بیرون ملک میڈیکل میں داخلوں کیلیے بھی ایم ڈی کیٹ لازمی قرار
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
کراچی(مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل نے بیرون ممالک کے میڈیکل کالجوں میں داخلہ کے خواہشمند پاکستانی طالب علموں کے لیے MDCAT کے امتحان میں شرکت اور کامیابی کو لازمی قرار دے دیا۔ یہ بات پی ایم ڈی سی کے ایگزیکٹوکمیٹی کے رکن جواد امین خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے بتایا کہ انٹرسائنس پری میڈیکل کا امتحان پاس کرنے والے پاکستانی طالب علم بیرون ملک کے میڈیکل کالجوں میں ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس کے داخلوں کے لیے پاکستانی ایجنٹوں کے ذریعے داخلے لیتے ہیں۔ان کالجوں میں داخلے کی کیا پالیسی ہوتی ہے، اس کے بارے میں پی ایم ڈی سی کو کوئی آگاہی نہیں ہوتی،اسی لیے پی ایم ڈی سی نے فیصلہ کیا ہے کہ بیرون ملک کے میڈیکل کالجوں میں جو طالب علم ایم بی بی ایس یا بی ڈی ایس میں داخلے کے لیے رجوع کرے گا پہلے وہ ایم ڈی کیٹ کے امتحان میں رجسٹریشن کرائے گا اور لازمی کامیابی حاصل کرے گا۔ان طالب علموں کے ایم ڈی کیٹ کے امتحان کے لیے پالیسی وضع کرلی گئی ہے۔ اس اقدام سے بیرون ملک میڈیکل کالجوں مٰیں داخلے لینے والے طالب علموں کا نہ صرف ڈیٹا مرتب ہوگا بلکہ ایم ڈی کیٹ میں کامیابی کے بعد وہ جس ملک کے میڈیکل کالج میں داخلہ حاصل کریں گے انہیں ایم ڈی کیٹ کے امتحان میں کامیابی کا سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے گا۔ان طالب علموں کی ایم ڈی کیٹ کے امتحان کے ساتھ ساتھ پی ایم ڈی سی میں رجسٹریشن بھی کی جائے گی، اس حوالے سے جلد ایک مفصل پالیسی کا اجرا پی ایم ڈی سی کرے گی، جو طالب علم اس وقت بیرون ممالک کے میڈیکل کالجوں میں بڑھ رہے ہیں ان کے حوالے سے بھی پی ایم ڈی سی اپنی پالیسی میں اصلاحات لارہی ہے۔انہوں نے بتایا کہ بیرون ممالک سے جو طالب علم میڈیکل ایجوکیشن حاصل کرکے وطن واپس آئے گا اب ان کے ایکولینسی ٹیسٹ NUMS لے گی اور کامیاب ہونے والوں کی کونسل میں بحیثیت ڈاکٹر رجسٹریشن کی جاسکے گی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پی ایم ڈی سی طالب علموں بیرون ملک طالب علم کے لیے
پڑھیں:
پاکستان میں شعبہ صحت کا بحران:ساڑھے 7 لاکھ افراد کیلیے صرف ایک ڈاکٹر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد:پاکستان میں صحتِ عامہ کی صورت حال بدستور تشویش ناک ہے، جہاں ہر 7لاکھ 50 ہزار شہریوں کے لیے محض ایک ڈاکٹر میسر ہے۔
یہ حیران کن انکشاف وفاقی حکومت کی جانب سے جاری کردہ سالانہ اقتصادی سروے برائے مالی سال 2024-25 میں کیا گیا ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ صحت پر حکومتی توجہ نہایت محدود اور وسائل غیر تسلی بخش ہیں۔
سروے رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں صحت کے شعبے پر رواں مالی سال کے دوران مجموعی طور پر 925 ارب روپے خرچ کیے گئے، جو جی ڈی پی کا ایک فیصد بھی نہیں بنتے۔ ماہرین صحت کے مطابق یہ شرح نہ صرف عالمی معیار سے بہت کم ہے بلکہ ملک کی بڑھتی آبادی، موسمیاتی اثرات اور وبائی خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ اخراجات انتہائی ناکافی قرار دیے جا رہے ہیں۔
پاکستان کی 24 کروڑ سے زائد آبادی کے مقابلے میں صرف 3 لاکھ 19 ہزار رجسٹرڈ ڈاکٹرز دستیاب ہیں۔ اگرچہ گزشتہ ایک سال میں ڈاکٹروں کی تعداد میں 20 ہزار سے زائد کا اضافہ ہوا، مگر یہ اضافہ بھی آبادی کے تناسب سے نہایت کم ہے۔ رپورٹ کے مطابق دانتوں کے امراض کے لیے مختص ماہرین یعنی ڈینٹسٹ کی مجموعی تعداد 39 ہزار 88 ہے، جو ملک کی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔
دیگر طبی عملے کی صورت حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ نرسز کی کل تعداد ایک لاکھ 38 ہزار، دائیوں کی تعداد 46 ہزار 801 اور لیڈی ہیلتھ ورکرز صرف 29 ہزار ہیں۔ دیہی علاقوں خاص طور پر سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں بھی اس عملے کی شدید قلت محسوس کی جا رہی ہے، جس کے باعث زچگی، بچوں کی پیدائش اور عام بیماریوں کا بروقت علاج مشکل ہو چکا ہے۔
طبی انفرا اسٹرکچر کے حوالے سے بھی صورت حال تسلی بخش نہیں ہے۔ ملک میں اسپتالوں کی تعداد صرف 1696 ہے جب کہ بنیادی ہیلتھ یونٹس 5434 بتائے گئے ہیں۔ دور دراز علاقوں میں ان سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث لاکھوں افراد کو علاج کے لیے بڑے شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے، جہاں نہ صرف اخراجات زیادہ ہیں بلکہ رسائی بھی ایک مسئلہ ہے۔
ایک اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں بچوں کی شرح اموات اب بھی بلند سطح پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہر 1000 بچوں میں سے 50 شیرخوار سالانہ طور پر جان کی بازی ہار جاتے ہیں، جو عالمی سطح پر انتہائی تشویش ناک شرح سمجھی جاتی ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات میں خوراک کی کمی، ناقص ویکسینیشن نظام اور بروقت طبی امداد کی عدم دستیابی شامل ہیں۔
اگرچہ رپورٹ میں اوسط عمر میں بہتری کا عندیہ دیا گیا ہے ، جو اب 67 سال 6 ماہ تک پہنچ چکی ہے ، لیکن ماہرین صحت کے مطابق یہ بہتری صرف شہری علاقوں تک محدود ہے، جب کہ دیہی علاقوں میں صورت حال اب بھی بدتر ہے۔ صحت کے شعبے میں پائیدار اصلاحات، فنڈز کا شفاف استعمال اور طبی عملے کی بھرتی جیسے اقدامات ناگزیر ہیں۔
اقتصادی سروے کے ان اعداد و شمار نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ پاکستان میں صحت کا شعبہ مسلسل نظراندازکیا جا رہا ہے۔ اگر حکومت اور پالیسی سازوں نے سنجیدہ اور بروقت اقدامات نہ کیے تو ملک کو مستقبل میں مزید بڑے صحت کے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