افغانستان کرکٹ بورڈ (اے سی بی) نے پاکستان اور متحدہ عرب امارات میں 19 فروری سے 9 مارچ 2025 تک ہونے والی آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے لیے حشمت اللہ شاہدی کی قیادت میں 15 رکنی اسکواڈ کا اعلان کردیا ہے۔ ابراہیم زدران کی واپسی، صدیق اللہ اٹل شامل، مجیب الرحمان ٹیم سے باہرہو گئے ہیں۔

اتوار کو افغانستان کے کرکٹ بورڈ کی جانب سے افغانستان نے 50 اوورز کے فارمیٹ میں چیمپیئنز ٹرافی 2025 کے لیے ایک مضبوط ٹیم اسکواڈ کا اعلان کیا ہے، یہ وہ اسکواڈ ہے جس نے 2023 کے ون ڈے ورلڈ کپ میں انتہائی عمدہ کارکردگی دکھائی تھی۔ اس اسکواڈ میں شامل بہترین بلے بازوں اور بولرز نے انگلینڈ، سری لنکا اور پاکستان جیسی سابق 3 سابق عالمی چیمپیئن ٹیموں کو شکست دی تھی۔

حشمت اللہ شاہدی 2023 کے ون ڈے ورلڈ کپ میں شاندار کپتانی کے بعد افغانستان کی قومی کرکٹ ٹیم کی قیادت جاری رکھیں گے۔ ٹاپ آرڈر بلے بازابراہیم زدران ٹخنے کی انجری سے صحت یاب ہونے کے بعد ٹیم میں واپس آگئے ہیں۔

افغانستان کی ایمرجنگ ایشیا کپ جیت میں متاثرکن کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے صدیق اللہ اٹل کو بھی ٹیم میں شامل کیا گیا ہے۔ تاہم جادوئی اسپنرمجیب الرحمان سلیکشن سے محروم ہوگئے ہیں۔ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2025 کا آغاز 19 فروری سے پاکستان میں ہوگا۔

زمبابوے کے خلاف حالیہ ون ڈے سیریز میں پلیئر آف دی سیریز کا اعزاز حاصل کرنے والے صدیق اللہ اٹل بھی اسکواڈ میں شامل ہیں جنہوں نے ایک سینچری اور ایک نصف سینچری سمیت 156 رنز بنائے۔

اے سی بی کے چیئرمین میرویس اشرف نے ٹیم کی بھرپور فارم اور ان کی کارکردگی پراعتماد کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان نے گزشتہ 2 آئی سی سی ایونٹس غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

انہوں نے پاکستان کے سابق کپتان یونس خان کو ٹیم کا مینٹور مقرر کرنے کا بھی اعلان کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ 2 ایونٹس میں کامیابی کے پیش نظرہم یونس خان کے وسیع بین الاقوامی تجربے سے فائدہ اٹھانے کے منتظر ہیں۔

عبوری چیف سلیکٹر احمد سلیمان خیل نے مجیب الرحمان کی ٹیم سے غیر موجودگی کی وضاحت کی۔ انہوں نے کہا کہ مجیب سلیکشن کے لیے دستیاب نہیں تھے کیونکہ ان کے ڈاکٹر نے انہیں ون ڈے میں واپسی سے قبل مکمل صحت یابی کو یقینی بنانے کے لیے ٹی 20 پر توجہ مرکوز کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ زمبابوے کے خلاف حالیہ سیریز سے بھی باہر ہوگئے تھے۔

انہوں نے ٹورنامنٹ کے لیے ٹیم کی تیاریوں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم ٹورنامنٹ سے قبل متعدد مرحلوں میں تیاری کیمپ لگائیں گے۔ توقعات بہت زیادہ ہیں اور مجھے امید ہے کہ ٹیم مضبوط کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی جیسا کہ انہوں نے گزشتہ 2 ورلڈ کپ میں کیا تھا۔

آئی سی سی چیمپیئنزٹرافی 2025 کے لیے افغانستان کا اسکواڈ

آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی کے لیے حشمت اللہ شاہدی (کپتان)، رحمت شاہ (نائب کپتان)، رحمان اللہ گرباز (وکٹ کیپر)، اکرام علی خیل (وکٹ کیپر)، ابراہیم زدران، صدیق اللہ اٹل، عظمت اللہ عمرزئی، محمد نبی، گلبدین نائب، راشد خان، اے ایم غضنفر، نور احمد، فضل حق فاروقی، نوید زدران اور فرید احمد ملک شامل ہیں۔

