امارات، امریکی و صہیونی آلہ کار کے طور پر عرب اقوام کے خلاف استعمال ہو رہا ہے، انصار اللہ
اشاعت کی تاریخ: 30th, October 2025 GMT
محمد الفرح نے کہا ہے کہ امارات کے زیرِ حمایت مسلح گروہ کسی قومی نظریے یا خودمختار منصوبے کا نتیجہ نہیں، جن کا مقصد عرب معاشروں کو تقسیم کرنا، انہیں اندرونی خانہ جنگیوں میں الجھانا، مزاحمتی قوتوں کو کمزور کرنا اور معیشت و سیاست کو امریکی و مغربی نظام کے تابع بنانا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ یمن کی اسلامی مزاحمتی تحریک انصاراللہ کے رکن محمد الفرح نے کہا ہے کہ امارات کے پاس کوئی خودمختار یا اسٹریٹجک منصوبہ نہیں ہے، بلکہ وہ صرف امریکی صہیونی منصوبوں کے دائرے میں عمل کرتا ہے۔ ان کے مطابق ابوظہبی عرب اقوام کے خلاف امریکہ اور اسرائیل کا ایک علاقائی آلہ بن چکا ہے۔ خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق حالیہ دنوں میں غزہ اور سوڈان میں ہونے والے جرائم میں امارات کے کردار کی روشنی میں محمد الفرح نے کہا کہ امارات کا کردار کسی قومی یا خودمختار اسٹریٹجک منصوبے کی نمائندگی نہیں کرتا، بلکہ یہ ایک امریکی صہیونی حکمتِ عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد طاقت کا توازن اس طرح بدلنا ہے کہ مغرب کی بالادستی قائم رہے اور عرب اقوام کی مزاحمتی قوتیں کمزور پڑ جائیں۔
محمد الفرح نے مزید کہا کہ یمن، سوڈان اور غزہ میں امارات کی پالیسیاں واضح طور پر واشنگٹن اور تل ابیب کے منصوبوں سے منسلک ہیں، اور امارات صرف انہی علاقوں میں سرگرم ہوتا ہے جہاں امریکہ اور اسرائیل اپنے اثر و رسوخ کی نئی تقسیم یا آزادی و مزاحمت کی تحریکوں کو کچلنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امارات کے زیرِ حمایت مسلح گروہ کسی قومی نظریے یا خودمختار منصوبے کا نتیجہ نہیں، بلکہ وہ صہیونی ایجنڈے کے اوزار ہیں، جن کا مقصد عرب معاشروں کو تقسیم کرنا، انہیں اندرونی خانہ جنگیوں میں الجھانا، مزاحمتی قوتوں کو کمزور کرنا اور معیشت و سیاست کو امریکی و مغربی نظام کے تابع بنانا ہے۔
انصاراللہ رہنما نے زور دے کر کہا کہ امارات ایک وسیع تر بین الاقوامی منصوبے میں ایک علاقائی آلہ بن چکا ہے، جس کا آخری مقصد عرب و اسلامی دنیا کو تقسیم کر کے امریکہ و اسرائیل کی برتری کو برقرار رکھنا اور کسی بھی خودمختار طاقت یا مغرب مخالف قوت کے ابھرنے کو روکنا ہے۔ یہ بیانات اس وقت سامنے آئے جب چند روز قبل خبر رساں ایجنسی سبا نے سکیورٹی ذرائع کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ اماراتی افسران صوبہ شبوہ اور الریان سے غزہ بھیجے گئے ہیں تاکہ اسرائیلی دشمن کی مدد کی جا سکے۔ ذرائع کے مطابق اماراتی کمان نے 45 روز کے لیے ان افسران کو منتخب کیا تاکہ وہ دشمن سے وابستہ مزدور جنگجوؤں کو جدید جنگی طریقوں کی تربیت دیں۔ بتایا گیا کہ ان میں سے کچھ افسران ہلال احمر امارات سے وابستہ ہیں۔
ذرائع کے مطابق غزہ میں ان افسران کا مشن وہی ہے جو وہ یمن میں انجام دے رہے ہیں، یعنی دشمن سے وابستہ کرائے کے فوجیوں کی نگرانی۔ یہ نگرانی ان گروہوں کی بھرتی، تنظیم، اور تشکیلِ بریگیڈز پر مشتمل ہے تاکہ وہ صہیونی دشمن کی فلسطینی مجاہدین کے خلاف جنگ میں حصہ لے سکیں۔ دوسری جانب پچھلے دنوں میں امارات کے زیرِ حمایت ریپڈ ری ایکشن فورس کے جنگجوؤں نے سوڈان کے شہر الفاشر میں بے دفاع شہریوں کے خلاف خوفناک نسل کشی کا ارتکاب کیا، جبکہ انسانی حقوق کے جھوٹے دعویداروں کی خاموشی نے اس قتلِ عام کو مزید تقویت دی ہے۔
اماراتی حمایت یافتہ کرائے کے جنگجو، جو مہلک ہتھیاروں سے لیس ہیں، بین الاقوامی برادری کی خاموشی کے سائے میں سوڈان میں نسل کشی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے جرائم کے نتیجے میں بعض شہر مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیں، متعدد دیہات مٹی کے ڈھیر بن گئے، سینکڑوں خواتین کی بے حرمتی کی گئی، ہزاروں بچے، عورتیں، نوجوان اور بزرگ قتل کر دیے گئے، اور 1 کروڑ 20 لاکھ سے زائد لوگ بے گھر ہو گئے۔ عالمی برادری اور انسانی حقوق کے جھوٹے علمبردار اس خوفناک نسل کشی پر خاموش ہیں، جو امارات کے زیرِ حمایت ریپڈ ری ایکشن فورس کے ہاتھوں ہو رہی ہے۔ الفاشر شہر میں جاری صورتحال ایک خاموش نسل کشی ہے، جس پر بین الاقوامی میڈیا، انسانی تنظیمیں اور عالمی ادارے خاموش ہیں، اور ان دہشت گرد ملیشیاؤں کے سرپرست ممالک، خصوصاً امارات، پر دباؤ ڈالنے سے گریزاں ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: محمد الفرح نے امارات کے زیر کہ امارات کے مطابق کے خلاف کہا کہ نے کہا
