ڈکی بھائی کی دوران حراست ویڈیو جاری، یوٹیوبر سے کس طرح کے سوال پوچھے جاتے رہے؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, December 2025 GMT
معروف یوٹیوبر سعد الرحمن المعروف ڈکی بھائی جو غیرقانونی جوا ایپس کے فروغ اور مبینہ منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار تھے، حال ہی میں ضمانت پر رہا ہو گئے ہیں۔ رہائی کے بعد جاری کی گئی اپنی تازہ ویڈیو میں انہوں نے قومی سائبر کرائم ادارے این سی سی آئی کے بعض اہلکاروں پر تشدد، ہراسانی، بلیک میلنگ اور بھاری رقوم کے مطالبات جیسے سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔
ڈکی بھائی نے اپنے تفتیشی افسر ایڈیشنل ڈائریکٹر سرفراز چوہدری جو اس وقت زیرِ حراست ہیں ان پر بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات لگاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ افسر نے ان کی اہلیہ کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی دھمکی دے کر 60 لاکھ روپے کا تقاضا کیا جو ان کے اہلِ خانہ نے مبینہ طور پر ادھار لے کر ادا کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ بعد ازاں مزید ڈیڑھ کروڑ روپے کا مطالبہ کیا گیا اور مزاحمت کی صورت میں مزید مقدمات درج کرنے کی دھمکیاں دی گئیں۔
یہ بھی پڑھیں: ’اپنے 7 سالہ بیٹے سے مجھے گالیاں دلوائیں‘، ڈکی بھائی نے تفتیشی افسر سرفراز چوہدری سے متعلق مزید کیا بتایا؟
اسی دوران سوشل میڈیا پر ڈکی بھائی کی حراست کے دوران بنائی گئی ایک ویڈیو گردش کر رہی ہے جس میں ڈاکٹر عفان قیصر بھی موجود ہیں۔ ویڈیو میں سرفراز چوہدری ڈکی بھائی سے پوچھتے نظر آتے ہیں کہ ’کہا جا رہا ہے کہ ہم نے آپ پر تشدد کیا ہے، کیا ہم نے آپ پر تشدد کیا؟‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ اگر ڈکی بھائی کو ان سے خوف ہے تو وہ کمرے سے باہر چلے جاتے ہیں۔
دوران حراست ویڈیو بنائی گئی، انفلوئنسرز کے سامنے پوچھا گیا کیا ہم نے آپ پر تشدد کیا، مجھ سے خوف ہے تو باہر چلا جاتا ہوں، اب یہ ویڈیو کیوں جاری کی گئی، یہ چل کیا رہا ہے۔۔!!pic.
— Khurram Iqbal (@khurram143) December 9, 2025
ویڈیو سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا صارفین نے اس کے پس منظر، ویڈیو کے وقت، اور دونوں جانب سے سامنے آنے والے بیانات کے تضاد سے متعلق متعدد سوالات اٹھائے ہیں۔ رضوان غلزئی نے سوال کیا کہ اب یہ ویڈیو کیوں جاری کی گئی، یہ چل کیا رہا ہے؟
ڈکی بھائی دوران حراست کی یہ ویڈیو کیوں جاری کی گئی ہے؟ pic.twitter.com/KSAZVXEJ5H
— Rizwan Ghilzai (Remembering Arshad Sharif) (@rizwanghilzai) December 9, 2025
ہارون انجم نے کہا کہ ڈکی بھائی کی دوران حراست بنائی گئی ویڈیو نے کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں کہ کیا دوران تفتیش ملزم کو صحافیوں یا یوٹیوبرز کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے؟
چوہدری سرفراز ڈکی بھائ سے تفتیش کرتے ہوئے
ڈکی بھائی کی دوران حراست بنائی گئی ویڈیو نے کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں کہ
کیا دوران تفتیش ملزم کو صحافیوں یا یوٹیوبرز کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے ؟
رہنمائی درکار ہے pic.twitter.com/FEDSyia1qN
— Haroon Anjum (@_Haroon79) December 9, 2025
اطہر سلیم نے ویڈیو سامنے آنے کے بعد سوال کیا کہ یا تو ڈکی بھائی جھوٹ بول رہا ہے یا ادارہ کیونکہ ڈکی بھائی نے وی لاگ میں کہا کہ اس کے اوپر تشدد کیا گیا جس پرعوام نے ہمدردی دکھائی مگر اس ویڈیو میں تو ڈکی بھائی خود کہہ رہا ہے کہ کوئی تشدد نہیں ہوا۔
ایک اور ویڈیو..! یا تو ڈکی بھائی جھوٹ بول رہا ہے یا ادارہ..!
