سال نو کا جشن؛ لاس اینجلس میں آگ کب اور کیسے لگی، حیران انکشافات
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
لاس اینجلس کے جنگلات میں لگنے والی آگ سے متعلق نئی معلومات نے پچھلے تمام دعوے اور اندازے غلط ثابت کردیئے۔
امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق آتشزدگی کی تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ آگ کا آغاز 7 جنوری سے نہیں بلکہ یکم جنوری سے ہو گیا تھا۔
تحقیق کاروں سے گفتگو میں متاثرہ علاقے کے رہائشیوں نے بتایا کہ انہی پہاڑوں پر ایک جگہ بھی یکم جنوری کو آگ لگی تھی تاہم اس آگ سے مختصر رقبہ متاثر ہوا تھا۔
رہائشیوں نے شکوہ کیا کہ انتظامیہ نے اس آگ پر توجہ نہیں دی اور اسے بڑھنے سے روکنے کے لیے کوئی خاص قدم نہیں اُٹھایا گیا۔
انھوں نے مزید بتایا کہ بعد ازاں لگنے والی آگ کو بجھانے میں پیشہ ورانہ طریقہ کار اختیار کرنے کے بجائے عجلت سے کام لیا گیا۔
متاثرہ علاقوں کے رہائشیوں نے آغ سے متعلق معلومات کے تاخیر سے لوگوں تک پہنچانے کا الزام بھی عائد کیا جس کے باعث زیادہ نقصان ہوا۔
امریکی میڈیا نے بھی 2 جنوری اور 7 جنوری کی سیٹلائٹ تصاویر بھی جاری کیں جن میں ایک ہی مقام سے آگ کا دھواں اٹھتا ہوا دیکھا گیا۔
رہائشیوں کا یہ بھی خیال ہے کہ یکم جنوری کو لگنے والی آگ نئے سال کے جشن پر ہونے والی آتش بازی کے نتیجے میں لگی تھی۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: والی ا
پڑھیں:
سندھ میں 28 برس بعد چائلڈ لیبر پر سروے، ہوش رُبا انکشافات سامنے آگئے
کراچی:سندھ میں چائلڈ لیبر سے متعلق 28 سال بعد ہونے والے جامع سروے میں ہوش رُبا انکشافات سامنے آگئے۔
سندھ چائلڈ لیبر سروے 2022–2024ء کی چونکا دینے والی رپورٹ کے مطابق صوبے بھر میں اب بھی 16 لاکھ سے زائد بچے محنت مشقت جیسے مسائل میں گرفتار ہیں۔
ڈائریکٹر جنرل محکمہ محنت سندھ محمد علی شاہ کا کہنا ہے کہ سروے محکمہ محنت سندھ، یونیسیف اور بیورو آف اسٹیٹکس کے اشتراک سے مکمل کیا گیا جس میں انکشاف ہوا ہے کہ 16 لاکھ سے زائد بچے چائلڈ لیبر میں مبتلا ہیں، جن میں سے نصف سے زائد 10 سے 17 سال کی عمر کے وہ بچے ہیں جو خطرناک حالات میں کام کر رہے ہیں جہاں طویل اوقات، شدید موسم اور غیر محفوظ آلات ان کا مقدر بن چکے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق محنت کش بچوں کی اسکول حاضری کی شرح صرف 40.6 فیصد ہے جبکہ وہ بچے جو چائلڈ لیبر کا شکار نہیں، ان کی حاضری 70.5 فیصد ہے اور جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے اسکول چھوڑنے کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے، خاص طور پر 14 سے 17 سال کی لڑکیوں میں جو اوسطاً ہفتے میں 13.9 گھنٹے گھریلو کاموں میں مشغول رہتی ہیں اور تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنا ان کے لیے مزید مشکل ہو جاتا ہے۔
اس حوالے سے ڈائریکٹر جنرل محکمہ محنت سندھ محمد علی شاہ کا کہنا ہے کہ سروے رپورٹ حکومت سندھ کو پیش کر دی گئی ہے اور یہ خوش آئند ہے کہ 1996ء کے مقابلے میں صوبے میں چائلڈ لیبر کی مجموعی شرح میں تقریباً 50 فیصد کمی آئی ہے تاہم اب بھی کئی اضلاع میں صورت حال تشویشناک ہے جیسے قمبر شہداد کوٹ میں چائلڈ لیبر کی شرح سب سے زیادہ 30.8 فیصد، تھرپارکر میں 29 فیصد، شکارپور میں 20.2 فیصد، اور ٹنڈو محمد خان میں 20.3 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ کراچی میں سب سے کم 2.38 فیصد ہے۔
ڈی جی محکمہ محنت محمد علی شاہ نے بتایا کہ چائلڈ لیبر غربت سے گہرا تعلق رکھتی ہے اور غریب گھرانوں میں سے 33.7 فیصد نے کم از کم ایک ایسا بچہ ہونے کی تصدیق کی جو کام پر جاتا ہے جبکہ 20.1 فیصد محنت کش بچوں میں ڈپریشن کی علامات پائی گئیں جو کہ غیر محنت کش بچوں کے مقابلے میں تقریباً دگنا ہیں۔
حکومت کو اس رپورٹ کی روشنی میں فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ چائلڈ لیبر کے خاتمے اور بچوں کے محفوظ، تعلیم یافتہ اور روشن مستقبل کو یقینی بنایا جاسکے۔