بڑھتی ہوئی تجاوزات سے گلی محلے تنگ ہو گئے، فنکشنل لیگ
اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT
حیدرآباد (اسٹاف رپورٹر) مسلم لیگ فنکشنل مرکزی نائب صدر پیر یاسر سائیں کے میڈیا کوآرڈینیٹر شاہد خان اور علاقہ مکین کی نشاندہی پر شاہی بازار، فقیر کا پیڑ سمیت دیگر اطراف میں تجاوزات کے خلاف بلدیہ، ایچ ایم سی ظہور لکھن نے نوٹس لیتے ہوئے اسسٹنٹ ڈائریکٹر شعیب مرزا، ندیم کمار، عمیر مغل، وسیم سیال، ایاز احمد مگسی، ماجد خان نے عملے کو جائے وقوع پر صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا۔ اس موقع پر ان کے ہمراہ مسلم لیگ فنکشنل کے رہنما شاہد خان اور علاقہ مکین موجود تھے جن کا کہنا تھا کہ آئے روز بڑھتی ہوئی تجاوزات سے گلی محلے تنگ ہو گئے ہیں، دکانداروں نے پختہ تھلے بنا کر شٹر باہر کر دیے اور 4، 4، 5، 5 فٹ کی فولڈنگ لگا کر دکان مزید باہر کر دیے جس کی وجہ سے آنے جانے والے علاقہ مکینوں کا گزرنا محال ہو گیا، شاہی بازار، کھلونا مارکیٹ، فقیر کا پیڑ چکی والی گلی و دیگر اطراف غیر قانونی تھلے کیبن، مرغیوں کے پنجرے قصابوں نے چھوڑ رکھے ہیں جس سے داخلی راستے مکمل بند ہو گئے، اس کے علاوہ گدھا گاڑیاں، لوڈر پورا دن بازار میں قطاروں کی طرح کھڑی کی جاتی ہیں جس سے راستے بلاک ہو جاتے ہیں، کسی قسم کی ایمرجنسی میں سہولیات میسر نہیں ہو سکتی، آئے روز دکاندار اور علاقہ مکین میں تلخ کلامی معمول بنی ہوئی ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ تجاوزات کلیئر اور دکان داروں کو سختی سے ہدایت دی جائے کہ وہ اپنی حدود میں رہیں، خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف بھاری جرمانے عائد کیے جائیں جس کے لیے اہل علاقہ آپ کے بے حد مشکور ہوں گے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
مہنگائی پر قابو پا چکے ہیں، ملکی معیشت درست سمت میں ہے، وزیر خزانہ
اسلام آباد:وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب قومی اقتصادی سروے برائے 25-2024 پیش کر رہے ہیں۔
قومی اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بتایا کہ عالمی سطح پر مجموعی پیداوار کی شرح کم ہوئی ہے اور گلوبل جی ڈی پی کا نمو 2.8 فی صد ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملکی مجموعی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے، جو کہ پاکستان کی معاشی ترقی کا نشان ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی معاشی بحالی کو عالمی منظر نامے کے تناظر میں دیکھا جائے گا۔ دو سال قبل (2023ء میں) ہماری مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) گروتھ منفی تھی اور مہنگائی کی شرح 29 فی صد سے بلند ہو چکی تھی، جس کے بعد حکومت نے بڑے فیصلے کیے، جس کے نتیجے میں ملکی معیشت اب بتدریج بہتر سے بہتر ہوتی جا رہی ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ افراط زر میں ریکارڈ کمی ہوئی ہے اور مہنگائی کی شرح کم ہوکر اب 4.6 فی صد پر آ چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم معیشت کا ڈی این اے بدلنا چاہ رہے ہیں، جس کے لیے کچھ اسٹرکچرل ریفارمز ناگزیر ہیں۔ ٹیکس اصلاحات سب کے سامنے ہیں۔ ڈاکٹر شمشاد اختر نے معاشی اصلاحات کا پروگرام شروع کیا ہے، میں ان کی تعریف کروں گا۔
انہوں نے کہا کہ انرجی اصلاحات کو اویس لغاری اور علی پرویز ملک تیزی سے آگے بڑھا رہے ہیں۔ ڈیسکوز کے بورڈ نجی شعبے سے لائے ہیں، اس سے کارکردگی بہتر ہو رہی ہے۔ 1.27ٹریلن روپے کے گردشی قرضے کے حل کے لیے بینکوں سے معاہدہ بھی ہوا ہے۔ نگران حکومت میں ہونے والے اچھے اقدامات کو سراہتا ہوں۔
حکومتی اقدامات کے نتیجے میں پالیسی ریٹ 22 فیصد سے کم ہوکر 11 فیصد پر آگیا ہے۔ 24 ایس او ایزکو پرائیویٹائزیشن کے حوالے کیا ہے۔ پچھلے سال پالیسی ریٹ نیچے آنے سے ڈیبٹ سروسنگ کی مد میں کافی بچت ہوئی۔ پنشن ریفارمز کے تحت ڈیفائنڈ کنٹری بیوشن پنشن سسٹم کی طرف جاچکے ہیں ۔ لیکیج کا روکنا بہت ضروری ہے، اس سلسلے میں رائٹ سائزنگ کی جارہی ہیں۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ 43 وزارتیں اور 400 اٹیچ ڈیپارٹمنٹس کی رائٹ سائرنگ کی جارہی ہے۔ بجٹ میں بتاؤں گا کہ اسے آگے کیسے لے کر جائیں گے۔ اسے مرحلہ وار آگے لے کر جارہے ہیں۔ ہم وزارتوں اور محکموں کو ضم کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مشینری اور ٹرانسپورٹ کی گروتھ بڑھی ہے، ترسیلات زر میں اصافہ ہوا ہے
37 سے38 ارب ڈالر اس سال ترسیلات زر رہنے کا امکان ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ گلوبل جی ڈی پی گروتھ مسلسل گروٹ کا شکار رہی ہے، ہماری جی ڈی پی دو ہزار تیس میں منفی میں تھی، رواں سال جی ڈی پی کی گروتھ 2.7 فیصد ہے، عالمی مہنگائی میں اضافے کے باوجود ہماری مہنگائی میں کمی ریکارڈ ہوئی ہے۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ ہماری ملک میں مہنگائی 4.6 فیصد تک گرچکی ہے، رواں سال تک شرح سود میں بھی خاطر خواہ کمی ہوئی ہے، وزیراعظم شہباز شریف نے نگران سے پہلے ایس بی اے کے ذریعے اچھے فیصلے کیے۔
انہوں نے کہا کہ نگران حکومت نے معاشی میدان میں اچھے اقدامات لیے گئے، جولائی سے مئی کے دوران چھبیس فیصد ٹیکس میں اضافہ ہوا ہے، چوہتر فیصد ریٹیلرز رجسٹریشن مزید ہوئی ہے، ہم اب قرضے مزید نہیں لینے چاہتے اگر لیں گے تو اپنی شرائط پر لیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں قرضوں کی ادائیگیوں میں جتنا بھی بچے گا اس کو دیگر سیکٹر میں لے جائیں گے، صنعتوں کی گروتھ میں چھ فیصد تک اضافہ ہوا ہے، خدمات کے شعبے میں دو فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا، رئیل اسٹیٹ اور تعمیرات کے شعبے میں تین فیصد تک اضافہ ہوا ہے، زرعی شعبے محض 0.6 فیصد تک بڑا ہے۔