یوٹیوب ، ٹک ٹاک اور فیس بک پر پابندی ، عدالت سے بڑی خبر آگئی WhatsAppFacebookTwitter 0 11 January, 2025 سب نیوز

لاہور(آئی پی ایس)لاہور ہائی کورٹ میں یوٹیوب، فیس بک، ٹک ٹاک پر فوری پابندی عائد کرنے کے لیے درخواست دائر کردی گئی۔
تفصیلات کے مطابق شہری اسلم نے ایڈووکیٹ ندیم سرور کے توسط سے دائر کی گئی درخواست میں وفاقی حکومت اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کو فریق بنایا ہے۔
درخواست گزار نے پٹیشن میں مؤقف اختیار کیا کہ پاکستان میں ہر دوسرے شخص کا یوٹیوب چینل ہے، جسے وہ بلیک میلنگ کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ غیر اخلاقی ویڈیوز اپ لوڈ کر کے وِیوز لیے جارہے ہیں اور پیسہ کمایا جا رہا ہے، یوٹیوب اور فیس بک پر بغیر کسی لائسنس کے کسی بھی قسم کی ویڈیو اپ لوڈ کی جا سکتی ہے۔

درخواست گزار کے مطابق یوٹیوب، فیس بک، انسٹا گرام، ٹک ٹاک پر فیک ویڈیوز اپ لوڈ ہو رہی ہیں، جبکہ یوٹیوبرز اپنے ولاگز میں اپنے گھروں کی خواتین کو دکھا رہے ہیں جو کہ خاندانی نظام تباہ کرنے کے مترادف ہے۔
شہری نے استدعا کی کہ لاہور ہائی کورٹ سٹیزن پروٹیکشن رولز پر عملدرآمد کرنے کا حکم دے، لاہور ہائی کورٹ سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمز بند کرنے کا حکم جاری کرے۔

.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: فیس بک

پڑھیں:

