چیئرمین جناح ٹائون رضوان عبدالسمیع امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر کے ہمراہ جناح ٹائون میں منعقدہ 4روزہ پھولوںکی نمائش کاافتتاح کرتے ہوئے

کراچی(اسٹاف رپورٹر) امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے کہا کہ کراچی ترقی کرے گا تو ملک آگے بڑھے گا ، کراچی پورے ملک میں سب سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے ، اس شہر کے اندر بڑا ٹیلنٹ اور پوٹینشل موجود ہے مگر بد قسمتی سے کوئی حکومت اور حکمران پارٹی کراچی کو اُون نہیں کرتی ، عوام بجلی ، پانی سڑکوں و انفرا اسٹرکچر کی تباہ حالی اور ٹرانسپورٹ سمیت بے شمار مسائل کا شکار ہیں ، کراچی کے منصوبوں کی تکمیل کی کوئی حتمی ڈیڈ لائین مقرر نہیں ، کئی کئی سال تعمیراتی کام مکمل نہیں ہوتے اور عوام مسائل میں کمی کے بجائے اذیت اور مشکلات میں پھنسے رہتے ہیں ۔ لاہور میٹرو 11ماہ ، ملتان میٹرو 13ماہ ، راولپنڈی میٹرو 20ماہ میں مکمل ہو جاتی ہے لیکن ایک ریڈ لائین پروجیکٹ کو 3 سال ہو گئے ہیں ،اس کی تکمیل دور دور تک نظر نہیں آرہی ، کراچی کی موجودہ ابتر حالت پیپلز پارٹی کی16سالہ بدترین حکمرانی کا منہ بولتا ثبوت ہے ، قابض میئر اب تک شہر میں گٹر کے ڈھکن تک نہ لگا سکے اور کراچی کے بچے گٹروں میں گر کر اپنی جان گنوا رہے ہیں ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو ٹائون میونسپل کارپوریشن جناح ٹائون کے تحت یوسی 4میں نیو ایم اے جناح روڈ پر ’’ میر عثمان علی پردہ پارک میں پھولوں کی 5روزہ نمائش ‘‘کے افتتاح کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ تقریب سے امیر ضلع قائدین انجینئر عبد العزیز ، ٹائون چیئر مین رضوان عبد السمیع ، پارکس کمیٹی کے انچارج حماس قریشی نے بھی خطاب کیا جبکہ نظامت وائس یوسی چیئر مین ضیاء نے کی ۔ اس موقع پر وائس ٹائون چیئر مین حامد نواز، سیکرٹری ضلع نعمان حمید ، ٹائون کوآر ڈی نیٹر ولید احمد ، سینئر ڈپٹی سیکرٹری صہیب احمد ،یوسی چیئر مین رائو عاطف قریشی ، ٹائون آفیسر محمد سلیم ،مرد وخواتین اور بچوں سمیت علاقہ مکینوں کی بڑی تعداد موجود تھی ۔ منعم ظفر خان نے فیتہ کاٹ کر نمائش کا افتتاح کیا ، پارک آمد پر ان کا شاندار استقبال کیا گیا اور پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں ۔ پورے پارک کو برقی قمقموں اور دیگر رنگ برنگے غباروں سے بھی سجایا گیا تھا خوبصورت پھولوں اور سجاوٹ کے ساتھ پورا پارک قابل ِ دید کا منظر پیش کر رہا تھا ، علاقہ مکینوں نے جماعت اسلامی کے منتخب نمائندوں کی کوششوں کو سراہا اور زبردست خراج تحسین پیش کیا ۔ حماس قریشی نے منعم ظفر خان ، انجینئر عبد العزیز اور رضوان عبد السمیع کو گلدستہ پیش کیا ۔ منعم ظفر خان نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ سندھ حکومت اور قابض میئر کی جانب سے اختیارات نچلی سطح تک منتقل نہ کرنے اور ٹائون اور یوسیز کو ترقیاتی اسکیموں میں ان کا جائز و قانونی حق اور فنڈز نہ دینے کے باوجود جماعت اسلامی نے 9ٹائونز میں مثالی عوامی خدمات انجام دی ہیں اور مختصر وقت میں 125پارکوں کو بحال کر کے عوام کے لیے کھولا ہے ، 44ہزار اسٹریٹ لائٹس نصب کیں ، اوپن ایئر جم اور روڈ سائیڈ اربن فارسٹ کا تصور پیش کیا اور شجر کاری کی ۔ واٹر کارپوریشن اور قابض میئر کی جانب سے گٹر کے ڈھکن فراہم نہیں کیے گئے لیکن ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنے ٹائون اور یوسیز میں 15ہزار مین ہولز کور فراہم کیے ۔ پیور بلاکس سے سڑکیں اور گلیاں تعمیر کیں اور عوام سے وعدے کے مطابق اختیارات و وسائل سے بڑھ کر کام کیا ۔ جماعت اسلامی نے مسلسل اور ہر محاذ پر اہل کراچی کا مقدمہ لڑا ہے اور مسئلے کے حل کے لیے عوام کی موثر اور توانا آواز بنی ہے ۔ منعم ظفر خان نے ٹائون چیئر مین اور ان کی پوری ٹیم ، ٹائون میونسپل کارپوریشن کے مختلف شعبوں ، پارک ڈیپارٹمنٹ کے ذمہ داران کی کوششوں کی تعریف کی اور ان کی جانب سے عوام کے لیے ٹائون میں مختصر وقت میں پارکوں کی بحالی اور پھولوں کی نمائش منعقد کرانے پر مبارکباد بھی پیش کی ۔ انجینئر عبد العزیز نے کہا کہ جماعت اسلامی کے جناح ٹائون نے عوام سے کیا گیا ایک اور وعدہ پورا کیا ہے اور ان حالات میں جب عوام بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بجلی و پانی سمیت مختلف مسائل کا شکار ہیں ‘ ان کے لیے پھولوں کی نمائش اور پارک میں ہرے بھرے درخت اور پودے لگا کر نیکی اور عوامی خدمت کا بہت بڑا کام کیا ہے ، ان کی کوششوں سے علاقہ مکینوں کے چہرے خوشی اور مسرت سے چمک رہے ہیں ۔ رضوان عبد السمیع نے کہا کہ ہماری پوری ٹیم کی دن رات محنت اور کوششوں کے بعد اب اس پردہ پارک میں خوبصورت مناظر نظر آرہے ہیں اور پورا پارک گل ِ گلزار بنا ہوا ہے ، ہم نے عوام سے جو بھی وعدہ کیا ہے اپنے محدود وسائل و اختیارات نہ ہونے کے باوجود ان کو پورا کریں گے اور عوام کے درمیان ہمیشہ موجود رہیں گے ۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جماعت اسلامی جناح ٹائون رضوان عبد چیئر مین اور عوام پیش کی کے لیے کہا کہ

