دوسری شادی؛ اداکارہ آمنہ شیخ نے نوجوان لڑکیوں کیلیے اپنی سبق آموز کہانی بتادی
اشاعت کی تاریخ: 24th, October 2025 GMT
معروف اداکارہ اور ماڈل آمنہ شیخ نے نوجوان لڑکیوں کے لیے مثال بننے کے لیے اپنی زندگی کے تلخ تجربات پر کھل کر بات کی ہے۔
آمنہ شیخ نے حالیہ ایک انٹرویو میں پہلی بار ان باتوں کا تذکرہ کیا ہے جس پر گفتگو کرنے سے اکثر کترا جا تی تھیں۔
انھوں نے فخریہ انداز میں بتایا کہ پہلی شادی کی ناکامی کے بعد دوسری شادی والدین کی رضامندی سے ہوئی ہے اور یہ فیصلہ ان کے لیے زندگی بدل دینے والا تجربہ ثابت ہوا۔
اداکارہ آمنہ شیخ نے کھل کر اعتراف کیا کہ پہلی شادی اپنی مرضی سے کی تھی، البتہ میں اُس وقت والدین کی رائے شامل کر لیتی تو شاید زندگی کا سفر کچھ اور ہوتا۔
ان کے بقول محبت میں فیصلہ کرنا آسان لگتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ والدین کی بصیرت اور تجربہ زندگی کے بڑے فیصلوں میں سب سے بڑی رہنمائی ہوتی ہے۔
محب مرزا سے طلاق کے بعد کا وقت یاد کرتے ہوئے اداکارہ آمنہ شیخ نے بتایا کہ علیحدگی کے بعد کا وقت ان کے لیے نہایت مشکل تھا۔ ذہنی دباؤ کا شکار تھیں اور مجھے اپنی چھوٹی بیٹی کی پرورش بھی تن تنہا کرنا تھی۔
آمنہ شیخ نے مزید کہا کہ میں اُس کڑے وقت میں کچھ وقت کے لیے اداکاری چھوڑ کر تمام وقت اپنی بیٹی کے ساتھ وقت گزارنے کا فیصلہ کیا۔
آمنہ شیخ نے رب کائنات کا شکر بجالاتے ہوئے بتایا کہ اللہ اور خاندان کی سپورٹ سے میں آہستہ آہستہ زندگی کی طرف واپس لوٹ آئی۔
انھوں نے مزید کہا کہ پھر میں نے دوسری شادی والدین کے مشورے سے کی جس نے مجھے نہ صرف محبت بلکہ سکون، عزت اور زندگی میں توازن بھی دیا۔
آمنہ شیخ نے نوجوان لڑکیوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اگر کسی کے لیے دل میں جذبات پیدا ہوں تو فوراً فیصلہ نہ کریں۔ پہلے اس کی شخصیت کو سمجھیں، وقت دیں اور والدین کو اعتماد میں لیں۔
انھوں نے نوجوان لڑکیوں کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا کہ محبت صرف دل سے نہیں بلکہ عقل اور تجربے سے بھی کی جاتی ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نے نوجوان لڑکیوں کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
15 ہزار فلسطینی مریض موت و زندگی کی کشمکش میں، فوری علاج کیلیے بیرونِ ملک روانگی ناگزیر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نیویارک: غزہ کی پٹی میں جاری اسرائیلی جارحیت نے صحت کا نظام تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کے مطابق کم از کم 15 ہزار فلسطینی مریض ایسے ہیں جنہیں فوری طور پر بیرونِ ملک منتقل کیے جانے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ ان میں کینسر، دل کے امراض، زخموں اور طویل المیعاد بیماریوں میں مبتلا مریض شامل ہیں، جنہیں علاج کے لیے جانا ہے لیکن اسرائیلی پابندیاں ان کی زندگی کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔
ادارے کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ادھانوم گیبریئس نے بتایا کہ غزہ میں اسپتالوں اور طبی مراکز کی تباہی نے پورے نظامِ صحت کو مفلوج کر دیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ غزہ میں موجود سہولیات اس قدر تباہ ہو چکی ہیں کہ اب مریضوں کا علاج مقامی سطح پر ممکن نہیں رہا۔
گیبریئس کے مطابق چند روز قبل پہلے مرحلے میں 41 مریضوں اور 145 معاونین کو غزہ سے نکالا گیا، مگر اب بھی ہزاروں افراد اجازت کے منتظر ہیں۔ ان مریضوں کی منتقلی میں سب سے بڑی رکاوٹ اسرائیل کی جانب سے رفح راہداری کی بندش ہے، جو غزہ کے عوام کے لیے بیرونی دنیا تک واحد راستہ تھی۔
رفح کراسنگ بند ہونے سے مریض مصر یا اردن کے ذریعے علاج کے لیے مغربی ممالک تک نہیں پہنچ پا رہے۔ ڈبلیو ایچ او نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر سفارتی اور انسانی سطح پر اقدامات کرے تاکہ ان مریضوں کے لیے محفوظ گزرگاہیں کھولی جائیں۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں 65 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور 2 لاکھ سے زائد زخمی ہو چکے ہیں، جن میں نصف خواتین اور بچے شامل ہیں۔ اسپتالوں کی عمارتیں ملبے میں تبدیل ہو گئی ہیں، طبی عملہ شہید یا زخمی ہے اور ادویات ناپید ہو چکی ہیں۔
غزہ کے اسپتال اب محض کھنڈرات کی شکل میں رہ گئے ہیں، جہاں شدید زخمی، بیمار بچے اور بزرگ بغیر علاج تڑپ رہے ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری طور پر ان مریضوں کو باہر منتقل نہ کیا گیا تو ہزاروں زندگیاں مزید ضائع ہو سکتی ہیں۔