ممبئی ٹرین دھماکہ

ڈاکٹر سلیم خان

وزیر اعظم نریندر مودی کے گیارہ سالہ تاریک دور اقتدارکی سنہری لکیر ممبئی ٹرین دھماکے کے گیارہ بے گناہ قیدیوں کے باعزت رہائی ہے۔ مودی کے زمانے کو محض اس لیے نہیں یاد کیا جائے گا کہ بلقیس بانو کے ساتھ ظلم کرنے والوں پر رحم کھاکر رہا کردیا گیابلکہ عدالتِ عظمیٰ کے ذریعہ ان لوگوں کا رسوا ہو کرجیل لوٹنا بھی یادگارہو گا۔ سابق رکن پارلیمان سادھوی پرگیہ ٹھاکر کی خاطر خود وزارتِ داخلہ کے تحت کام کرنے والی این آئی اے کا سخت سے سخت سزا یعنی پھانسی کا مطالبہ مودی یُگ کا وہ معجزہ ہے جس کا تصور محال تھا ۔ اس فیصلے نے وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس کو بے چین کردیا ہے ۔ مہاراشٹر کی صوبائی حکومت عدالتِ عالیہ کے خلاف سپریم کورٹ میں جارہی ہے لیکن وہاں فیصلہ جو بھی ہو پرگیہ کے لیے پھانسی مطالبہ اور ٹرین دھماکے میں گرفتار بے گناہ قیدیوں کی رہائی چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ ہر مسلمان دہشت گرد نہیں اور نہ تمام ہندو بھی دیش بھگت ہیں۔ ممبئی ٹرین دھماکہ معاملہ میں دیر سے سہی مگر انصاف تو ملا۔
11 جولائی 2006 کو ممبئی کی لوکل گاڑیوں میں ٧سلسلہ وار بم دھماکے ہوئے تھے جن میں 180 سے زائد افراد کی موت اور تقریباً 800 لوگ زخمی ہوگئے ۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ نے ممبئی آکر سوگواروں کے آنسو پونچھے اور جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کا وعدہ کیاتھا۔ آگے چل کر انتظامیہ نے 13 مسلم نوجوانوں پر دھماکہ کرنے کا الزام لگا کر گرفتار کرلیا۔ ان میں سے کمال انصاری تو فیصلے سے قبل دارِ فانی سے کوچ کرگئے ۔ ان کے علاوہ محمد فیصل عطاء الرحمن شیخ’ احتشام قطب الدین صدیقی’ نوید حسین خان ، آصف خان ،تنویر احمد محمد ابراہیم انصاری’ کو سیشن کورٹ نے 2015 میں پھانسی کی سزا سنادی نیز باقی ٧ محمد ماجد محمد شفیع’ شیخ محمد علی عالم شیخ’ محمد ساجد مرغوب انصاری’ مزمل عطاء الرحمن شیخ’ سہیل محمود شیخ ،ضمیر احمد لطیف الرحمن شیخ کوعمرقید کی سزا سنائی گئی نیز وحید شیخ کو بری کردیا گیا۔ مذکورہ بالا فیصلے کو عدالتِ عالیہ میں چیلنج کیا تو اگلے نو سالوں تک سماعت ہی نہیں ہوئی اور بالآخر 19 برس بعد بمبئی ہائی کورٹ نے تمام 12 ملزمین کو بری کردیا کیونکہ استغاثہ کیس کو ثابت کرنے میں بری طرح ناکام رہا۔
جسٹس انیل کلور اور جسٹس شیام چنڈک کی خصوصی بنچ نے بہت تفصیل و انہماک کے ساتھ یہ فیصلہ لکھا جس کا لب لباب یہ ہے کہ استغاثہ یہ تک نہیں ثابت کر سکا کہ آخر کس قسم کے بم استعمال کئے گئے تھے ۔ اس کے ذریعہ جو شواہد پیش کیے گئے ان کی بنیاد پر ملزمین کو خاطی نہیں قراردیاجاسکتا ہے ۔اس کے علاوہ گواہوں کے بیانات اور ملزمین سے مبینہ برآمدگی ہائی کورٹ کو مطمئن نہیں کرسکی استغاثہ یعنی پولیس کی بابت یہ انکشاف کیاگیا کہ وہ اہم گواہوں پر جرح میں ناکام رہا۔ اس نے نہ تو برآمدکردہ اشیاء کی ٹھیک سے مہربندی کی تھی اور نہ ہی انہیں سنبھال کر رکھا تھا۔ ہائی کورٹ نے بعض ملزمین کے اقبالیہ بیانوں کو بھی یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ وہ انہیں اذیت دے کر لئے گئے تھے نیز ناکافی اور جھوٹے تھے ۔ یہ ایک دوسرے کے کاپی پیسٹ بھی پائے گئے ۔ عدالت کے مطابق ملزمین نے ثابت کردیا کہ اقبال ِ جرم کرواتے وقت انہیں اذیت دی گئی تھی۔ یعنی پولیس کے جھوٹ کی ہانڈی بھری عدالت میں پھوٹ گئی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں تکنیکی لاپرواہیوں پر بھی گرفت کی ۔ جج صاحبان نے ملزمین کی شناختی پریڈ کواس بنیاد پر مسترد کردیا کہ پولیس کے جن عہدیداروں نے یہ پریڈ کرائی انہیں اس کا اختیار ہی نہیں تھا۔ عدالت نے شواہد کی گواہی کو اس لیے قبول کرنے سے انکار کردیا کیونکہ عینی شاہدین نے پولیس کے سامنے واقعہ کے 4 ماہ بعد ملزمین کی شناخت تھی اور عدالت میں اس کی نوبت 4 سال بعدآئی۔ عدالت نے اس حقیقت کی جانب بھی انگشت نمائی کی کہ واقعہ کے دن تو گواہوں کے لیے ملزمین کو اچھی طرح دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملا تھا اس لیے ان سے درست شناخت کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے ؟ تعجب کی بات یہ ہے اتنی بڑی خامیوں کی جانب سیشن کورٹ کی توجہ کیوں نہیں گئی؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عام طور ایسے نازک معاملات میں نچلی عدالتیں گہرائی جانے کے بجائے انتظامیہ کی تائید کردیتی ہیں لیکن خدا کا شکر ہے عدالتِ عالیہ نے اپنی ذمہ داری بخیر و خوبی ادا کی۔ یہی وجہ ہے کہ مہاراشٹر کی مختلف جیلوں قید ملزمین نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ عدالت اور وکیلوں کا شکریہ ادا کیا۔
