چیمپیئنز ٹرافی کیلیے افغانستان کے اسکواڈ کا اعلان، اہم کھلاڑی ڈراپ
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
کراچی:
چیمپیئنز ٹرافی 2025 کے لیے افغانستان کے 15 رکنی اسکواڈ کا اعلان کر دیا گیا جبکہ اسپنر مجیب الرحمٰن اسکواڈ کا حصہ نہیں بن سکے۔
اگلے ماہ 19 فروری سے پاکستان میں شروع ہونے والے ایونٹ میں افغان ٹیم کی قیادت حشمت اللہ شاہدى کریں گے۔
تجربہ کار اسپنر مجیب الرحمٰن کی جگہ غضنفر کو اسکواڈ میں شامل کیا گیا ہے۔ غضنفر اس وقت آئی ایل ٹی20 میں ایم آئی ایمریٹس کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
افغان کرکٹ بورڈ کے عبوری چیف سلیکٹر احمد سلیمان کے مطابق ڈاکٹرز نے مجیب الرحمٰن کو مکمل صحتیابی تک صرف ٹی20 فارمیٹ پر توجہ دینے کا مشورہ دیا اس لیے انہیں اسکواڈ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔
اسکے علاوہ، اوپننگ بلے باز ابراہیم زدران کی فٹ ہوگئے ہیں جس پر انکی اسکواڈ میں واپسی ہوئی ہے۔ ستمبر 2024 میں بھارت کے خلاف ٹیسٹ میچ سے قبل پریکٹس سیشن کے دوران ابراہیم زدران زخمی ہوگئے تھے۔
واضح رہے کہ چیمپیئنز ٹرافی میں افغانستان پہلی مرتبہ شرکت کر رہا ہے۔
افغانستان اسکواڈ
حشمت اللہ شاہدی (کپتان)، ابراہیم زدران، رحمٰن اللہ گربز، صدیق اللہ اٹل، رحمت شاہ، اکرام علی خیل، گلبدین نائب، عظمت اللہ عمرزئی، محمد نبی، راشد خان، اے ایم غضنفر، نور احمد، فضل الحق فاروقی، فرید ملک، نوید زدران۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسکواڈ کا
پڑھیں:
بیروت اور دمشق سے ابراہیم معاہدہ ممکن نہیں، اسرائیلی اخبار معاریو
اپنے ایک کالم میں اسرائیلی تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں یکطرفہ شرائط پر امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اسلام ٹائمز۔ اسرائیلی فوج کے ریٹائرڈ کرنل اور مشرق وسطیٰ امور کے ماہر "موشے ایلاد" نے "معاریو" اخبار میں لکھا کہ مشرق وسطیٰ میں یکطرفہ شرائط پر امن قائم نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ 2020ء میں اسرائیل اور کچھ عرب ممالک کے درمیان ہونے والا "ابراہیم معاہدہ شام اور لبنان تک بڑھایا نہیں جا سکے گا۔ تاہم موشے ایلاد نے اس معاہدے کو اسرائیل اور عرب ممالک کے تعلقات میں تاریخی قدم اور معیاری تبدیلی قرار دیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ یہ معاہدے نہ صرف سفارتی تعلقات کی نوید دیتے ہیں بلکہ ٹیکنالوجی، معیشت، سیاحت، سیکورٹی اور زراعت کے شعبوں میں بھی معمول کے تعلقات کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ انہوں نے یہ سوال ابھارا کہ کیا ابراہیم معاہدہ واقعی دونوں فریقوں کے لیے فائدہ مند ہیں یا اسرائیل کو ہمیشہ ممکنہ خطرات کا سامنا رہے گا؟۔ اس سوال کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مذکورہ سوال کا جواب اس معاہدے کی کامیابی کی تفصیلات میں پوشیدہ ہے۔ انہوں نے وضاحت کے ساتھ کہا کہ ابراہیم اکارڈ کا حصہ بننے والے ممالک کے ساتھ اسرائیل کے یہ معاہدے ایک نئی سیاسی صورتحال کا نتیجہ ہیں، وہ ممالک جو اقتصادی ترقی کے بارے میں سوچتے ہیں اور اپنے مفادات کو ایک مختلف نقطہ نظر سے دیکھنے کے لیے تیار ہیں۔ البتہ شام اور لبنان میں ایسی صورتحال ممکن نہیں۔
اس ریٹائرڈ کرنل نے دعویٰ کیا کہ ابراہیم معاہدہ سفارتی تعلقات سے آگے بڑھ کر دہشت گردی اور ایران جیسے مشترکہ خطرات سے نمٹنے کے بارے میں ہے جن سے اسرائیل فرنٹ لائن پر نبرد آزما ہے۔ اس کے باوجود انہیں شک ہے کہ خطے کے تمام ممالک قیام امن کے لیے حقیقی تعاون کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے گہرے شک کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا واقعی یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ ابراہیم معاہدہ شام اور لبنان جیسے ممالک تک پھیلایا جا سکے گا؟۔ جس کی مستقبل میں کوئی خاص امید نہیں۔ دونوں ممالک کی اسرائیل کے ساتھ دشمنی کی ایک طویل تاریخ ہے اور اندرونی سیاسی مخالفت بھی امن کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہو گی۔ آخر میں اس اسرائیلی تجزیہ کار نے کہا کہ اگر ہم صحیح معنوں میں شام اور لبنان کے ساتھ امن کے خواہاں ہیں تو ہمیں نہ صرف سلامتی کے میدان میں بلکہ اقتصادی و ثقافتی میدانوں میں بھی ٹھوس کامیابیوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اس راستے میں صبر اور موجودہ عمل میں بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ سب سے بڑھ کر ان دو ممالک میں عوامی شعور کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ، ابراہیم معاہدے کی کامیابیاں بے حسی اور منفی رویے کی دیوار سے ٹکرا سکتی ہیں۔