خواجہ آصف، مریم نواز کی کوشش ہے کہ مذاکرات کو ناکام بنایا جائے: اسد قیصر
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
اسلام آباد ( ڈیلی پاکستان آن لائن ) تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اسد قیصر نے کہا کہ خواجہ آصف اور مریم نواز جس طرح بات کر رہے ہیں، ان کی کوشش ہے کہ ہر ممکن طریقے سے مذاکرات کو ناکام بنایا جائے، پھر کہا جاتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی ٹویٹ کر رہے ہیں۔
نجی ٹی وی دنیا نیوز کے مطابق اپنے ردِ عمل میں اسد قیصر کا کہنا تھا کہ ہم مظلوم پارٹی ہیں، ہمارے ساتھ ظلم ہوا ہے، ہمارے جو تحفظات اور مطالبات تھے ان میں کمی کی تاکہ ملک آگے بڑھے، ملک جن حالات میں چل رہا ہے، آپ کی سرحدوں کی جو صورتحال ہے، ملکی معیشت کے جو حالات ہیں، ملک میں مایوسی ہے۔
اسد قیصر نے کہا کہ ہم نے پاکستان کی خاطر ایک قدم آگے بڑھنے کی کوشش کی، میں واضح کرنا چاہتا ہوں، نہ ہم کسی خوف میں مبتلا ہیں، نہ ہم کسی سے ڈر رہے ہیں، اگر ہم نے اپنے تحفظات کو پیچھے کیا ہے تو صرف پاکستان کی خاطر کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ بانی پی ٹی آئی سے ہماری ملاقات کرائی جائے گی، حکومت کی جانب سے اب مختلف حیلے بہانے کئے جا رہے ہیں، ہم چاہتے ہیں ملک میں آئین کی حکمرانی ہو، ملک میں آزاد عدلیہ ہو، ہم چاہتے ہیں ملک میں سول سپرمیسی ہو اور مضبوط پارلیمنٹ ہو۔
اسد قیصرنے کہا کہ ملک کو حقیقی معنوں میں عوام کی مرضی کے مطابق چلایا جائے، ہم ہر صورت میں اپنے مو¿قف پر قائم ہیں، جیل میں بانی پی ٹی آئی جو صعوبتیں اور مشکلات برداشت کر رہے ہیں، ملک کے لئے کر رہے ہیں، پوری قوم بانی پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑی ہے۔
رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ مذاکرات کے حوالے سے ہماری کمٹمنٹ ہے، اس لئے اعتماد سے بات کر رہے ہیں، مریم نواز اور خواجہ آصف جو باتیں کر رہے ہیں، اس پر انتہائی افسوس ہے، ہم جو کچھ کر رہے ہیں، پاکستان کے لئے کر رہے ہیں۔
بلدیاتی انتخابات سے متعلق درخواستیں 15 جنوری کو سماعت کیلئے مقرر
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: بانی پی ٹی آئی کر رہے ہیں نے کہا کہ ملک میں
پڑھیں:
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی زیر صدارت خصوصی اجلاس، تعلیمی اداروں میں اصلاحات اور معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے کئی اہم فیصلے
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی زیر صدارت ہائر ایجوکیشن سے متعلق ایک اہم اجلاس ہوا جس میں پنجاب کی تعلیمی اداروں میں اصلاحات اور معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے کئی اہم فیصلے کیے گئے۔ اجلاس میں ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے تفصیلی بریفنگ دی گئی جس میں جی سی یونیورسٹی، گورنمنٹ کالج برائے خواتین یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کو ماڈل تعلیمی ادارے بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔اجلاس میں بتایا گیا کہ برطانیہ، کوریا اور قازقستان سمیت متعدد غیر ملکی یونیورسٹیوں نے پنجاب میں کیمپس بنانے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ ان یونیورسٹیوں میں یونیورسٹی آف لندن، یونیورسٹی آف برنل، یونیورسٹی آف گلاسیسٹرشائر اور یونیورسٹی آف لِیسٹر شامل ہیں۔ وزیراعلیٰ مریم نواز نے اس پیشکش کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ اس سے پنجاب کی تعلیمی سطح کو مزید بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔پنجاب کے سرکاری کالجز میں کالج مینجمنٹ کونسل قائم کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا، جس کا مقصد تعلیمی اداروں کی کارکردگی کو مزید بہتر بنانا ہے۔ اجلاس میں "کے پی آئی" سسٹم کو پنجاب کی یونیورسٹیوں میں نافذ کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا تاکہ تدریسی معیار اور وائس چانسلرز کی کارکردگی کو بہتر طریقے سے جانچا جا سکے۔وزیراعلیٰ نے انڈر پرفارمنگ کالجز سے متعلق بھی رپورٹ طلب کی اور کہا کہ تعلیمی معیار کو یقینی بنانے کے لیے ان اداروں پر نظر رکھی جائے۔ مزید برآں، ایجوکیشن ویجی لینس سکواڈ قائم کرنے کی منظوری دی گئی جو تعلیمی اداروں میں اچانک حاضری، صفائی، معیار تعلیم اور دیگر امور کی جانچ کرے گا۔اجلاس میں سی ایم پنجاب ہونہار سکالر شپ اور لیپ ٹاپ سکیم کی بھی تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ پنجاب کے علاوہ، دوسرے صوبوں کے 19,000 سے زائد طلبہ نے اس اسکیم میں درخواست دی ہے۔ وزیراعلیٰ نے اس اسکیم کو مزید فعال بنانے کے لیے اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی۔ہائر ایجوکیشن کا سٹریٹجک پلان 2025-2029 کے حوالے سے بھی اجلاس میں تفصیل سے بات چیت کی گئی۔ وزیراعلیٰ مریم نواز نے کہا کہ پنجاب کی یونیورسٹیوں میں تدریسی معیار، اختراعی تحقیق، تخلیقی علم، اور ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن کو ترجیحات میں شامل کیا جائے گا۔پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں میں گورننس ریفارمز اور ادارہ جاتی خودمختاری لانے کی تجویز پر بھی اتفاق کیا گیا تاکہ یونیورسٹیوں کی کارکردگی میں مزید بہتری آئے۔وزیراعلیٰ نے پنجاب میں پہلی مرتبہ ہائر ایجوکیشن کانفرنس کے انعقاد کی اصولی منظوری دی جس کا مقصد تعلیمی اداروں میں درپیش چیلنجز اور ان کے حل کے لیے اقدامات پر تبادلہ خیال کرنا ہے۔وزیراعلیٰ نے کامرس کالجز کے حوالے سے بھی رپورٹ طلب کی تاکہ غیر فعال اداروں کی بہتری کے لیے اقدامات کیے جا سکیں۔