ہائی کورٹ کے اس فیصلے سے جہاں بے قصور قیدیوں کے اہل خانہ اور سماج کے سارے عدل پسند لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی وہیں مسلمانوں سے نفرت کرنے والے زعفرانی تلملا اٹھے ۔ دھماکے سے متاثرین کو چونکہ باور کرادیا گیا تھا کہ یہی ملزمین دھماکے کے مجرم بھی ہیں اس لیے فیصلے سے مایوسی ہوئی ۔ اب وہ سوال کررہے ہیں کہ اگر یہ لوگ بے قصور ہیں آخر اصلی مجرم کون ہے ؟ اتفاق سے شیو سینا
( شندے ) کے ترجمان سنجے نروپم نے بھی ایسے ہی سوالات کیے ۔ انہوں نے فیصلہ پر مایوسی کا اظہار کرنے کے بعد کہا کہ اگر ان ملزمین میں سے کوئی بھی سلسلہ وار ٹرین بم دھماکہ کے لئے ذمہ دار نہیں ہے تو پھر یہ بم دھماکے کس نے کئے ؟کیا ہماری جانچ ایجنسی کے کام میں کوئی کمی رہ گئی ہے ؟ انہوں نے جانچ ایجنسی سے پوچھا کہ کیاجن ملزمین کو انہوں نے پکڑا تھا ان کے خلاف ضروری ثبوت نہیں ملے تھے ؟کیاوہ ثبوت جمع نہیں کر سکے تھے ؟
سنجے نروپم نے امید ظاہر کی ہے کہ حکومت اور جانچ ایجنسی بامبے ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کے خلاف اونچی عدالت جائے گی لیکن سوال یہ ہے کہ ان جعلی شواہد کی بنیاد پر بے قصور لوگوں کو سزا دلوانے کے بجائے کیا اصلی مجرموں کو پہچانا جاسکے گا؟ بی جے پی کے ترجمان کریٹ سومیا صدمہ میں ہیں اور ممبئی کے شہریوں کی خاطر انصاف کی خاطردھماکہ کرنے والے دہشت گردوں کو پھانسی پر لٹکانا چاہتے ہیں مگر اس کے لیے کسی بے قصور کے بجائے قصور وار کی شناخت لازمی ہے ۔ وزیر محصولات چندر کانت باونکلے نے کہا کہ ”اس معاملے میں وزیر اعلیٰ سے بات چیت کے دوران کمیوں کو دور کر کے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے پرغور و خوض کیا جائے گا ۔ این سی پی(شردپوار ) کے ریاستی صدر ششی کانت شندے نے اس معاملے میں حکومت اور ایجنسی کو جائزہ لے کر سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کی رائے دی ۔ سماجوادی پارٹی نے اس فیصلہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے بری ہونے والے سبھی لوگوں کو معاوضہ دینے کا مطالبہ کردیاکیونکہ جھوٹے الزام میں گرفتار کر کے حکومت نے ان کے 19سال ضائع کردیئے ۔
اس بابت سماجوادی پارٹی کے رکن اسمبلی رئیس شیخ نے کہا کہ ” ہم بامبے ہائی کورٹ کے فیصلہ کا خیر مقدم کرتے ہیں اور شکریہ ادا کرتے ہیں کہ اس نے ان نوجوانوں کو انصاف دیا”۔ انہوں نے سوال کیا کہ ” حکومت کیسے کسی بے گناہ کو اس طرح قید میں رکھ کر ان کی عمر کے بیش قیمتی 19 سال ضائع کر دیئے ؟ وہ بولے ” جاپان میں ایک شخص کو با عزت بری کیاگیاتو وہاں کی حکومت نے اس نوجوان کو نہ صر ف معاوضہ دیا بلکہ معافی بھی مانگی۔ دیگر ممالک میں جس طرح ملزمین کوبے قصور ثابت ہونے پر حکومت کی جانب سے معاوضہ دیاجاتا ہے اسی طرح حکومت مہاراشٹر کو بھی ان12 بے گناہوں کو معاوضہ دینا چاہئے ۔” ممبئی کانگریس کی صدر و رکن پارلیمان ورشا گائیکواڑ نے بامبے ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے توازن قائم کرنے کی ناکام کوشش کی۔ موصوفہ نے کہا کہ”ہمیں عدلیہ پر پورا بھروسہ ہے نیز ممبئی کے دیگر شہریوں کی طرح ہمارا بھی یہی مطالبہ ہے کہ ممبئی ٹرین بم دھماکے کے جو بھی اصل مجرم ہیں انہیں یقینی طور پر سخت سے سخت سزا دی جائے یعنی جعلی مجرمین پر نزلہ نہ اتارا جائے ۔
ورشا گائیکواڑ نے ریاستی حکومت سے درخواست کی کہ وہ مجرمین کے خلاف ضروری ثبوتوں اور دستاویزات کے ساتھ سپریم کورٹ میں اپیل کرے کیونکہ جب بھی اس طرح کا دہشت گردانہ حملہ ہوتا ہے تواس میں بے گناہ شہریوں کی جان جاتی ہے اور سرکاری و نجی املا ک کا بھی نقصان ہوتا۔ یہ بات درست ہے مگرایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ایسے حملوں کی تفتیش میں سرکاری ایجنسیاں اپنی ذمہ داری کما حقہُ ادا نہیں کرتیں ۔ افسران اپنے سیاسی آقاوں کو خوش کرنے کی خاطر بے قصور مسلمانوں کو گرفتار کرکے اپنی ترقی کرواتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو تو انعام و اکرام سے نوازہ جاتا ہے مگر ونود بھٹ جیسا انصاف پسند افسرجب سرکار کی تائید کرکے جھوٹے الزامات گھڑنے سے انکار کردے تو اس پر اتنا دباو ڈالا جاتا ہے کہ وہ خود کشی پر مجبور ہوجائے لیکن وہ زندہ ضمیر لوگ بے قصور کو پھنسانے کے بجائے اپنی جان گنوانے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ یہ فیصلہ اگر کانگریس کے دور اقتدار میں آتا تو اس کو مسلمانوں کی ناز برداری کا نام دیا جاتا مگر یہ تو مودی راج میں آگیا ایسے میں ارشادِ قرآنی کی یاد آتی ہے ” کیا یہ کوئی چال چلنا چاہتے ہیں؟ (اگر یہ بات ہے ) تو کفر کرنے والوں پر ان کی چال الٹی ہی پڑے گی”۔