ڈکی بھائی نے ویلاگ میں کہا کہ اس کے اوپر تشدد کیا گیا، عوام نے ہمدردی دکھائی. مگر یہاں تو ڈکی بھائی خود کہہ رہا ہے کہ کوئی تشدد نہیں ہوا جبکہ چوہدری ش
سرفراز اس سے بات کررہے ہیں..!
ڈاکٹر سموسہ کا وہاں کیا کام بنتا تھا… pic.twitter.com/H9cUWWH7fK
— Ather Salem® (@Atharsaleem01) December 9, 2025
ایک صارف نے کہا کہ یہ ویڈیوز اس بات کا ثبوت ہے کہ ڈکی بھائی کے اوپر کوئی تشدد نہیں ہوا اور اس نے ویڈیو بنا کر ایک کروڑ روپیہ تو کما لیا۔ اب جھوٹی ویڈیو بنا کر ادارے کو اور زیادہ بدنام کرنے پر کیا اس کے خلاف کاروائی ہوگی؟
یہ ویڈیوز اس بات کا ثبوت ہے کہ ڈکی بھائی کے اوپر کوئی تشدد نہیں ہوا اور اس نے جو ویڈیو بنائی، لوگوں کو ایموشنل کر کے ایک کروڑ روپیہ تو کما لیا۔
اب جھوٹی ویڈیو بنا کر ادارے کو اور زیادہ بدنام کرنے پر کیا اس کے خلاف کاروائی ہوگی؟
pic.twitter.com/76zpxvQ8vz
— Adeel Asif Pk ???????? (@AdeelAsifPkOne) December 9, 2025
واضح رہے کہ ڈکی بھائی کو 17 اگست 2025 کو لاہور ایئرپورٹ پر جوا ایپس کے ذریعے منی لانڈرنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ بعد ازاں لاہور ہائیکورٹ نے 10 لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض ان کی درخواست ضمانت منظور کی اور وہ 26 نومبر کو رہا ہوئے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آفان قیصر چوہدری سرفراز ڈکی بھائی ڈکی بھائی کی دوران حراست ویڈیو ڈکی بھائی ویڈیو یوٹیوبرذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا فان قیصر چوہدری سرفراز ڈکی بھائی ڈکی بھائی کی دوران حراست ویڈیو ڈکی بھائی ویڈیو یوٹیوبر ڈکی بھائی کی دوران حراست کوئی تشدد نہیں ہوا تو ڈکی بھائی ڈکی بھائی نے پر تشدد کیا جاری کی گئی یہ ویڈیو کے اوپر کیا گیا کہا کہ ہیں کہ رہا ہے
پڑھیں:
بھیانک چوریوں کے المناک انجام
ملک کے سب سے بڑے شہر میں کھلے ہوئے گٹروں کا ذمے دار ڈھکن چوری کرنے والوں اور نشئی افراد کو قرار دیا جاتا ہے، جو چند روپوں کے حصول کے لیے یہ بھاری ڈھکن کسی نہ کسی طرح چرا لیتے ہیں اور محفوظ مقام پر لے جا کر یہ سیمنٹ سے بنے ڈھکن توڑ کر لوہا نکال لیتے ہیں اور کباڑی کو جا کر فروخت کر دیتے ہیں۔
