Nai Baat:
2025-09-18@22:18:23 GMT

اوورسیز پاکستانی مشکلات کا شکار

اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT

اوورسیز پاکستانی مشکلات کا شکار

پاکستان میں اوورسیز پاکستانیوں کے والدین بیوی بچے اور دیگر عزیز و اقارب ایک کرب میں مبتلا ہیں کہ حکومت پاکستان امریکہ کینیڈا فرانس جاپان اور دیگر ممالک سے اپنے اپنے پیاروں کو جو رقوم بھیجتے تھے اس میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔ دوسری طرف پاکستان سے غیر قانونی طور پر یورپین ممالک میں داخل ہونے والے سینکڑوں پاکستانی آئے روز لانچوں میں سمندر کی لہروں کی نظر ہو رہے ہیں لیکن حکمران یہ نعرے لگاتے ہوئے نہیں تھکتے کہ پاکستان کی معیشت مضبوط ہاتھوں میں ہے اور ملک کی معیشت کے اشارے بہتر سمت کی طرف بڑھ رہے ہیں سٹاک ایکسچینج ڈے ٹو ڈے فراٹے بھر رہی ہے اقوام عالم سے سرمایہ دار جھولیاں بھر بھر کر کے پاکستان لا رہے ہیں دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کہ قائد عمران خان نے اپنی بہن علیمہ خان کے ذریعے اوورسیز پاکستانیوں کو مشورہ دے رکھا ہے کہ وہ پاکستان میں ڈالر صرف اور صرف ضروری مقاصد کے لیے اپنی بیگم بچوں والدین رشتہ داروں اور ملازمین کو بھیجی اور جو رقوم زمین خریدنے اور دیگر کاروبار کے لیے پاکستان بھیجتے تھے اسے روک کر رکھیں جس پر میری دانست میں کوئی خاطر خواہ عمل نہیں ہوا۔ حکمران کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ پاکستان میں اوورسیز پاکستانیوں نے گزشتہ ادوار سے زیادہ رقوم بھیجی ہیں۔ یہ جنگ حکمرانوں اور تحریک انصاف کے لیے تو صرف ایک کھیل ہو لیکن اوورسیز پاکستانیوں کی فیملیوں بچوں بزرگوں اور دیگر تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے زندگی موت کا کھیل بنا ہوا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ خدارا حکمران اور تحریک انصاف اپنی لڑائی لڑیں لیکن ہمیں اس کا ایندھن نہ بنائیں۔ اس سلسلہ میں سوشل میڈیا پر بھی حکومت پاکستان کی طرف سے طرح طرح کی پابندیاں ہیں اس کی وجہ سے اوورسیز پاکستانیوں کو اپنی روزی روٹی کمانے کے لیے کافی مشکلات کا سامنا ہے لیکن پاکستانی حکومت کسی بھی شخص کی یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہے سوشل میڈیا کا سلو ہونا یا نہ چلنا پاکستانیوں کی کمائی میں کمی کا باعث بنتا ہے اور مشکلات اس لیے پیدا کی جا رہی ہے کہ حکمرانوں کے خیال میں اوورسیز پاکستانیوں کا زیادہ تر تعلق تحریک انصاف سے ہے۔ حکومت تو ماں ہوتی ہیں اسے تو سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرنا چاہیے لیکن یہاں آدم نرالا ہے پاکستانیوں کو ایئرپورٹس پر آتے ہی گرفتار کر لیا جاتا ہے اور ان پہ الزام یہ ہوتا ہے کہ انہوں نے فلاں وقت میں نواز شریف کے خلاف نعرہ بازی کی جبکہ اقوام عالم میں کسی بھی ملک میں احتجاج کرنے پر نہ تو پابندی ہے اور نہ ہی اس طرح کے قوانین لاگو ہیں تو میں حکمرانوں سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ صدق دل سے ان سارے معاملات کا نوٹس لیں اور پاکستان کے 25 کروڑ عوام کو ایک آنکھ سے دیکھیں تاکہ ہر پاکستانی یہ محسوس کرے کہ مجھے پاکستانی ہونے کے ناطے فخر حاصل ہے کہ میں پوری دنیا میں پاکستان کا علم بلند کر سکتا ہوں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: تحریک انصاف اور دیگر کے لیے ہے اور

پڑھیں:

موقع پرست اور سیلاب کی تباہی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250919-03-4

 

