وزیر قانون نے انسانی اسمگلنگ کیخلاف حکومتی اقدامات بتادیے
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے انسانی اسمگلنگ کے خلاف حکومتی اقدامات بتادیے۔
قومی اسمبلی اجلاس میں انسانی اسمگلنگ کے خلاف مناسب اقدامات نہ ہونے پر توجہ دلاؤ نوٹس ایوان میں پیش کیا گیا، جس پر وفاقی وزیر قانون نے جواب دیا۔
انہوں نے کہا کہ انسانی اسمگلنگ کےخلاف جنگی بنیادوں پراقدامات کررہے ہیں، 2024ء میں انسانی اسمگلنگ کے 3 ہزار 456 مقدمات رجسٹرڈ اور 1 ہزار 638 انسانی اسمگلرز گرفتار کیے گئے۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے گجرات اور حافظ آباد میں کارروائی کرکے 2 انسانی اسمگلرز گرفتار کرلیے۔
اعظم نذیر تارڑ نے ایوان کو بتایا کہ 2024ء میں ریڈ بک میں شامل 38 انسانی اسمگلر گرفتار ہوئے جبکہ انسانی اسمگلنگ کے 15 ماسٹر مائنڈ حراست میں لیے گئے، 68 اعشاریہ81 ملین مالیت کے اثاثے بھی منجمد کیے گئے۔
وفاقی وزیر قانون نے مزید کہا کہ دسمبر 2024ء میں 42 واقعات ہوئے، ایف آئی اے افسران کے خلاف بھی کاروائیاں کی گئیں، یونان کشتی حادثے پر 38 افسران کو نوکریوں سے برخاست کیا گیا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ سزاؤں کو بڑھاکر ناقابل ضمانت کی کیٹیگری میں ڈال دیا گیا، اب صرف نوٹیفائیڈ ججز ان کیسز کو سنیں گے۔
سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف انسانی اسمگلنگ کے معاملے پر ہفتہ وار بریفنگ لے رہے ہیں، اس حوالے سے ایک بل بھی لارہے ہیں، پرامید ہیں ایوان ساتھ دے گا۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: انسانی اسمگلنگ کے
پڑھیں:
وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کی چلتن گھی مل کیخلاف اقدامات کی ہدایات
کوئٹہ میں منعقدہ اجلاس میں 33 سال سے زیر قبضہ چلتن گھی مل کو سیل کرنے اور قابضین کیخلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔ اسلام ٹائمز۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کی زیر صدارت چلتن گھی مل سے متعلق اہم اجلاس چیف منسٹر سیکرٹریٹ کوئٹہ میں منعقد ہوا۔ جس میں صوبائی وزیر انڈسٹریز سردار کوہیار خان ڈومکی، چیف سیکرٹری بلوچستان شکیل قادر خان، پرنسپل سیکرٹری بابر خان، ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان، سیکرٹری انڈسٹریز، کمشنر کوئٹہ، ڈپٹی کمشنر کوئٹہ، ایڈمنسٹریشن کوئٹہ میونسپل کارپوریشن سمیت متعلقہ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں 33 سال سے زیر قبضہ چلتن گھی مل کو سیل کرنے اور قابضین کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔ سیکرٹری انڈسٹریز نے وزیراعلیٰ بلوچستان کو تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ 1992 میں معاہدے کی خلاف ورزی پر نجی کمپنی کی لیز ختم کردی گئی تھی، تاہم اس کے باوجود کمپنی نے غیر قانونی طور پر مل پر قبضہ برقرار رکھا ہے۔
 
 بریفنگ میں بتایا گیا کہ قابضین کی جانب سے عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ میں دائر درخواستیں بھی مسترد ہوچکی ہیں، جبکہ کمپنی پر حکومت بلوچستان کے 23 کروڑ روپے سے زائد کی رقم واجب الادا ہے۔ وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے اس معاملے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ محکموں کو ہدایت کی کہ چلتن گھی مل کو فوری طور پر سرکاری تحویل میں لیا جائے اور قابضین کے خلاف قانونی و انتظامی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ وزیراعلیٰ نے واضح کیا کہ سرکاری املاک پر قبضہ کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت بلوچستان کی پالیسی بالکل واضح ہے۔ سرکاری اثاثے عوام کی امانت ہیں۔ ان پر نجی قبضے کسی قیمت پر قبول نہیں کیے جائیں گے۔ سرفراز بگٹی نے متعلقہ محکموں کو ہدایت کی کہ سابق نجی کمپنی کے تمام قبضہ شدہ حصے واگزار کرائے جائیں۔ واجب الادا رقم کی فوری وصولی یقینی بنائی جائے اور اس ضمن میں غفلت برتنے والے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے۔