ریزروکھلاڑیوں میں درویش رسولی، ننگیال کھروٹی، بلال سمیع شامل ہیں

افغانستان کو گروپ مرحلے میں سخت مقابلوں کا سامنا کرنا پڑے گا، آئی سی سی کی جانب سے جاری شیڈول کے مطابق افغانستان کو21 فروری کو کراچی میں جنوبی افریقہ کے خلاف میدان میں اترنا ہوگا۔

افغانستان کا دوسرا میچ26 فروری کو لاہور میں انگلینڈ کے خلاف تیسرا میچ 28 فروری کو لاہور میں آسٹریلیا کے خلاف ہوگا۔

سیمی فائنلز 4 اور 5 مارچ کو دبئی اورلاہور میں شیڈول ہیں جبکہ فائنل 9 مارچ کو لاہور یا دبئی میں کھیلا جائے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: انہوں نے کے خلاف کہا کہ کے لیے

پڑھیں:

تجدید وتجدّْ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251103-03-9

 

4

مفتی منیب الرحمن

اس کائنات میں ایک اللہ تعالیٰ کا تشریعی نظام ہے‘ جس کے ہم جوابدہ ہیں اور اْس پر اْخروی جزا وسزا کا مدار ہے اور دوسرا تکوینی نظام ہے‘ جس میں بندے کا کوئی عمل دخل نہیں ہے‘ یہ سراسر اللہ تعالیٰ کی مشِیئت کے تابع ہے اور اس پر جزا وسزا کا مدار نہیں ہے۔ تکوینی نظام سبب اور مسبَّب اور علّت ومعلول کے سلسلے میں مربوط ہے۔ ’’سبب‘‘ سے مراد وہ شے ہے جو کسی چیز کے وجود میں آنے کا باعث بنے اور اْس کے نتیجے میں جو چیز وجود میں آئے‘ اْسے ’’مْسَبَّب‘‘ کہتے ہیں‘ اسی کو علّت ومعلول بھی کہتے ہیں لیکن منطق وفلسفہ میں دونوں میں معنوی اعتبار سے تھوڑا سا فرق ہے۔ اسی بنا پر اس کائنات کے نظم کو عالَم ِ اسباب اور قانونِ فطرت سے تعبیر کرتے ہیں۔

معجزے سے مراد مدعی ِ نبوت کے ہاتھ پر یا اْس کی ذات سے ایسے مافوقَ الاسباب امور کا صادر ہونا جس کا مقابلہ کرنے سے انسان عاجز آ جائیں۔ نبی اپنی نبوت کی دلیل کے طور پر بھی معجزہ پیش کرتا ہے۔ مادّی اسباب کی عینک سے کائنات کو دیکھنے والے کہتے ہیں: قانونِ فطرت اٹل ہے‘ ناقابل ِ تغیّْر ہے‘ لہٰذا قانونِ فطرت کے خلاف کوئی بات کی جائے گی تو اْسے تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ منکرین ِ معجزات نے مِن جملہ دیگر معجزات کے نبیؐ کے معراجِ جسمانی کا بھی انکار کیا اور کہا: ’’رسول اللہؐ کا جسمانی طور پر رات کو بیت المقدس جانا اور وہاں سے ایک سیڑھی کے ذریعے آسمانوں پر جانا قانونِ فطرت کے خلاف اور عقلاً مْحال ہے۔ اگر معراج النبی کی بابت احادیث کے راویوں کو ثِقہ بھی مان لیا جائے تو یہی کہا جائے گا کہ اْنہیں سمجھنے میں غلطی ہوئی۔ یہ کہہ دینا کہ اللہ اس پر قادر ہے‘ یہ جاہلوں اور ’’مرفوع القلم‘‘ لوگوں کا کام ہے‘ یعنی ایسے لوگ مجنون کے حکم میں ہیں‘ کوئی عقل مند شخص ایسی بات نہیں کر سکتا۔ قانونِ فطرت کے مقابل کوئی دلیل قابل ِ قبول نہیں ہے۔ ایسی تمام دلیلوں کو اْنہوں نے راوی کے سَہو وخطا‘ دور اَز کار تاویلات‘ فرضی اور رکیک دلائل سے تعبیر کیا‘‘۔ (تفسیر القرآن) یہ سرسیّد احمد خاں کی طویل عبارت کا خلاصہ ہے۔ الغرض وہ معجزات پر ایمان رکھنے والوں کو جاہل اور دیوانے قرار دیتے ہیں‘ ہمیں وحی ِ ربانی کے مقابل عقلی اْپَج کی فرزانگی کے بجائے دیوانگی کا طَعن قبول ہے‘ کیونکہ قدرتِ باری تعالیٰ کی جلالت پر ایمان لانے ہی میں مومن کی سعادت ہے اور یہی محبت ِ رسولؐ کا تقاضا ہے۔ ان کی فکر کا لازمی نتیجہ یہ ہے: اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق اور مختارِ کْل نہیں ہے‘ بلکہ العیاذ باللہ! وہ اپنے بنائے ہوئے قوانین ِ فطرت کا پابند ہے۔

