جو پاکستان کے آئین اور قانون کو نہیں مانتا تو ڈنڈا چلے گا، فیصل کریم کنڈی
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
پشاور میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے گورنر کے پی فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ صوبے میں لوٹ بازار گرم ہے، نوکری اور تبادلے پیسوں پر ہورہے ہیں۔ ہمیں وزیراعلیٰ پر اعتماد نہیں ہے۔ اسلام ٹائمز۔ خیبر پختونخوا کے گورنر فیصل کریم کنڈی کا کہنا ہے کہ ہمیں وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور پر اعتماد نہیں ہے۔ صوبائی دارالحکومت پشاور میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے گورنر کے پی فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ صوبے میں لوٹ بازار گرم ہے، نوکری اور تبادلے پیسوں پر ہورہے ہیں۔ ہمیں وزیراعلیٰ پر اعتماد نہیں ہے وہ اپنے ضلع کو نہیں سنبھال سکتے، جو بھی ہو ملک میں انتشار پھیلانے نہیں دیں گے۔ گورنر کے پی نے کہا کہ آرمی چیف سے ملاقات ہوئی ہے نیشنل ایکشن پلان پر عمل کریں گے، وفاقی حکومت اور فوج مداخلت کرے گی تو معاملات ٹھیک ہوں گے۔
جو پاکستان کے آئین اور قانون کو نہیں مانتا تو ڈنڈا چلے گا، وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور اپنی بات کرتےہیں صوبے کی نہیں۔ خود اسلام آباد میں احتجاج کرتے ہیں اور پشاور میں بلدیاتی نمائندوں پر لاٹھی چارج کرتے ہیں۔ ہم نے پرامن صوبہ دیا تھا انہوں نے انتشار پھیلا دیا۔ فیصل کریم کنڈی کا مزید کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان کو مسیحا بنا دیا ہے۔ پی ٹی آئی این آر او کے لیے پاؤں پڑ رہی ہے۔ شرائط پر مذاکرات نہیں ہوتے۔ پاکستان پیپلز پارٹی مذاکرات پر یقین رکھتی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: فیصل کریم کنڈی
پڑھیں:
میں آئین کی بالادستی اور قوم کی خدمت کیلئے سخت اور طویل سزا کاٹ رہا ہوں، عمران خان
اپنے ایکس اکاونٹ میں سابق وزیراعظم نے لکھا ہے کہ میرے اہلِخانہ کی جانب سے بھیجی گئی کتابیں کئی ماہ سے روک لی گئی ہیں۔ ٹی وی اور اخبارات تک رسائی بھی بند کر دی گئی ہے۔ میں نے پرانی کتابوں کو بارہا پڑھا، لیکن اب وہ بھی میسر نہیں۔ میرے تمام بنیادی انسانی حقوق پامال کیے جا چکے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ سہولیات جو عام قیدیوں کو بھی جیل کے قانون کے تحت ملتی ہیں، وہ بھی مجھ سے چھین لی گئی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ سابق وزیراعظم عمران خان کے ٹویٹر اکاونٹ سے پیغام جاری کیا گیا ہے، جس میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی سیاسی رہنما کیساتھ ایسا سلوک روا نہیں رکھا گیا جیسا کہ آج میرے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ نواز شریف نے اربوں کی کرپشن کی، اس کے باوجود اسے جیل میں ہر ممکن سہولت فراہم کی گئی۔ اس کے برعکس، کبھی کسی بے قصور اور غیر سیاسی خاتونِ خانہ کو ایسے غیر انسانی حالات میں قید نہیں کیا گیا جیسے آج بشریٰ بی بی کو کیا گیا ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ’’میں ملک میں آئین کی بالادستی اور قوم کی خدمت کیلئے اس وقت سب سے سخت اور طویل سزا کاٹ رہا ہوں، ظلم اور آمریت کی انتہا یہ ہے کہ وضو کیلئے دیا گیا پانی بھی گندا اور مٹی آلود ہوتا ہے، جو کسی انسان کیلئے قابلِ استعمال نہیں۔
عمران خان کے اکاونٹ میں مزید لکھا گیا ہے کہ میرے اہلِخانہ کی جانب سے بھیجی گئی کتابیں کئی ماہ سے روک لی گئی ہیں۔ ٹی وی اور اخبارات تک رسائی بھی بند کر دی گئی ہے۔ میں نے پرانی کتابوں کو بارہا پڑھا، لیکن اب وہ بھی میسر نہیں۔ میرے تمام بنیادی انسانی حقوق پامال کیے جا چکے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ سہولیات جو عام قیدیوں کو بھی جیل کے قانون کے تحت ملتی ہیں، وہ بھی مجھ سے چھین لی گئی ہیں۔ کئی بار درخواست دینے کے باوجود مجھے اپنے بچوں سے بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ سیاسی ملاقاتیں بھی محدود کر دی گئی ہیں، صرف مخصوص ’’چنے ہوئے افراد‘‘ سے ملاقات کی اجازت ہے، باقی سب پر پابندی ہے۔ میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں پارٹی کا ہر فرد فوری طور پر آپس کے تمام اختلافات بھلا دے اور مکمل طور پر 5 اگست کی تحریک پر توجہ دے۔ اس وقت مجھے تحریک میں کوئی خاص جوش یا حرکت نظر نہیں آ رہی۔ میں ایک 78 سال پرانے نظام سے لڑ رہا ہوں، اور میری سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس بے مثال جبر کے باوجود عوام میرے ساتھ کھڑے ہیں۔
عمران خان کے ایکس اکاونٹ میں مزید لکھا گیا کہ 8 فروری (2024) کو عوام نے تحریکِ انصاف پر ایسا اعتماد کیا کہ انتخابی نشان کے بغیر بھی آپ کو ووٹ دیا۔ اس واضح مینڈیٹ کے بعد پارٹی کے ہر فرد پر اخلاقی اور سیاسی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عوام کی آواز بنے۔ اس نازک وقت میں پارٹی کے اندر اختلافات اور گروہ بندی کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔ جو کوئی بھی پارٹی میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کرے گا، اسے باہر نکال دیا جائے گا۔ میں اپنی نسلوں کے مستقبل کیلئے یہ جنگ لڑ رہا ہوں، اور میری ہر قربانی اسی مقصد کے لیے ہے۔ اس وقت پارٹی میں دراڑ ڈالنا میرے مشن اور نظریے سے کھلی غداری ہو گی۔ فارم 47 کے ذریعے بنائی گئی اس جعلی حکومت نے 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدلیہ کو مفلوج کر دیا ہے۔ جانبدار ججز جس طرح انصاف کا خون کر رہے ہیں، وہ پوری قوم کے سامنے عیاں ہے۔ ہمیں عدلیہ کی آزادی کیلئے بھرپور مہم کا آغاز کرنا ہو گا، کیونکہ کوئی بھی قوم عدالتی آزادی کے بغیر نہ زندہ رہ سکتی ہے، نہ ترقی کر سکتی ہے۔