سابق وفاقی وزیر اسد عمر کا کہنا ہے کہ میں نے سیاست میں نہیں آنا لیکن خدمت کیلئے تیار ہوں۔

لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ امریکا میں ہونے والے فیصلے پاکستان پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

اسد عمر کا کہنا ہے کہ بانی پی ٹی آئی واضح کہہ چکے وہ امریکا کی طرف نہیں دیکھ رہے۔

سابق وزیر نے یہ بھی کہا کہ فیصلے تحریک انصاف کے حق میں ہوں یا خلاف، یہیں ہونے چاہئیں۔

دوسری جانب لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں اسد عمر کی 3 مقدمات میں درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی۔

عدالت نے مقدمے کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے سماعت 12 فروری تک ملتوی کر دی۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

ٹرمپ کو ایک اور جھٹکا، امریکی عدالت کا وائس آف امریکا کو بحال کرنے کا حکم

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک بار خفگی کا سامنا کرنا پڑا ہے جب امریکی عدالت نے ان کے ایک اور حکم نامے کو معطل کردیا۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایک وفاقی جج نے وائس آف امریکا (VOA) کو بند کرنے کے ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی حکم نامے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے عمل درآمد سے روک دیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ حکومت کی جانب سے فنڈنگ میں کٹوتیوں کے باعث وائس آف امریکا اپنی 80 سالہ تاریخ میں پہلی بار خبر رسانی سے قاصر رہا۔

جج رائس لیمبرتھ نے کہا کہ حکومت نے وائس آف امریکا کو بند کرنے کا اقدام ملازمین، صحافیوں اور دنیا بھر کے میڈیا صارفین پر پڑنے والے اثرات کو نظر انداز کرتے ہوئے اُٹھایا۔

عدالت نے حکم دیا کہ وائس آف امریکا، ریڈیو فری ایشیا، اور مڈل ایسٹ براڈ کاسٹنگ نیٹ ورکس کے تمام ملازمین اور کنٹریکٹرز کو ان کے پرانے عہدوں پر بحال کیا جائے۔

جج نے یہ بھی کہا کہ حکومت نے ان اقدامات کے ذریعے انٹرنیشنل براڈکاسٹنگ ایکٹ اور کانگریس کے فنڈز مختص کرنے کے اختیار کی خلاف ورزی کی۔

وائس آف امریکا VOA کی وائٹ ہاؤس بیورو چیف اور مقدمے میں مرکزی مدعی پیٹسی وداکوسوارا نے انصاف پر مبنی فیصلے پر عدالت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ حکومت عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کرے گی۔

انہوں نے مزید کہا ہم وائس آف امریکا کو غیر قانونی طور پر خاموش کرنے کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے، جب تک کہ ہم اپنے اصل مشن کی جانب واپس نہ آ جائیں۔

امریکی عدالت نے ٹرمپ حکومت کو حکم دیا ہے کہ ان اداروں کے تمام ملازمین کی نوکریوں اور فنڈنگ کو فوری طور پر بحال کرے۔

یاد رہے کہ صدر ٹرمپ کے حکم پر وائس آف امریکا سمیت دیگر اداروں کے 1,300 سے زائد ملازمین جن میں تقریباً 1,000 صحافی شامل تھے کو جبری چھٹی پر بھیج دیا گیا تھا۔

وائٹ ہاؤس نے ان اداروں پر " ٹرمپ مخالف" اور "انتہا پسند" ہونے کا الزام لگایا تھا۔

وائس آف امریکا نے ریڈیو نشریات سے دوسری جنگ عظیم کے دوران نازی پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے آغاز کیا تھا اور آج یہ دنیا بھر میں ایک اہم میڈیا ادارہ بن چکا ہے۔

یاد رہے کہ صدر ٹرمپ طویل عرصے سے VOA اور دیگر میڈیا اداروں پر جانبداری کا الزام عائد کرتے ہوئے کڑی تنقید کا نشانہ بناتے آئے ہیں۔

اپنے دوسرے دورِ صدارت کے آغاز میں ٹرمپ نے اپنی سیاسی اتحادی کاری لیک کو VOA کا سربراہ مقرر کیا تھا جو ماضی میں 2020 کے انتخابات میں ٹرمپ کے دھاندلی کے دعووں کی حمایت کر چکی ہیں۔

 

 

متعلقہ مضامین

  • پہلگام واقعہ؛ سابق بھارتی کپتان بھی مودی کی زبان بولنے لگے
  • نوازشریف کا وہ بیان جو بھارت نے عالمی عدالت میں پیش کیا اس پر سابق وزیراعظم قوم سے معافی مانگیں
  • ایران، انڈیا اور پاکستان کے درمیان مفاہمت کروانے کیلئے تیار ہے، سید عباس عراقچی
  • غزہ: ملبے تلے لاپتہ افراد کی باوقار تجہیزوتکفین کی دلدوز کوشش
  • پاکستان کی فضائی حدود بھارتی پروازوں کیلئے بند، مسلح افواج ملکی سلامتی اور دفاع کیلئے تیار ہیں، ترجمان دفتر خارجہ
  • بانیٔ پی ٹی آئی کب رہا ہوں گے۔..? سابق صدرِ عارف علوی بھی بول پڑے۔
  • ہمیں تیار رہنا چاہیے بھارت کوئی بھی حرکت کرسکتا ہے،سابق سفیر عبدالباسط
  • عالمی عدالت نے نیتن یاہو کو گرفتار کرنے کا حکم دیا، مگر اس فیصلے کا احترام امریکا سمیت کوئی نہیں کررہا، فضل الرحمان
  • سپریم کورٹ نے بیوہ خواتین کے حق میں بڑا فیصلہ جاری کردیا
  • ٹرمپ کو ایک اور جھٹکا، امریکی عدالت کا وائس آف امریکا کو بحال کرنے کا حکم