ہم کہتے ہیں: بلاشبہ اسباب موثر ہیں‘ لیکن اْن کی تاثیر مشیئتِ باری تعالیٰ کے تابع ہے‘ لیکن یہ اسباب یا قانونِ فطرت خالق پر حاکم ہیں اور نہ وہ اپنی قدرت کے ظہور کے لیے ان اسباب کا محتاج ہے۔ وہ جب چاہے ان کے تانے بانے توڑ دے‘ معطَّل کر دے اور اپنی قدرت سے ماورائے اَسباب چیزوں کا ظہور فرمائے‘ مثلاً: عالَم ِ اسباب یا باری تعالیٰ کی سنّت ِ عامّہ کے تحت انسانوں میں مرد و زَن اور جانوروں میں مادہ ونَر کے تعلق سے بچہ پیدا ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے‘ چنانچہ اْس نے سیدنا عیسیٰؑ کو بِن باپ کے‘ سیدہ حوا کو کسی عورت کے واسطے کے بغیر اور سیدنا آدمؑ کو ماں باپ دونوں واسطوں کے بغیر پیدا کر کے یہ بتا دیا کہ اْس کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے۔ لیکن غلام احمد پرویز اور مرزا غلام قادیانی وغیرہ سیدنا عیسیٰؑ کے بن باپ کے پیدا ہونے کو تسلیم نہیں کرتے‘ جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’بیشک (بن باپ کے پیدا ہونے میں) عیسیٰؑ کی مثال آدم کی سی ہے‘ اللہ نے انہیں مٹی سے پیدا فرمایا‘ پھر اْس سے فرمایا: ہو جا‘ سو وہ ہوگیا‘‘۔ (آل عمران: 59) الغرض یہود کی طرح انہیں عفت مآب سیدہ مریمؑ پر تہمت لگانا تو منظور ہے‘ لیکن معجزات پر ایمان لانا قبول نہیں ہے۔

قرآنِ کریم کی واضح تعلیم ہے کہ کسی کو دین ِ اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’دین (قبول کرنے) میں کوئی زبردستی نہیں ہے‘‘۔ (البقرہ: 256) مگر جو دائرۂ اسلام میں داخل ہوگیا ہو اْسے مسلمان رہنے کا پابند کیا جائے گا‘ اسی لیے اسلام میں اِرتداد موجب ِ سزا ہے‘ جبکہ موجودہ متجددین کے نزدیک ارتداد اور ترکِ اسلام کوئی جرم نہیں ہے۔ جمہورِ امت کے نزدیک کتابیہ عورت سے مسلمان مرد کا نکاح جائز ہے‘ لیکن مسلمان عورت کا کتابی مرد سے نکاح جائز نہیں ہے‘ مگر متجددین ائمۂ دین کے اجماعی موقف سے انحراف کرتے ہوئے اس نکاح کے جواز کے قائل ہیں۔