کباڑی کچھ دیکھے اور پوچھے بغیر لوہا تول کر پیسے دے دیتا ہے جو حاصل کر کے ڈھکن چور اپنی ضرورت پوری کر لیتا ہے اس کی بلا سے جس گٹر سے اس نے لوہے کے حصول کے لیے ڈھکن چرایا ہے اس کھلے ہوئے گٹر میں کوئی معصوم بچہ گر کر ہلاک ہو سکتا ہے۔ کراچی میں تقریباً دو درجن معصوم بچے ان کھلے ہوئے گٹروں میں گر کر جاں بحق ہو چکے ہیں۔ شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ دن کے وقت کوئی بچہ کھلے ہوئے گٹر میں گرے اور خوش قسمتی سے کوئی بڑا دیکھ لے اور بچے کو بچا لے مگر ایسا کم ہی ہوتا ہے کیوں کہ گٹر گہرائی میں بنے ہوتے ہیں اور ان گٹروں پر سیمنٹ کے ڈھکن رکھ کر ذمے داری پوری کر لی جاتی ہے۔
شہر میں اوور ہیڈ برجز بنے ہوئے ہیں، جو لوہے کے ہوتے ہیں جن کی سیڑھیوں اور سڑک کراس کرنے والے راستے کے دونوں طرف لوہے کی گرلیں لگائی جاتی ہیں جن میں استعمال کیا گیا لوہا اتنا کمزور ہوتا ہے جسے باآسانی بازار میں چند روپوں میں ملنے والی آری کے بلیڈ سے کاٹ لیا جاتا ہے۔ اس لوہا چوری میں بھی بے روزگار افراد یا نشئی ملوث ہوتے ہیں اور یہ لوہا چوری کرکے کباڑیوں کو جا کر فروخت کر دیتے ہیں اور کباڑی سب کچھ جانتے ہوئے لوہا سستے داموں خرید لیتے ہیں۔ کباڑیوں کو یہ لوہا کوڑیوں کے مول مل جاتا ہے اور وہ جو رقم لوہا چور کو دیتے ہیں وہ بغیر مول تول کیے لے کر اپنی ضرورت پوری کر لیتا ہے۔
یہ لوہا خریدنے والے کباڑیوں کو پتا ہوتا ہے کہ سیمنٹ لگا یہ سریا گٹروں کے سیمنٹ کے ڈھکن توڑ کر حاصل کیا گیا ہے اور صاف سریا اوورہیڈ پلوں کا ہے جو چوری کرکے لایا گیا ہے مگر اسے کوئی غرض نہیں ہوتی کیوں کہ کباڑیوں کو اونے پونے لوہا اور لوہا چوروں کو رقم مل جاتی ہے اور دونوں اپنا اپنا مفاد مقدم رکھتے ہیں۔ اخبارات میں کھلے ہوئے گٹروں اور اوور ہیڈ پلوں کی سائیڈوں سے غائب لوہے کی تصاویر آئے دن شایع ہوتی رہتی ہیں اور یہ چوریاں عام ہو چکی ہیں اور یہ چوریاں کرنے والے شاید یہ جانتے بھی ہوں کہ ان کی یہ چوریاں کتنی بھیانک ہو سکتی ہیں۔
پہلے گٹروں پر لوہے کے بھاری اور بڑے ڈھکن بھی لگائے جاتے تھے جن کو بنوانے پر زیادہ لاگت آتی تھی اور وہ بھی چوری ہو جاتے اور کباڑیوں کے پاس فروخت بھی زیادہ رقم میں ہو جاتے تھے اور گول ہوتے تھے جو بیڑ کے بھی بنے ہوتے تھے اور لوہے کے چوکور ڈھکن بھی گٹروں پر آہنی فریم میں پھنسا کر لگائے جاتے تھے جو لوہے کی موٹی چادروں سے بنوائے جاتے وہ بھی محفوظ نہیں تھے اور چرا لیے جاتے ہیں۔ کباڑی بیڑ کے گول ڈھکن خود توڑ کر آگے فروخت کر دیتے تھے جو لوہے کے مقابلے میں کم نرخوں پر فروخت ہوتے تھے۔