غزالہ عزیز

پاکستان وہ خوش نصیب ملک ہے جو ہر طرح کی معدنیات کے علاوہ ہر طرح کے خطہ زمین کی دولت سے مالا مال ہے۔ دریائوں کے پانچ بڑے سلسلے جو ملک کے پہاڑی سلسلوں سے ہنستے گنگناتے اُترتے ہیں اور پورے ملک سے گزرتے ہوئے سیراب کرتے سمندر کا رُخ کرتے ہیں لیکن مون سون کے موسم میں جب یہ دریا بپھرتے ہیں اور بھارت اپنا سیلابی پانی مزید ان دریائوں میں ڈال دیتا ہے تو خطرناک سیلاب آجاتا ہے۔ یہ سیلابی پانی گھروں اور بستیوں کو بہا کر لے جاتا ہے، کھڑی فصلوں کو تباہ کرتا ہے، مویشیوں کو دیتا ہے۔ اس وقت ملک عزیز میں جو سیلاب آیا اس نے 33 لاکھ سے زیادہ افراد کو متاثر کیا، سیکڑوں بستیاں ڈھے گئیں، باقی میں چھتوں تک پانی کھڑا ہے، سڑکیں پانی میں ڈوبی ہیں، کھیت کھلیان تالاب بن گئے ہیں، لوگ باگ گھروں سے کشتیوں کے ذریعے جان بچا کر نکلے ہیں اور خیموں میں پناہ لی ہے، ان کے مویشی اور گھروں کا سامان تباہ ہوگیا ہے۔ اگرچہ رضا کار لوگوں کی جانیں اور ان کا مال مویشی بچانے کے لیے کشتیوں کے ذریعے پہنچے ہیں لیکن ان کی نگاہیں حسرت سے اپنی برباد فصلوں کو دیکھ رہی ہیں۔

یہ سیلاب کی صورت حال کوئی نئی نہیں پہلے بھی آتے رہے ہیں لیکن انتہائی غفلت کی بات ہے کہ ایک طرف پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں خطرناک حد تک پانی کی قلت ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ 2040ء تک پاکستان خطے کا پانی کی قلت سے دوچار سب سے زیادہ متاثر ملک بن سکتا ہے۔ ابھی حال ہی میں حکومت کے کرتا دھرتا کہہ رہے تھے کہ بھارت پاکستان جانے والے دریائوں کا پانی روک کر آبی جارحیت کررہا ہے۔ لیجیے اب اس نے دریائوں میں پانی چھوڑ دیا اور ہم واویلا کرنے لگے کہ اب وہ پانی چھوڑ کر پاکستان کو سیلاب کی صورت حال سے دوچار کررہا ہے۔بھارت پانی کو اپنی مرضی سے روک اور چھوڑ سکتا ہے تو کیوں؟ اس سوال پر پاکستانی کرتا دھرتا غور کریں۔ ظاہر ہے اس نے اپنے ڈیم بنائے ہیں، اپنی زراعت کے لیے پانی کو استعمال کرنے کے لیے، لیکن ہم نے اپنی اسمبلیوں میں ڈیم نہ بنانے کے لیے قراردادیں منظور کی ہیں، کیوں کہ ہمیں اپنے بینک بیلنس بڑھانے ہیں، غریب عوام جائیں سیلاب میں ڈوبیں، اپنی جمع پونجی کو روئیں ہمیں پروا نہیں ہے۔ دنیا ڈیم بنا کر میٹھے پانی کو استعمال کررہی ہے اور ہم میٹھے پانی کو سمندر برد کرتے ہیں بلکہ دعائیں کرتے ہیں کہ یہ پانی جلد از جلد سمندر تک پہنچے۔ بھارت ڈیم بنانے والے ملکوں میں امریکا، جاپان، برازیل کے ساتھ سب سے آگے کی صف میں ہے۔ عالمی کمیشن بتاتا ہے کہ بڑا ڈیم وہ ہوتا ہے جو 15 میٹر سے زیادہ بلند ہو یعنی چار منزلہ عمارت کے برابر اونچا ہو، ایسے بڑے ڈیم بھارت میں 5100 ہیں۔ جبکہ پاکستان میں مشکل سے 164 ہیں۔

