لاڑکانہ :فارغ التحصیل طلبہ کے اعزاز میں رنگا رنگ تقریب
اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT
لاڑکانہ (نمائندہ جسارت) شہید محترمہ بینظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی سے منسلک کالجز اور انسٹیٹیوٹس کے فارغ التحصیل طلبہ و طالبات کے اعزاز میں یونیورسٹی کی جانب سے چانڈکا میڈیکل کالج میں الیومناء ایوننگ کے نام سے پروقار اور رنگا رنگ تقریب کا انعقاد کیا گیا، تقریب میں مفت کھانے پینے کے اسٹال، میڈیا وال، مشاعرہ اور محفل موسیقی کا بھی اہتمام تھا، تقریب میں فارغ التحصیل طلبہ و طالبات کا جوش و خروش دیکھنے کے قابل تھا، سابق طالب علم نے اپنے ساتھیوں سے مل کر خوشی کا اظہار کیا اور ایک ساتھ گروپ فوٹو لیے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر نصرت شاہ نے کہا کہ میں چانڈکا اور یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طالبعلموں کو اپنے گھر واپس آنے پر خوش آمدید کہتا ہوں، ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے کوئی اپنی ماں کے آغوش میں واپس آ گیا ہو ۔ انہوں نے کہا یہ جان کر خوشی ہو رہی ہے کہ چانڈکا میڈیکل کالج لاڑکانہ کے سابق طالب علموں نے اپنے مادر علمی کو پے بیک کیا ہے جس میں سابقہ بئچ چار سرٍ فہرست ہے اور اس کے ساتھ بئچ اور گولڈن گروپ کے سابق طالب علم شامل ہیں، مجھے زیادہ خوشی تب ہو گی جب سارے فارغ التحصیل طلبہ و طالبات اپنے مادرٍ علمی کو پے بیک کرنے کے لیے آگے آئیں گے۔ بئچ چار کے نمائندے کے طور پر پروفیسر ڈاکٹر شیر محمد شیخ نے کہا کہ ہمارے اوپر اپنی مادر علمی کا قرضہ ہے اور وہ قرضہ تو چکا نہیں سکتے، لیکن تھوڑی سے کوشش کر رہے ہیں اپنی مادر علمی اور اپنے لوگوں کو پے بیک کرنے کی ۔ انہوں نے کہا کہ ہم آج جو کچھ بھی ہیں، اپنی مادر علمی اور اساتذہ کی وجہ سے ہیں۔ بئچ سترہ کی نمائندگی کرتے ہوئے پرنسپل چانڈکا میڈیکل کالج پروفیسر ڈاکٹر ضمیر احمد سومرو نے کہا کہ حیرت کی بات ہے کہ بس گنی چنی بئچز ہے، اپنے مادر علمی کو پے بیک کا جذبہ رکھتے ہیں، اپنے مادر علمی کی دیکھ بھال ہر اس طالب علم پر فرض ہے جو آج اپنے مادر علمی کی وجہ سے کسی نہ کسی اعلیٰ مقام پر فائز ہے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر شرجیل نور چنہ نے کہا کہ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں چانڈکا میڈیکل کالج کا فارغ التحصیل اور آج جس مقام پر فائز ہوں، اس کا سارا کریڈٹ میرے اساتذہ اور میری مادر علمی کو جاتا ہے۔ تقریب میں بئچ چار، بئچ سترہ اور گولڈن گروپ کو ایوارڈ سے نوازا گیا، شرکاء نے کہا کہ ہم کو اپنے اساتذہ سے مل کر اور مادر علمی میں آکر ایسا لگ رہا ہے کہ پرانا زمانہ لوٹ آیا ہو۔ تقریب میں چیئرمین آرگنائزنگ کمیٹی پروفیسر ڈاکٹر بشیر احمد شیخ، سیکرٹری الیومناء ایوننگ پروفیسر علی حیدر بلوچ نے آنے والے سابق طالب علموں کو اپنے مادر علمی میں آنے پر خوش آمدید کہا اور ساتھ ساتھ پروقار تقریب کے انعقاد پر پوری آرگنائزنگ کمیٹی کا شکریہ ادا کیا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اپنے مادر علمی سابق طالب نے کہا کہ علمی کو
پڑھیں:
ترکیہ کے رنگ میں رنگا پاکستان
فاروق بھائی، فلم دیکھیں گے؟
