بھارت نے بنگلادیش سے فرار ہوکر آنیوالی حسینہ واجد کو ویزے میں توسیع دیدی
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
نئی دہلی:بھارت نے بنگلا دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے ویزے میں توسیع کر دی ہے، جو استعفا دینے کے بعد ملک سے فرار ہوکر اور مقدمات سے بچنے کے لیے بھارت میں مقیم ہیں۔
واضح رہے کہ بنگلا دیش کی عبوری حکومت نے 7 جنوری کو شیخ حسینہ واجد کا پاسپورٹ منسوخ کر دیا تھا اور ان کے خلاف متعدد سنگین الزامات کے تحت گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے، جن میں شہریوں کی نسل کشی کے الزامات بھی شامل ہیں۔
ایسے حالات میں بھارت نے حسینہ واجد کے ویزے میں توسیع کر کے توقع کے مطابق ان کی کھلی حمایت کا مظاہرہ کیا ہے تاکہ وہ بنگلا دیش میں کسی بھی قانونی کارروائی سے بچ سکیں۔ حسینہ واجد فرار کے بعد سے بھارت میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
شیخ حسینہ واجد پر قتل، کرپشن اور بدعنوانی کے متعدد مقدمات ہیں، جن میں 26 قتل اور 4 نسل کشی کے مقدمات بھی شامل ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف سخت اقدامات کیے اور اپنے اقتدار کے دوران کئی بار ان کی حکومت نے اقلیتی جماعتوں کو نشانہ بنایا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: حسینہ واجد
پڑھیں:
کیا اب بھی آئینی عدالت کی ضرورت ہے؟
سپریم کورٹ آف پاکستان کا آئینی بینچ پہلے ہی کام کررہا ہے، سوال یہ ہے کہ کیا اس کے بعد بھی الگ سے ایک آئینی عدالت کی کوئی ضرورت ہے؟
پولرائزڈ سماج میں سیاسی عصبیت کی بنیاد پر آپ کوئی سا بھی مؤقف اختیار کر سکتے ہیں، لیکن قانون اور دلیل کے ساتھ معاملے کو دیکھا جائے تو اس سوال کا جواب اثبات میں ہے۔ جی ہاں! آئینی بینچ کے باوجود آئینی عدالت کی ضرورت موجود ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ پہلے سے بڑھ گئی ہے۔
آئینی بینچ مسئلے کا حل نہیں، حل آئینی عدالت ہی ہے، آئینی بینچ تو دستیاب حالات میں اختیار کیا گیا، ایک اضطراری متبادل تھا کیونکہ اس وقت آئینی عدالت کی وجہ سے ہی 26ویں آئینی ترمیم پر اتفاق نہیں ہو سکا تھا۔
تاہم جن مسائل کی وجہ سے الگ سے آئینی عدالت بنانا مقصود ہے، وہ مسائل جوں کے توں موجود ہیں۔ آئینی بینچ انہیں حل نہیں کر سکا، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ آئینی بینچ بنانے سے وہ مزید الجھ کر رہ گئے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اگر مطلوبہ اکثریت میسر ہو تو ایک مکمل آئینی عدالت کا قیام عمل میں لایا جائے۔
معاملے کو سمجھنے کے لے آئیے دیکھتے ہیں کہ آئینی عدالت کا قیام کیوں ضروری ہے۔
یہ اس لے ضروری ہے کہ اس سے قبل سپریم کورٹ کا زیادہ تر وقت سیاسی لوگوں کے آئینی معاملات کو سننے میں صرف ہو جاتا تھا جبکہ عام لوگوں کے مقدمات کی سالوں تک باری ہی نہیں آتی تھی۔
آئینی مقدمات کی تعداد صرف 15 فیصد تھی اور ان 15 فیصد مقدمات کی سماعت میں سپریم کورٹ کا 90 فیصد وقت صرف ہوتا تھا۔
دوسری جانب عام مقدمات کی تعداد 85 فیصد تھی مگر ان 85 فیصد مقدمات کے لیے سپریم کورٹ کا دستیاب وقت 10 فیصد تھا۔
عام آدمی کا برا حال تھا، نہ اسے کوئی ’گڈ ٹو سی یو‘ کہنے والا تھا نہ اس کے مقدمات کی باری آتی تھی۔ اگر عام مقدمات کی تعداد 85 فیصد تھی تو ان کے لیے وقت بھی 85 فیصد ہونا چاہیے تھا مگر وہ صرف 10 فیصد تھا۔