پڑھیں:
پیکا قانون کا غلط استعمال: — پنجاب میں صحافیوں کے خلاف جھوٹے مقدمات میں اضافہ
میڈیا کی آزادی پر نظر رکھنے والے ادارے فریڈم نیٹ ورک کی دو تازہ تحقیقی رپورٹس نے پنجاب میں صحافیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے دباؤ اور قانونی کارروائیوں پر سنگین خدشات ظاہر کیے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق شمالی اور وسطی پنجاب میں صحافی نہ صرف سنسرشپ اور جھوٹے مقدمات کا نشانہ بن رہے ہیں بلکہ انہیں معاشی طور پر کمزور کر کے دباؤ میں لانے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔
یہ رپورٹس انٹرنیشنل میڈیا سپورٹ کے تعاون سے جاری کی گئیں، جن میں اقوام متحدہ کے 2012ء کے پلان آف ایکشن برائے تحفظِ صحافیان کے تناظر میں پاکستان کو اُن چند ممالک میں شمار کیا گیا ہے جہاں صحافیوں کے تحفظ کے لیے مقامی سطح پر اقدامات تو ہو رہے ہیں، لیکن خطرات اب بھی کم نہیں ہوئے۔
رپورٹس کی رونمائی کے موقع پر فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اقبال خٹک، سینئر صحافی سہیل وڑائچ، لاہور پریس کلب کے صدر ارشد انصاری اور فیڈرل کمیشن برائے تحفظِ صحافیان کے رکن کمال الدین ٹیپو نے خطاب کیا۔
رپورٹ کے مطابق، پیکا قانون اور دیگر ضابطوں کے تحت صحافیوں کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کرنے کے رجحان میں تیزی آئی ہے۔ 2025ء کے دوران شمالی پنجاب میں دو جسمانی حملے، پیکا کے تحت 31 ایف آئی آرز اور دیگر قوانین کے تحت آٹھ جھوٹے مقدمات رپورٹ ہوئے، جب کہ وسطی پنجاب میں 32 مقدمات صرف پیکا ایکٹ کے تحت درج کیے گئے — ان میں کئی کارروائیاں پرانی سوشل میڈیا پوسٹس کی بنیاد پر ہوئیں۔
اقبال خٹک کے مطابق، “جب تک مقامی میڈیا کو مضبوط نہیں کیا جائے گا، عوام کو درست اور مستند معلومات تک رسائی ممکن نہیں۔ یہ نتائج حکومت، میڈیا تنظیموں اور سیاسی جماعتوں سب کے لیے سنجیدہ انتباہ ہیں۔
رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ پرنٹ میڈیا کے زوال اور کم آمدنی والے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے پھیلاؤ نے صحافیوں کو مزید غیر یقینی صورتحال میں دھکیل دیا ہے۔ خواتین صحافیوں کے لیے حالات اور بھی مشکل ہیں — انہیں پریس کلبوں میں رکنیت نہ ملنا، ہراسانی اور محدود نوعیت کی اسائنمنٹس جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ اگرچہ کچھ شہروں میں معمولی بہتری ضرور دیکھی گئی ہے۔
رپورٹس کے مطابق پیکا ایکٹ 2025ء کی نئی ترامیم نے قانونی سنسرشپ کی ایک نئی شکل اختیار کر لی ہے، کیونکہ اب پولیس کو اختیار ہے کہ وہ سوشل میڈیا پوسٹس پر بھی مقدمات درج کرے، جس کے نتیجے میں صحافیوں کے اندر خود سنسرشپ کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
تحقیقی رپورٹ میں کئی سفارشات بھی پیش کی گئی ہیں، جن میں شامل ہیں:
پنجاب میں صحافیوں کے تحفظ کا قانون اور اس کے تحت تحقیقی کمیشن کا قیام۔
تمام نامہ نگاروں کے لیے کم از کم اجرت اور محنت کش حقوق کا نفاذ۔
شفاف اشتہاراتی نظام تاکہ معاشی دباؤ کے ذریعے سنسرشپ کا خاتمہ ہو۔
معلومات تک آسان رسائی، باقاعدہ سرکاری بریفنگز، اور خواتین صحافیوں کے لیے مساوی مواقع و تربیت۔
میڈیا، سول سوسائٹی اور اکیڈمیا کے درمیان بہتر روابط تاکہ صحافت کو پائیدار اور محفوظ بنایا جا سکے۔
رپورٹ کے مطابق، اگر حکومت اور میڈیا ادارے فوری طور پر اصلاحات کی طرف نہ بڑھے تو صحافت پر دباؤ میں مزید اضافہ ہوگا — اور یہ رجحان نہ صرف آزادیٔ اظہار بلکہ جمہوری عمل کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ثابت ہو سکتا ہے۔