پہلے اخبارات میں ریلوے لائنوں کو جوڑنے والی پلیٹوں اور انھیں مضبوط کرنے کے لیے لوہے کے موٹے نٹ بولٹ لگائے جاتے تھے جن کو کھولنا نہیں ہوتا تھا مگر پھر بھی لوہا چور کسی نہ کسی طرح انھیں کھول کر کباڑیوں کو فروخت کر دیتے تھے جس سے لوہے کی پٹریاں غیر محفوظ ہو جاتی تھیں اور ٹرینوں کو حادثات کا خطرہ رہتا تھا۔ یہ کام عام چور نہیں بلکہ تخریب کار کرتے تھے جو پٹریاں تک اکھاڑ دیتے تھے تاکہ ٹرینیں حادثات کا شکار ہو جائیں اور مسافروں کا جانی نقصان ہو۔ یہ خبریں بھی اخباروں میں شایع ہوتی تھیں مگر یہ بھیانک تخریب کاری کرنے والے ملک دشمن یا پیسے کے لیے یہ سب کچھ کرتے تھے اور بلوچستان میں ایسے کئی واقعات ہوئے۔
لوہا چوریوں میں سب سے آسان کام گٹروں کے ڈھکن چوری کا ہے جس کی وجہ سے حب کے علاقے میں وہاں کی بلدیہ نے پتھروں کے ڈھکن بنوا کر گٹروں پر لگوائے جو چوری نہیں ہوتے تھے۔ کراچی میں جماعت اسلامی کے بعض ٹاؤن چیئرمینوں نے ایسے گٹروں کے ڈھکن بنوائے جو لوہے کے نہیں ہیں۔ مضبوط بھی ہیں اور چوری بھی نہیں ہوتے۔
واٹر بورڈ یا ٹاؤن کونسلیں ٹھیکوں پر لوہے سیمنٹ کے جو ڈھکن بنواتے ہیں ان میں سریا اور سیمنٹ کم استعمال ہونے سے وہ معیاری اور مضبوط نہیں ہوتے اور کسی عام گاڑی کی زد میں آ کر ٹوٹ جاتے ہیں اور گٹروں میں گر جاتے ہیں۔ کراچی میں سڑکوں کے درمیان لگے یہ ڈھکن بھاری ٹریفک کا لوڈ برداشت نہیں کرتے اور ٹوٹ جاتے ہیں ایسا ہی نیپا چورنگی پر لگے گٹر کا ڈھکن ٹوٹا اور المناک واقعہ پیش آیا جس نے کے ایم سی اور سندھ حکومت کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
گٹروں کے ڈھکنوں اور اوورہیڈ برجز پر لگی آہنی گرلوں کی چوری یوں تو عام بات ہے مگر حقیقت میں یہ بھیانک اور مذموم چوریاں بن چکی ہیں جن کا انجام المناک اور بچوں کی اموات کا سبب بن چکا ہے اور بلدیاتی ادارے ڈھکن چوری کرنے والوں کو ذمے دار قرار دے کر جان چھڑا لیتے ہیں مگر کمزور ڈھکن بنوانے والے محفوظ رہتے ہیں اور نہ کبھی ڈھکن چور پکڑے جاتے ہیں جن کی وجہ سے یہ عام چوریاں بھیانک اور جان لیوا بن چکی ہیں جن میں گرنے سے بچوں کی اموات ہو رہی ہیں۔
بلدیاتی ادارے ان عام چوریوں کو المناک حادثات کا باعث سمجھیں اور گٹروں کے ڈھکن پتھروں یا کسی اور چیز سے بنوائیں جو چوری نہ ہو سکیں۔ گٹروں کے ڈھکن کے باعث ہونے والی ہلاکتیں کراچی کا اہم مسئلہ بن چکی ہیں جب کہ اوور ہیڈ برجز سے گرلز کی چوریاں جان لیوا بھی بن سکتی ہیں مگر گٹروں کے ڈھکنوں کی چوریاں عام مگر سنگین مسئلہ بن چکی ہیں جس کی روک تھام کے لیے صوبائی سطح پر اقدامات ضروری ہو چکے ہیں ورنہ نہ جانے کتنے اور ابراہیم ان چوریوں میں جان گنواتے رہیں گے۔