اگر آپ اس تجدّْدی فکر کی روح کو سمجھنا چاہیں تو وہ یہ ہے کہ جمہور امت وحی ِ ربانی کو حتمی‘ قطعی اور دائمی دلیل سمجھتے ہیں‘ جبکہ یہ حضرات اپنی عقلی اْپَج کو وحی کے مقابل لاکھڑا کرتے ہیں اور عقلی نتیجہ ٔ فکر کے مقابل انہیں وحی کو ردّ کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔ وحی بتاتی ہے کہ عاقل مومن کو وحی اور خالق کی مرضی کے تابع رہ کر چلنا ہے‘ جبکہ تجدّْد کے حامی کہتے ہیں: ’’میرا جسم میری مرضی‘‘۔ بعض متجدِّدین حدیث کو تاریخ کا درجہ دیتے ہیں‘ جو رَطب ویابس کا مجموعہ ہوتی ہے‘ اْن کے نزدیک حدیث سے کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا‘ ماضی میں ایسے نظریات کے حامل اپنے آپ کو اہل ِ قرآن کہلاتے تھے۔ اگر حدیث سے مطلب کی کوئی بات ثابت ہوتی ہو تو اپنی تائید میں لے لیتے ہیں اور اگر اْن کی عقلی اْپج کے خلاف ہو تو انہیں حدیث کو ردّ کرنے میں کوئی باک نہیں ہوتا۔ جبکہ احادیث ِ مبارکہ کی چھان بین اور صحت کو طے کرنے کے لیے باقاعدہ علوم اصولِ حدیث و اسمائْ الرِّجال وضع کیے گئے ہیں‘ جبکہ تاریخ کی چھان پھٹک اس طرح نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور ہم نے آپ کی طرف ذِکر (قرآنِ کریم) اس لیے نازل کیا ہے کہ آپ لوگوں کو وہ احکام وضاحت کے ساتھ بتائیں جو اْن کی طرف اُتارے گئے ہیں اور تاکہ وہ غور وفکر کریں‘‘۔ (النحل: 44) الغرض قرآنِ کریم کی تبیِین کی ضرورت تھی اور اْس کے مْبَیِّن (وضاحت سے بیان کرنے والے) رسول اللہؐ ہیں۔ اگر شریعت کو جاننے کے لیے قرآن کافی ہوتا تو مزید وضاحت کی ضرورت نہ رہتی‘ اسی لیے قرآنِ کریم نے ایک سے زائد مقامات پر فرائضِ نبوت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’اور وہ انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں‘‘۔ اکثر مفسرین کے نزدیک حکمت سے مراد سنّت ہے۔

ایک صحابیہ اْمِّ یعقوب تک حدیث پہنچی‘ جس میں سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت کے مطابق رسول اللہؐ نے بعض کاموں پر لعنت فرمائی ہے۔ وہ عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: ’’میں نے دو جلدوں کے درمیان پورا قرآن پڑھا ہے‘ مجھے تو اس میں یہ باتیں نہیں ملیں‘‘۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’اگر تْو نے توجہ سے قرآن پڑھا ہوتا تو تمہیں یہ باتیں مل جاتیں‘ کیا تم نے قرآن میں یہ آیت نہیں پڑھی: ’’اور جو کچھ تمہیں رسول دیں‘ اْسے لے لو اور جس سے وہ روکیں‘ اْس سے رک جائو‘‘۔ (الحشر: 7) اْمِّ یعقوب نے کہا: ’’کیوں نہیں! میں نے یہ آیت پڑھی ہے‘‘ تو ابن مسعودؐ نے فرمایا: رسول اللہؐ نے ان باتوں سے منع فرمایا ہے۔ اْس نے کہا: ’’میں نے دیکھا ہے کہ آپ کی اہلیہ یہ کام کرتی ہیں‘‘۔ عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’جائو دیکھو‘‘۔ وہ گئی اور دیکھا کہ وہ ایسا کوئی کام نہیں کرتیں‘ عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا: ’’اگر میری اہلیہ ایسے کام کرتیں تو میں اْن سے تعلق نہ رکھتا۔ (بخاری)۔

(جاری)

مفتی منیب الرحمن

متعلقہ مضامین

  • افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، ذبیح اللہ مجاہد
  • بھارتی کرکٹ بورڈ نے ایک مرتبہ ایشیا کپ کی ٹرافی کی ڈیمانڈ کردی
  • شمالی وزیرستان؛ ڈی پی او کے اسکواڈ پر حملہ، 5 پولیس اہلکار زخمی
  • ایشیز سیریز اہم قرار، آسٹریلوی کرکٹرز بھارت کیخلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز چھوڑنے لگے
  • تجدید وتجدّْ
  • پاک افغان تعلقات عمران خان دور میں اچھے تھے، ذبیح اللہ مجاہد
  • قال اللہ تعالیٰ  و  قال رسول اللہ ﷺ
  • لبنان میں کون کامیاب؟ اسرائیل یا حزب اللہ
  • پی ٹی آئی رہنما ذاتی نہیں قومی مفاد میں کام کریں: رانا ثنا اللہ
  • ذاتی مفادات کی سیاست چھوڑ کر قومی مفاد کے لیے کام کریں، رانا ثنا اللہ کی پی ٹی آئی رہنماؤں کو تلقین