جنیوا(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔11 جنوری ۔2025 )عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او)نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں سانس کے مسائل سالانہ ساڑھے چھ لاکھ افراد کی موت کا سبب بن رہے ہیں لہذا اب وقت آگیا ہے کہ موسمی بیماری کے خلاف انفوئنزا ویکسین لگوائی جائے.

(جاری ہے)

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے تحت آفیشل پلیٹ فارمز پر ایک پروگرام سائنس ان فائیو کے نام سے نشر کیا گیا جس میں ماہرین صحت نے بتایا کہ لوگوں کو انفلوئنزا کی بیماری اور اس سے ہونے والی اموات سے بچانے کا بہترین ذریعہ ویکسین ہے مذکورہ پروگرام میں عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنسی یونٹ کی اہلکار ڈاکٹر شوشنا گولڈن نے موسمی انفلوئنزا سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ماہرین اور صحت عامہ کے سائنسدان دنیا بھر کے انسانوں کو اس وائرس سے محفوظ رکھ سکتے ہیں.

ڈاکٹر گولڈن نے بتایا کہ انفلوئنزا وائرس پیچیدہ اور ہمیشہ اپنی شکل تبدیل کرتا رہتا ہے اس بیماری اور موت سے بچنے کا بہترین ذریعہ ویکسین ہے انہوں نے وضاحت کی کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انفلوئنزا وائرس اور ویکسین کی اپڈیٹ سے لوگوں کو باخبر رکھنا بے حد ضروری ہے انفلوئنزا ویکسین جسے فلو شاٹس یا فلو جابس بھی کہا جاتا ہے وہ ویکسین ہے جو انفلوئنزا وائرس کے انفیکشن سے بچاتی ہے چونکہ انفلوئنزا وائرس تیزی سے تبدیل ہوتا ہے اس لئے ویکسین کو سال میں دو بار نئے انداز سے تیار کیا جاتا ہے.

واضح رہے کہ انفلوئنزا ذہین وائرس ہے اور اپنے ساتھ بہت سے تنا لے کر آتا ہے یہ وائرس قوت مدافعت پر قابو پانے اور مختلف بیماریاں پیدا کرنے کے لیے خود کو مسلسل بدلتا رہتا ہے یہ ہر ملک میں موجود ہے ہر سال سینکڑوں ہزاروں لوگ موسمی انفلوئنزا سے مرجاتے ہیں اگرچہ وبائی زکام بہت عام ہے تاہم یہ کم مدافعتی نظام والے افراد کیلئے زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتا ہے(انفلوئنزا) فلو پھپھڑوں کا انفیکشن ہے جو وائرس کے ذریعے پھیلتا ہے لوگوں کو پورے سال کے دوران کسی بھی وقت فلو ہوسکتا ہے لیکن یہ موسم خزاں اور موسم سرما کے ایام میں بہت عام ہے اس بیماری کی علامات میں بخار، پٹھوں میں درد، سر میں درد، گلے میں خراش، کھانسی، کمزوری وغیرہ شامل ہیں.

مذکورہ علامات میں سے زیادہ تر 2 تا 7 دن تک رہتی ہیں، کھانسی اور کمزوری 6 ہفتوں تک رہ سکتی ہے یہ بیماری روزمرہ کے امور کو مشکل کرسکتی ہے ڈاکٹر گولڈن نے بتایا کہ موسمی انفلوئنزا عالمی ادارہ صحت پر ایک بڑا بوجھ بن رہا ہے جن لوگوں کو وائرس سے بچا کے لیے ویکسین لازمی لگوانی چاہیے وہ لوگ شدید بیماری یا موت کے خطرے کے اندر ہیں ان مریضوں میں ضعیف، حاملہ خواتین اور دائمی بیماریوں میں مبتلا افراد شامل ہیں اسی طرح دل کے بنیادی امراض اور پھیپھڑوں کے مسائل والے افراد، ذیابیطس اور موٹاپا کے شکار، ایچ آئی وی والے افراد کو موسمی انفلوئنزا سے شدید بیماری اور موت کا خطرہ لاحق ہوتا ہے.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے عالمی ادارہ صحت لوگوں کو

پڑھیں:

امریکا میں آنتوں کی مخصوص بیماری میں خطرناک اضافہ

نئی تحقیق کے مطابق امریکا میں نوجوان بالغوں میں ڈائیورٹیکولائٹس (Diverticulitis) جیسی آنتوں کی سنگین بیماری تیزی سے بڑھ رہی ہے، جو عموماً بڑھاپے میں لاحق ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: قبض کے علاج کے لیے کیوی اور رائی کی روٹی مفید قرار

