سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے رکن جسٹس حسن اظہر رضوی نے سویلین کے ملٹری ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت میں کہا ہے کہ دیکھنا چاہتے ہیں کیا ملزمان کو اپنے دفاع میں گواہان پیش کرنے دیے گئے یا نہیں؟ پیش کردہ شواہد کا معیار بھی دیکھنا چاہتے ہیں. کیا آرمی ایکٹ میں بعد میں کی گئی ترامیم کو 9 مئی پرلاگو کیا جاسکتا ہے؟جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی.
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل جاری رکھے۔جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ کونسے مقدمات فوجی عدالتوں کو منتقل ہوئے اور کیوں ہوئے؟ اپنے دلائل منگل تک مکمل کرلیں. جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرمی ایکٹ کے مطابق تمام جرائم کا اطلاق فوجی افسران پر ہوگا۔خواجہ حارث نے کہا کہ سویلنز کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے سیکشن 31 ڈی کے تحت آتا ہے. جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سیکشن 31 ڈی تو فوجیوں کو فرائض کی انجام دہی سے روکنے پراکسانے سے متعلق ہے. فوجی عدالتوں میں کون سا کیس جائے گا یہ دیکھنا ہے۔وکیل نے بتایا کہ آئین کو معطل کرنے کی سزا آئین کے آرٹیکل 6 میں ہے جو ہر قانون پر فوقیت رکھتا ہے. جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عدلیہ مارشل لا کی توثیق کرتی رہی، کیا غیرآئینی اقدام پر ججز بھی آرٹیکل 6 کے زمرے میں آتے ہیں؟ جسٹس محمد علی مظہربولے پرویز مشرف کیس میں ججزکے نام دیے گئے تھے. سنگین غداری ٹرائل میں بعد ازاں ججز کے نام نکال دیے گئے۔جسٹس حسن اظہررضوی نے کہا کہ کیا ہم فوجی عدالتوں کے حالیہ فیصلوں کاجائزہ لے سکتے ہیں؟ کیا ہمیں دکھایا جائے گا کہ ٹرائل میں قانون پر عملدرآمد ہوا یا نہیں؟ جسٹس امین الدین نے کہا کہ اگر ضرورت ہوئی تو عدالت آپ سے ریکارڈ مانگ لے گی، سزا یافتہ لوگوں نے اپیلیں بھی کرنی ہیں جس پر اثرانداز
نہیں ہونا چاہتے۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ بینچ سربراہ سے معذرت کے ساتھ ملٹری کورٹس کے فیصلوں کا جائزہ لینا ضروری ہے. ضابطہ فوجداری میں بھی لکھا تو سب ہے لیکن قانون کے مطابق ٹرائل نہ ہونے پر ہی اپیل ہوتی ہے۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے بتایا کہ موجودہ کیس میں ٹرائل روکے بھی سپریم کورٹ نے تھے اور فیصلے سنانے کی مشروط اجازت بھی سپریم کورٹ نے ہی دی، دیکھنا چاہتے ہیں .کیا ملزمان کو اپنے دفاع میں گواہان پیش کرنے دیے گئے یا نہیں؟ پیش کردہ شواہد کا معیار بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔خواجہ حارث نے کہا کہ تمام مقدمات تو نہیں ایک کیس کا ریکارڈ عدالت کو دکھا سکتے ہیں .تاہم عدالت شواہد کا میرٹ پر جائزہ نہیں لے سکتی. جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ ہم کسی سے ذکر نہیں کریں گے لیکن عدالت جائزہ لینے کا اختیار رکھتی ہے. آرمی ایکٹ کی کچھ دفعات میں اگست 2023 کو ترمیم کی گئی.کیا بعد میں کی گئی ترامیم کو 9 مئی واقعات پر لاگو کیا جاسکتا ہے؟عدالت نے سماعت ایک روز کے لیے ملتوی کردی۔ خواجہ حارث کل بھی دلائل جاری رکھیں گے۔
ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ:
جسٹس حسن اظہر رضوی
فوجی عدالتوں
خواجہ حارث
آرمی ایکٹ
نے کہا کہ
رضوی نے
دیے گئے
پڑھیں:
سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے وفاقی اداروں میں سخت تشویش
کراچی (نیوز ڈیسک) سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے ایف آئی اے سمیت وفاقی اداروں میں سخت تشویش اور پریشانی کی صورتحال ‘فیصلے کے اطلاق سے FIA اور سائبر کرائم کے بھرتی شدہ ملازمین متاثر ہوں گے۔
سات ماہ قبل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 19 صفحات پر ایک فیصلہ صادر کیا کہ ماضی میں کابینہ کے ذیلی کمیٹی کا یہ فیصلہ کہ گریڈ 16 اور اس سے اوپر کے افسران جو فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں شرکت کیے بغیر اور کانٹریکٹ پر بھرتی کیے گئے تھے ان کو ریگولرائز کئے جانے کا فیصلہ غیر قانونی اور غیر آئینی تھا۔
مذکورہ فیصلے سے وفاقی اداروں ایف آئی اے اور خاص طور پر سائبر کرائم میں سخت تشویش اور بے چینی پائی جاتی ہے کیونکہ ماضی میں بھی 2019 میں سپریم کورٹ کے ایک تین رکنی بینچ نے ایڈہاک بنیادوں پر بھرتی اور فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں نہ شرکت کرنے والے ایف آئی اے کے 53 افسران جن میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر سے لے کر ڈپٹی ڈائریکٹرز تک کے افسران شامل تھے اور جن کی نوکریاں 25 سے 30 برس پر محیط تھیں ان کو نوکریوں سے برخاست کر دیا گیا تھا۔
صرف دو افسران ایف پی ایس سی کے انٹرویو میں پاس ہوئے باقی 53 فیل ہو گئے تھے۔
Post Views: 1