیں۔
اطلاعات کے مطابق خواتین اور لڑکیوں کے خلاف جنسی تشدد کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔ اب یہ خدشہ بڑھ گیا ہے کہ سوڈان ایک بار پھر تقسیم کے دہانے پر پہنچ سکتا ہے، جیسے ایک دہائی قبل جنوبی سوڈان کے الگ ہونے پر ہوا تھا۔