سیاسی اور آئینی مقدمات تو اہتمام سے سنے جاتے تھے، رات گئے بھی پیٹیشنز دائر ہو جایا کرتی تھیں۔ چھٹی والے دن سماعت ہو جایا کرتی تھی۔ مقدمے کی کارروائی ساری قوم کو لائیو دکھانے کا اہتمام بھی ہو جاتا تھا، ٹکرز بھی چلتے تھے، رات گئے تک ٹاک شوز بھی ہوتے تھے۔ کورٹ رپورٹرز کو بھی انہی مقدمات پر لمبے لمبے خطبے دینے اور تجزیے فرمانے میں لطف آتا تھا، سماعت والے دن گویا میلے کا سا سماں ہوتا تھا، لیکن میلے کی ان رونقوں میں عام آدمی کی کوئی کسی کو پرواہ نہیں تھی جس کے مقدمات لٹک گئے تھے۔
نوبت یہاں جا پہنچی کہ سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 57 ہزار سے بھی تجاوز کر گئی۔ ان کی سماعت کے لیے مناسب وقت ہی دستیاب نہ تھا، عدالت کا 85 فیصد وقت تو آئینی مقدمات کھا جاتے تھے۔
حالت یہ تھی کہ ملزمان سپریم کورٹ سے بری ہوتے تو پتا چلتا انہیں پہلے ہی پھانسی دی جا چکی ہے۔ ایسے واقعات بھی سامنے آئے کہ 20،20 سال مقدمے چلتے رہے اور پھر جا کر سپریم کورٹ نے ملزمان کو بری کردیا اور اب کسی کے پاس ان 20 سالوں کا کوئی جواب نہ تھا، فیصلے بروقت ہوتے تو یہ نہ ہوتا۔
صرف مقدمات کا التوا ہی پریشان کن نہ تھا، ہم نے یہ بھی دیکھا کہ سماعت مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس نے بینچ میں موجود ایک جج کو فیصلہ لکھنے کی ذمہ داری دی اور جج صاحب نے فیصلہ لکھنے میں بھی 223 دن لگا دیے۔
وقت کے چیف جسٹس نے متعلقہ جج کا نام لے کر اپنے نوٹ میں لکھا کہ اتنی زیادہ تاخیر اس کی وجہ سے ہوئی ہے۔
چنانچہ اس سیاق و سباق سے یہ سوچ پیدا ہونے لگی کہ سیاسی اشرافیہ کے آئینی جھگڑوں کی وجہ سے عام آدمی کو انصاف کی فراہمی میں بہت زیادہ تاخیر ہو رہی ہے تو مناسب ہوگا کہ ایک الگ سے آئینی عدالت بنا لی جائے تاکہ وہ آرام سے ان سیاسی اور آئینی مقدمات کو دیکھتی رہے اور سپریم کورٹ معمول کے مطابق کام کرے تاکہ لوگوں کو بروقت انصاف ملے۔
آئینی عدالت بنانے کی دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ ماضی قریب میں ہم نے اور سب نے دیکھا کہ اکثر اہم آئینی مقدمات 3 رکنی بینچ ہی سنا کرتا تھا۔ اس بینچ کی ایک زمانے میں دیو مالائی کہانیوں جیسی شہرت تھی۔
پھر یہ قباحت بھی موجود تھی کہ بینچ چیف جسٹس نے بنانا ہوتا تھا اور اہم آئینی مقدمات میں بینچ بنتے ہی معلوم ہو جاتا تھا کہ فیصلہ کیا آئے گا۔ بینچ کی تشکیل کے حوالے سے موجود قباحتوں کے ازالے سے کچھ کام تو ہوا ہے مگر یہ ناکافی ہے، ہمہ جہت اصلاح کے حوالے سے مزید کام کی ضرورت ہے۔
چنانچہ یہ منطقی بات تھی کہ الگ سے ایک وفاقی آئینی عدالت بنا دی جائے جو آئینی معاملات کو دیکھتی رہے اور سپریم کورٹ ان زیر التوا مقدمات پر توجہ دے سکے جن کا انبار بڑھتا جا رہا ہے۔
آئینی عدالت میں مقدمات کو ایک مکمل عدالت سنے گی، نہ وہاں افسانوی شہرت والا 3 رکنی بینچ ہوگا، نہ مرضی کے ججوں پر مشتمل بینچ بن سکے گا، نہ مخصوص جج مخصوص مقدمات کی سماعت کریں گے، بلکہ تمام صوبوں سے آئے جج بیٹھ کر وفاقی آئینی عدالت میں مقدماات کی سماعت کریں گے۔
آئینی بنچ اس مسئلے کا حل نہیں، اس کا حل آئینی عدالت ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں سارا بیانیہ اشرافیہ کے مسائل اور مفادات کے گرد گھوم رہا ہے، اور عام لوگ اور ان کے مسائل کہیں زیر بحث ہی نہیں، بھلے ان کے زیر التوا مقدمات نصف لاکھ سے زیادہ ہو جائیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آصف محمود انگریزی ادب اور قانون کے طالب علم ہیں۔ پیشے سے وکیل ہیں اور قانون پڑھاتے بھی ہیں۔ انٹر نیشنل لا، بین الاقوامی امور، سیاست اور سماج پر ان کی متعدد کتب شائع ہوچکی ہیں۔
wenews آئینی بینچ آئینی عدالت سیاسی عصبیت مرضی کے ججز وی نیوز