پڑھیں:

پاکستان کرکٹ زندہ باد

کراچی:

’’ ہیلو، میچ دیکھ رہے ہو ٹی وی پر، اگر نہیں تو دیکھو کتنا کراؤڈ ہے،ٹکٹ تو مل ہی نہیں رہے تھے ، بچے، جوان، بوڑھے سب ہی قذافی اسٹیڈیم میں کھیل سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، مگر تم لوگ تو کہتے ہو پاکستان میں کرکٹ ختم ہو گئی، اس کا حال بھی ہاکی والا ہو جائے گا،لوگ اب کرکٹ میں دلچسپی ہی نہیں لیتے۔ 

اگر ایسا ہے تو لاہور کا اسٹیڈیم کیوں بھرا ہوا ہے؟ راولپنڈی میں ہاؤس فل کیوں تھا؟ میری بات یاد رکھنا کرکٹ پاکستانیوں کے ڈی این اے میں شامل ہے، اسے کوئی نہیں نکال سکتا۔ 

اگر کسی بچے کا امتحان میں رزلٹ اچھا نہ آئے تو گھر والے ناراض تو ہوتے ہیں مگر اسے ڈس اون نہیں کر دیتے، اگر اس وقت برا بھلا ہی کہتے رہیں تو وہ آئندہ بھی ڈفر ہی رہے گا لیکن حوصلہ افزائی کریں تو بہتری کے بہت زیادہ چانسز ہوتے ہیں، اس لیے اپنی ٹیم کو سپورٹ کیا کرو۔ 

تم میڈیا والوں اور سابق کرکٹرز کا بس چلے تو ملکی کرکٹ بند ہی کرا دو لیکن یہ یاد رکھنا کہ اسپورٹس میڈیا ،چینلز اور سابق کرکٹرز کی بھی اب تک روزی روٹی اسی کھیل کی وجہ سے ہے، اگر یہ بند تو یہ سب کیا کریں گے؟

بات سمجھے یا نہیں، اگر نہیں تو میں واٹس ایپ پر اس میچ میں موجود کراؤڈ کی ویڈیو بھیجوں گا وہ دیکھ لینا،پاکستان میں کرکٹ کبھی ختم نہیں ہو سکتی، پاکستان کرکٹ زندہ باد ‘‘ ۔

اکثر اسٹیڈیم میں موجود دوست کالز کر کے میچ پر ہی تبصرہ کر رہے ہوتے ہیں لیکن ان واقف کار بزرگ کا فون الگ ہی بات کیلیے آیا، وہ میرے کالمز پڑھتے ہیں، چند ماہ قبل کسی سے نمبر لے کر فون کرنے لگے تو رابطہ قائم ہو گیا، میں نے ان کی باتیں سنیں تو کافی حد تک درست لگیں۔ 

ہم نے جنوبی افریقہ کو ٹی ٹوئنٹی سیریز میں ہرا دیا، واقعی خوشی کی بات ہے لیکن اگر گزشتہ چند برسوں کا جائزہ لیں تو ٹیم کی کارکردگی خاصی مایوس کن رہی ہے،خاص طور پر بڑے ایونٹس میں تو ہم بہت پیچھے رہے، شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیں ایسا لگنے لگا کہ خدانخواستہ اب ملکی کرکٹ اختتام کے قریب ہے، کوئی بہتری نہیں آ سکتی،لوگوں نے کرکٹ میں دلچسپی لینا ختم کر دی ہے۔ 

البتہ ٹھنڈے دل سے سوچیں تو یہ سوچ ٹھیک نہیں لگتی، اب بھی یہ پاکستان کا سب سے مقبول کھیل ہے، اربوں روپے اسپانسر شپ سے مل جاتے ہیں، کرکٹرز بھی کروڑپتی بن چکے، اگر ملک میں کرکٹ کا شوق نہیں ہوتا تو کوئی اسپانسر کیوں سامنے آتا؟

ٹیم کے کھیل میں بہتری لانے کیلیے کوششیں لازمی ہیں لیکن ساتھ ہمیں بھی اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہمیں نجم سیٹھی یا ذکا اشرف پسند نہیں تھے تو ان کے دور میں کرکٹ تباہ ہوتی نظر آتی تھی، آج محسن نقوی کو جو لوگ پسند نہیں کرتے وہ انھیں قصور وار قرار دیتے ہیں۔ 

اگر حقیقت دیکھیں تو ہماری کرکٹ ان کے چیئرمین بننے سے پہلے بھی ایسی ہی تھی، پہلے ہم کون سے ورلڈکپ جیت رہے تھے، ہم کو کپتان پسند نہیں ہے تو اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں، سب کو اپنا چیئرمین بورڈ، کپتان اور کھلاڑی چاہیئں، ایسا نہ ہو تو انھیں کچھ اچھا نہیں لگتا۔

یقینی طور پر سلمان علی آغا کو بطور کھلاڑی اور کپتان بہتری لانے کی ضرورت ہے لیکن جب وہ نہیں تھے تو کیا ایک، دو مواقع کے سوا ہم بھارت کو ہمیشہ ہرا دیتے تھے؟

مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے دور میں لوگوں کی ذہن سازی آسان ہو چکی، پہلے روایتی میڈیا پھر بھی تھوڑا بہت خیال کرتا تھااب تو چند ہزار یا لاکھ روپے دو اور اپنے بندے کی کیمپئن چلوا لو، پہلے پوری ٹیم پر ایک ’’ سایا ‘‘ چھایا ہوا تھا، اس کی مرضی کے بغیر پتا بھی نہیں ہلتا تھا، نئے کھلاڑیوں کی انٹری بند تھی۔ 

پھر برطانیہ سے آنے والی ایک کہانی نے ’’ سائے ‘‘ کو دھندلا کر دیا لیکن سوشل میڈیا تو برقرار ہے ناں وہاں کام جاری ہے، آپ یہ دیکھیں کہ علی ترین سالانہ ایک ارب 8 کروڑ روپے کی پی ایس ایل فرنچائز فیس سے تنگ آکر ری بڈنگ میں جانا چاہتے ہیں۔

لیکن سوشل میڈیا پر سادہ لوح افراد کو یہ بیانیہ سنایا گیا کہ وہ تو ہیرو ہے، ملتان سلطانز کا اونر ہونے کے باوجود لیگ کی خامیوں کو اجاگر کیا اس لیے زیرعتاب آ گیا۔ 

یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ یہ ’’ ہیرو ‘‘ اس سے پہلے کیوں چپ تھا،ویلوایشن سے قبل کیوں یہ یاد آیا،اسی طرح محمد رضوان کو اب اگر ون ڈے میں کپتانی سے ہٹایا گیا تو یہ خبریں پھیلا دی گئیں کہ چونکہ اس نے 2 سال پہلے پی ایس ایل میں سیروگیٹ کمپنیز کی تشہیر سے انکار کیا تو انتقامی کارروائی کی گئی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا والوں نے اسے سچ بھی مان لیا، کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ بھائی واقعہ تو برسوں پہلے ہوا تھا اب کیوں سزا دی گئی اور اسے ٹیم سے تونکالا بھی نہیں گیا، یا اب تو پی ایس ایل نہ ہی پاکستانی کرکٹ کی کوئی سیروگیٹ کمپنی اسپانسر ہے، پھر کیوں کسی کو رضوان سے مسئلہ ہے؟

پی سی بی والے میرے چاچا یا ماما نہیں لگتے، میں کسی کی حمایت نہیں کر رہا لیکن آپ ہی بتائیں کہ گولیمار کراچی میں اگر ایک سابق کپتان کا سیروگیٹ کمپنی کی تشہیر والا بل بورڈ لگا ہے تو اس سے پی سی بی کا کیا تعلق۔ 

خیر کہنے کا مقصد یہ ہے کہ چیئرمین محسن نقوی ہوں یا نجم سیٹھی، کپتان سلمان علی آغا ہو یا بابر اعظم اس سے فرق نہیں پڑتا، اصل بات پاکستان اور پاکستان کرکٹ ٹیم ہے، اسے دیکھیں، شخصیات کی پسند نا پسندیدگی کو چھوڑ کر جو خامیاں ہیں انھیں ٹھیک کرنے میں مدد دیں۔

میں بھی اکثر جوش میں آ کر سخت باتیں کر جاتا ہوں لیکن پھر یہی خیال آتا ہے کہ اس کھیل کی وجہ سے ہی میں نے دنیا دیکھی، میرا ذریعہ معاش بھی یہی ہے، اگر کبھی اس پر برا وقت آیا تو مجھے ساتھ چھوڑنا چاہیے یا اپنے طور پر جو مدد ہو وہ کرنی چاہیے؟

ہم سب کو بھی ایسا ہی سوچنے کی ضرورت ہے، ابھی ہم ایک سیریز جیت گئے، ممکن ہے کل پھر کوئی ہار جائیں لیکن اس سے ملک میں کرکٹ ختم تو نہیں ہو گی، ٹیلنٹ کم کیوں مل رہا ہے؟ بہتری کیسے آئے گی؟

ہمیں ان امور پر سوچنا چاہیے، اگر ایسا کیا اور بورڈ نے بھی ساتھ دیا تو یقین مانیے مسائل حل ہو جائیں گے لیکن ہم جذباتی قوم ہیں، یادداشت بھی کمزور ہے، دوسروں کو کیا کہیں ہو سکتا ہے میں خود کل کوئی میچ ہارنے پر ڈنڈا (قلم یا مائیک) لے کر کھلاڑیوں اور بورڈ کے پیچھے پڑ جاؤں، یہ اجتماعی مسئلہ ہے جس دن حل ہوا یقینی طور پر معاملات درست ہونے لگیں گے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

متعلقہ مضامین

  • کراچی:سائٹ ٹائون میں مزید 14 بچوں کے ایچ آئی وی سے متاثر ہونے کا انکشاف
  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • کراچی میں سڑکیں ٹھیک نہیں لیکن بھاری ای چالان کیے جارہے ہیں، حافظ نعیم
  • کراچی کے پارک میں سیکڑوں مردہ کوؤں کی ویڈیو، اصل ماجرا سامنے آگیا
  • بلال مقصود نے سوشل میڈیا پر کراچی کے پارک میں موجود مردہ کوؤں کی ویڈیو شیئر کردی، یہ ماجرا کیا ہے؟
  • لانڈھی ٹائون میں چاروں طرف ترقیاتی کاموں کا جال بچھا رہے ہیں ‘عبدالجمیل
  • پیپلز پارٹی نااہلی اور کرپشن کا امتزاج، احتجاجی مہم کا آغاز کر دیا۔ منعم ظفر خان
  • پاکستان کسی وڈیرے، جاگیردار، جرنیل، حکمران کا نہیں، حافظ نعیم
  • پیپلزپارٹی نے کراچی کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی‘پی ٹی آئی
  • امانت و دیانت، عوامی خدمت اور شہر کی تعمیر و ترقی جماعت اسلامی کا وژن ہے، منعم ظفر