برادرِ محترم ڈاکٹر خلیل طوقار نے یہ سوال پوچھا تو میں چونک گیا۔ احباب جانتے ہیں کہ ڈاکٹر خلیل طوقار سنجیدہ فکر ادیب اور محقق ہیں اتنے سنجیدہ کہ افسانہ و ناول کو بھی ان کی توجہ پانے کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے۔ یہ پس منظر تھا جب انھوں نے فلم دیکھنے کی دعوت دی تو میں چونکا۔ یہ گزشتہ ہفتے کی بات ہے جب پاکستان میں وزیرِ اعظم شہباز شریف کے اعلان کے مطابق ہفتہ ترکیہ منایا جا رہا تھا۔
ترکیہ کی قومی تاریخ میں اکتوبر کا مہینہ غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ پہلی جنگِ عظیم کے موقع پر عالمی استعماری طاقتوں نے نہ صرف سلطنتِ عثمانیہ کے حصے بخرے کیے بلکہ استنبول پر بھی قبضہ کر لیا۔ یوں ترکیہ کی آزادی ہی داؤ پر لگ گئی۔
یہ بڑا مشکل زمانہ تھا، مگر ترکیہ کی قومی فوج نے غازی مصطفی کمال اتاترک کی قیادت میں استعماری قوتوں کے خلاف کامیابی سے جنگ لڑی اور اپنے ملک کی آزادی برقرار رکھی۔ اکتوبر 1915 میں چناق قلعے کا معرکہ ہوا جس میں اتحادی فوج کو فیصلہ کن شکست ہوئی، اور 29 اکتوبر 1923 کو غازی مصطفی کمال اتاترک نے انقرہ کو دارالحکومت قرار دے کر جدید جمہوریہ ترکیہ کے قیام کا اعلان کیا۔ ہمارے ترک بھائی یہ دن بڑے تزک و احتشام سے مناتے ہیں۔ اسی تاریخی پس منظر پر مبنی وہ فلم تھی جسے دیکھنے کی دعوت مجھے ڈاکٹر خلیل طوقار نے دی۔
فلم کا نام ہے آخری خط۔ یہ سلطنتِ عثمانیہ کی فضائیہ کے ایک بہادر پائلٹ صالح کی سرفروشی اور محبت کی کہانی ہے۔ ترکیہ میں میرا آنا جانا بہت رہا ہے۔ استنبول میں قیام کے دوران استقلال جادہ سی پر جانا ہمیشہ ایک خوش گوار تجربہ رہا۔ وہاں ہر وقت ہزاروں سیاح مٹرگشت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ان ہی گلی کوچوں میں گھومتے ہوئے ترکیہ کی فلم انڈسٹری سے بھی تعارف ہوتا ہے۔ جگہ جگہ بڑے بڑے پوسٹر نظر آتے ہیں، جیسے کبھی ہماری فلموں کے ہوا کرتے تھے۔ مجھے ایک فلم کا نام یاد ہے بابا میراثی۔ یہ نام دیکھ کر میں چونکا کہ کیا ترکیہ میں بھی میراثی ہوتے ہیں؟ معلوم ہوا کہ یہاں میراثی سے مراد صاحبِ میراث ہے، نہ کہ ہمارے روایتی قصہ گو۔ہمارا میراثی تو امتدادِ زمانہ سے بے حال ہو چکا ہے، ورنہ ماضی میں وہ عزت دار شخص تھا جو خاندان کے شجرے کا ریکارڈ رکھا کرتا تھا۔ اگر آج بھی کوئی برگزیدہ میراثی مل جائے تو وہ اپنی بے نظیر یادداشت کے سہارے ایسے دل چسپ انداز میں شجرہ سناتا ہے کہ سننے والا مبہوت ہو کر رہ جاتا ہے۔
بات کسی اور طرف جا نکلی۔ استقلال جادہ سی میں فلموں کے اشتہار دیکھ کر میری رائے بنی تھی کہ ترکیہ کی فلمیں بھی ہماری فلموں جیسی ہی ہیں۔ اگر کبھی ترکیہ میں کوئی فلم دیکھنے کا موقع ملتا تو شاید یہ خیال بدل جاتا، مگر ایسا کوئی موقع میسر نہ آ سکا۔ اب کئی برس کے بعد ڈاکٹر خلیل طوقار کی دعوت پر یہ فلم دیکھی تو اندازہ ہوا کہ ترکیہ کی فلم انڈسٹری تو معیار کے اعتبار سے ہالی ووڈ کو شرماتی ہے۔فلم دیکھ کر دوہری خوشی ہوئی: ایک فلم کے اعلی معیار کی، اور دوسری وزیرِ اعظم کے اس فیصلے کی۔ اگر انھوں نے ہفت ترکیہ منانے کا اعلان نہ کیا ہوتا تو شاید یہ فلم دیکھنے کا موقع ہی نہ ملتا۔
کچھ عرصہ قبل سردیوں کی ایک خوش گوار شب ڈاکٹر خلیل طوقار نے عشائیے کا اہتمام کیا۔ ان کے مہمان دو تھے: برادرِ محترم پروفیسر ڈاکٹر یوسف خشک اور ان سطور کا لکھنے والا۔ ڈاکٹر طوقار ترکیہ کے ثقافتی مرکز یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ کی پاکستان شاخ کے سربراہ ہیں۔ پاکستان ان کے لیے اجنبی ملک نہیں ۔وہ اس کے داماد بھی ہیں اور فرزندِ اردو بھی۔ انھوں نے گزشتہ پینتیس چالیس برس میں اردو زبان و ادب کو مالا مال کر دیا ہے۔ تیس چالیس کتابوں کے مصنف ہیں اور ہندکو زبان کی گرامر بھی انھوں نے مرتب کی ہے۔
یوں وہ پاکستان میں ہوں یا ترکیہ میں، ہمارے لیے اجنبی نہیں لیکن وہ چوں کہ ایک سرکاری اسائنمنٹ پر یہاں ہیں، اس لیے انھیں بھی یہ احساس تھا اور ہمیں بھی کہ جیسے ہی وہ واپس جائیں گے، ان کے دم قدم سے قائم یہاں تہذیبی رونقیں ماند پڑ جائیں گی۔ یہی احساس تھا جس نے اس رات کے کھانے کو یادگار بنا دیا، کیونکہ اسی نشست میں تجویز ہوا کہ پاک ترکیہ دوستی اور ثقافتی رشتوں میں مزید گہرائی پیدا کرنے کے لیے ایک تنظیم قائم کی جائے۔
یہ تنظیم آج بنے یا کل، ان ہی باتوں میں کافی وقت گزر گیا یہاں تک کہ ڈاکٹر یوسف خشک شاہ عبد اللطیف بھٹائی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بن کر خیرپور جا پہنچے۔ اس پیش رفت نے احساسِ زیاں کو بڑھا دیا۔ یوں مشاورت کا دائرہ وسیع کر دیا گیا جس میں جناب خورشید احمد ندیم، ڈاکٹر مجیب میمن، ڈاکٹر زاہد مجید، محترمہ نعیم فاطمہ علوی، ڈاکٹر محمد کامران اور ڈاکٹر صدف نقوی سمیت دیگر احباب شامل ہوئے۔ مکمل اتفاقِ رائے سے دوست کے نام سے پاک ترکیہ فرینڈشپ فورم قائم کیا گیا۔اس فورم کے قیام کا اعلان 30 اکتوبر کو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں کیا گیا جو ہفتہ ترکیہ کے سلسلے میں یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ کے اشتراک سے منعقد ہوئی۔ کانفرنس میں شہر کی مختلف جامعات اور کالجوں کے اساتذہ و طلبہ امڈ آئے۔
ہفت ترکیہ کی تقریبات بھرپور رہیں۔ پی این سی اے کے تعاون سے ترک موسیقی کی محفل ہوئی، فلم شو کا ذکر آ چکا۔ لوک ورثہ میں بحیرہ اسود کے معروف رقص ہورون کا مظاہرہ ہوا۔ ترکوں کے مختلف خطوں میں الگ الگ رقص رائج ہیں جو اپنے اپنے علاقوں کی ثقافت اور روایت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ انھیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ تہذیبی مظاہر میں نظم و ترتیب کے کیا معنی ہیں۔ ہورون ان سب سے بڑھ کر ہے۔
ہفتہ ترکیہ ہر اعتبار سے کامیاب اور شاندار رہا، پاکستانیوں اور ترک بھائیوں، سب نے مل کر ہفت ترکیہ پورے جوش و خروش سے منایا۔ اس موقع پر اسلام آباد میں چھ تصویری نمائشوں کے علاوہ خیر پور اور جامعہ کراچی میں ایک ایک تصویری نمائش کا اہتمام کیا گیا ۔ ان مواقع پر حاضرین کی تواضع ترک کافی سے کی گئی۔ اس گہما گہمی کے پیچھے ایک بڑی قوت محرکہ یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ کی تھی جس کے ان تھک سربراہ ڈاکٹر خلیل طوقار ہیں جو ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل ڈاکٹر عرفان نذیر اوغلو سفیر کی حیثیت سے اسلام آباد تشریف لائے ہیں۔ ترکیہ کے تمام سفیر متحرک ہوتے ہیں لیکن ڈاکٹر عرفان نذیر اوغلو کے عوامی انداز نے ترک سفارت خانے کو بہت متحرک کر دیا ہے یہی سبب ہے کہ اس ہفتے کی رونقیں صرف وفاقی دارالحکومت میں نہیں بلکہ خیرپور کی شاہ عبد اللطیف بھٹائی یونیورسٹی جیسے دور دراز علاقوں میں بھی دیکھی گئیں۔ہم اب تک یومِ پاکستان اور یومِ آزادی کے موقع پر آبنائے باسفورس کے اساطیری پل کو پاکستان کے رنگ میں رنگا دیکھتے آئے تھے مگر اس بار پورا پاکستان ترکیہ کے رنگ میں رنگا گیا۔