پاکستان میں پانی کی قلت کا یہ حال ہے کہ 44 فی صد سے زیادہ لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں، دیہی علاقوں میں یہ تعداد 90 فی صد تک پہنچ جاتی ہے جس کے باعث بڑے اور بچے بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ صرف اسہال سے پاکستان میں ہر سال 2 لاکھ بچے انتقال کرجاتے ہیں اور ہمارے ہاں حکومت پولیو کے علاوہ دوسری بیماریوں کو اہمیت دینے کے لیے ہی تیار نہیں۔ پانی زندگی ہے آنے والے وقت میں پانی پر ہونے والی جنگوں کا ہی سوچ کر ہمیں اپنے لوگوں کے لیے سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے سوچنا چاہیے۔ موجودہ سیلاب نے صورت حال کو اچانک انتہائی تیزی سے بدلا، پانی چند گھنٹوں میں اس قدر بڑھا کہ لوگوں کو صرف اپنی جانیں بچا کر نکلنے کا موقع ملا، بہت سے ایسے تھے کہ جنہوں نے گھر چھوڑ کر نکلنے سے انکار کردیا وہ اس امید پر وہاں ٹھیرنا چاہتے تھے کہ شاید پانی جلد ہی اُتر جائے گا۔ لیکن پانی بڑھ گیا اور اتنا بڑھا کہ رضا کاروں کے لیے بھی ان تک پہنچنا مشکل ہوگیا۔ وہ بتارہے ہیں کہ پانی کے نیچے کہیں پلیاں بنی ہوئی ہیں جو نظر نہیں آتیں اور کشتیوں کے اُلٹنے کا خطرہ ہے پھر کیونکہ پانی کے نیچے کھڑی فصلیں موجود ہیں جو کشتیوں کے پنکھوں میں پھنس جاتی ہیں  اور کشتیوں کے لیے حرکت کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ دوسری طرف بھارت کی طرف سے ایک کے بعد ایک بڑا پانی کا ریلہ چھوڑا جارہا ہے جس سے پانی کی سطح اور بہائو میں تیزی آرہی ہے، ایسے میں ابھی کچھ لوگ ڈگمگاتے گھروں کی چھتوں پر موجود ہیں، بہت سے مقامات پر پانی کی سطح آٹھ اور دس فٹ بلند بتائی جارہی ہے جہاں کشتیاں ایسے چل رہی ہیں جیسے دریائوں میں چلتی ہیں۔ لوگ بتارہے ہیں کہ پچھلے سیلابوں میں بھی دریا نے جب بہنا شروع کیا تو گھروں کو گرا کر اس جگہ کو نگل گیا جو اصل میں اس کی ہی تھی۔ خواجہ آصف بھی خوب ہیں، وزیر دفاع کے ساتھ وزیر اطلاعات کی ذمے داری اٹھالیتے ہیں، حکومتوں میں رہتے ہوئے بیان ایسے دیتے ہیں جیسے اپوزیشن میں ہی زندگی گزاری ہے۔ وہ اطلاع دے رہے ہیں کہ سیالکوٹ میں نالوں کی زمین لوگوں کو بیچی گئی، دریا کے راستے میں آبادیاں ہیں، گزرگاہوں پر قبضہ ہوچکا ہے، ہم دریا کے راستوں پر گھر اور ہوٹل بنا لیتے ہیں، دریا ردعمل تو دیتے ہیں، لہٰذا سیلاب کی تباہی ہمارے اپنے کرتوتوں سے ہے۔ تو جناب حکومت میں تو آپ رہے ہیں اور ہیں یہ سب ہورہا تھا تو آپ کیا کررہے تھے؟ عوام سے کہہ رہے ہیں کہ موقع پرستوں کو سسٹم میں لائیں گے تو نقصان ہوگا، جناب جو دو پارٹیاں حکومت میں پچھلے ستر سال سے ہیں وہ ن لیگ اور پی پی ہی ہے اور ٹھیک کہا کہ سب کے سب موقع پرست ہیں جن میں آپ بھی شامل ہیں۔ یہ لاکھوں کیوسک پانی جو ملک کے مختلف صوبوں میں تباہی مچاتا سمندر میں گرے گا کیا اس پانی کو سنبھالنے کے لیے کوئی نظام نہیں بنایا جاسکتا؟ یقینا بنایا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے دیانت دار حکمران ہونے چاہئیں، موقع پرست نہیں۔ افسوس ہماری ترجیحات ہی کچھ اور ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • موقع پرست اور سیلاب کی تباہی
  • اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے جرت مندانہ فیصلے کریں. عمران خان کا چیف جسٹس کو خط
  • بھارت کی مشکلات میں اضافہ، سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدے نے پاکستان کو کتنا مضبوط بنادیا؟
  • اوورسیز پاکستانیوں کیلئے تین استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمدی کر سکتے ہیں
  • دبئی:پاکستانیوں کیلئے ترسیلات زرآسان،بوٹم اورجنگل بے میں اشتراک
  • ہونیاں اور انہونیاں
  • پہلی بار ایک پاکستانی نژاد ساؤنڈ انجینیئر نے گریمی ایوارڈ جیت لیا
  • وفاقی وزیر اوورسیز پاکستانیز و ہیومن ریسورس ڈوویلپمنٹ چوہدری سالک حسین پاکستانی ورک فورس کی ایڈجسٹمنٹ کے لیے دنیا بھر کے ایمپلائرز کے ساتھ ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے میں مصروف ہیں۔ خواجہ رمیض حسن
  • دریائے سندھ میں سیلاب کی تباہ کاریاں، بند ٹوٹ گئے، دیہات زیرِ آب
  • پاکستانی روپے کے مقابل امریکی ڈالر کی قدر مسلسل 29ویں روز بھی تنزلی کا شکار