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا لاس اینجلس (UCLA) اور وینڈر بلٹ یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2005 سے 2020 کے درمیان 50 سال سے کم عمر مریضوں میں اس بیماری کے شدید کیسز میں 52 فیصد اضافہ ہوا۔

تحقیق کے مطابق اسپتال میں داخل ہونے والے ایسے مریضوں کا تناسب 2005 میں 19 فیصد سے بڑھ کر 2020 میں 28 فیصد سے زیادہ ہو گیا۔

تحقیق کی سربراہ میڈیکل طالبہ ’شائنئی کم‘ کے مطابق یہ بیماری پہلے بڑی عمر کے لوگوں میں عام سمجھی جاتی تھی، مگر اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ نوجوان مریض نہ صرف زیادہ متاثر ہو رہے ہیں بلکہ ان میں بیماری کی شدت بھی زیادہ ہے۔

ڈائیورٹیکولائٹس کیا ہے؟

یہ بیماری بڑی آنت (colon) کی دیواروں میں بننے والی چھوٹی تھیلیوں (pouches) کے سوزش یا پھٹنے سے پیدا ہوتی ہے۔ شدید صورت میں یہ انفیکشن، خون بہنے یا آنت پھٹنے جیسی خطرناک پیچیدگیوں کا باعث بن سکتی ہے۔

علاج اور اعداد و شمار

تحقیق میں 52 لاکھ سے زائد اسپتالوں کے ریکارڈ کا تجزیہ کیا گیا، جن میں 16 فیصد مریض 50 سال سے کم عمر کے تھے۔ اگرچہ نوجوان مریضوں میں بیماری زیادہ جارحانہ دیکھی گئی، مگر ان کی اموات اور اسپتال میں قیام کا دورانیہ نسبتاً کم رہا۔

یہ بھی پڑھیں:بڑی آنت کا کینسر: پہلی علامت جسے اکثر لوگ نظر انداز کردیتے ہیں

اسی دوران سرجری کی شرح میں نمایاں کمی آئی, جہاں 2005 میں 35 فیصد مریضوں کو آنت کا کچھ حصہ نکالنا پڑا، وہیں 2020 تک یہ شرح 20 فیصد تک گر گئی، جو زیادہ مؤثر اور محتاط علاج کی علامت ہے۔

وجوہات اور خدشات

ماہرین کے مطابق یہ واضح نہیں کہ کم عمر افراد میں بیماری کیوں بڑھ رہی ہے، تاہم اس رجحان کو کولن کینسر کے بڑھتے خطرے، غذائی عادات میں تبدیلی، موٹاپے اور بیٹھے رہنے کے طرزِ زندگی سے جوڑا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر کم کے مطابق ہمیں فوری طور پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ نوجوانوں میں یہ بیماری تیزی سے کیوں پھیل رہی ہے۔

ماہرین کے مطابق، آنتوں کی صحت برقرار رکھنے کے لیے غذائی فائبر (fiber) کا زیادہ استعمال بیماری کے خطرے کو کم کر سکتا ہے۔

بشکریہ: جریدہ Diseases of the Colon & Rectum

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

Colon & Rectum امریکا آنتوں کی بیماری بڑی آنت ڈائیورٹیکولائٹس یونیورسٹی آف کیلیفورنیا

متعلقہ مضامین

  • ملک میں اکتوبر میں مہنگائی تخمینے سے زائد ریکارڈ
  • مالدیپ نے نئی نسل کیلئے تمباکو نوشی پر پابندی لگا دی
  • وزارت صحت کا سیفٹی میڈیسن تقریب کا انعقاد، ادویات کا نظام بہتر کرنے کا عزم
  • ٹیکس چوروں کے گرد گھیرا تنگ، اربوں کے اثاثوں والے افراد کی لسٹ جاری
  • سالانہ 500 سے زائد لوگوں کی ہلاکت، افغانستان میں زلزلے کیوں عام ہیں؟
  • دہلی کی زہریلی ہوا میں سانس لینا مشکل ہورہا ہے، پرینکا گاندھی
  • امریکا میں آنتوں کی مخصوص بیماری میں خطرناک اضافہ
  • چینی صدر کا مصنوعی ذہانت کی نگرانی کا عالمی ادارہ قائم کرنے پر زور
  • مڈعیدن ، ڈی سی کا ڈینگی وائرس سے بچائو کے حوالے سے اجلاس
  • موبائل فون کا استعمال بچوں میں نظر کی کمزوری کا بڑا سبب قرار