متعلقہ مضامین

  • ممبئی ٹرین دھماکہ
  • سپریم کورٹ نے "ادے پور فائلز" سے متعلق تمام عرضداشتوں کو دہلی ہائی کورٹ بھیجا، مولانا ارشد مدنی
  • 26 نومبر کے کیسز کی قبل از وقت سماعت کیلئے ہائیکورٹ میں پٹیشن دائر کریں گے: وکیل فیصل ملک
  • سپریم کورٹ: ضمانت مسترد ہونے کے بعد ملزم کی فوری گرفتاری لازمی قرار
  • سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ: ضمانت مسترد ہونے کے بعد ملزم کی فوری گرفتاری لازمی قرار
  • لاہور کے 9 مئی مقدمات میں ضمانت منسوخ ہونے پر بانی پی ٹی آئی کا سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ
  • شبلی فراز کی نو مئی کے کیسز یکجا کرنے کی درخواست پر سماعت (کل )تک ملتوی
  • نور مقدم قتل کیس — ظاہر جعفر کی سزائے موت کے خلاف سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر
  • زیر التوا اپیل، نظرثانی یا آئینی درخواست کی بنا پر فیصلے پر عملدرآمد روکا نہیں جا سکتا، سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ
  • نور مقدم قتل کیس: ظاہر جعفر کی سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر