خاص مدت تک ملازمت کرنیوالے افراد کو پری میچور رٹائرمنٹ کا آپشن دیا جائے گا، اعظم تارڑ
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
اسلام آباد:
سینیٹ کا اجلاس ڈپٹی چیئرمین سیدال خان کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔حاجی ہدایت کے سوال پروفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ کاروبار کرنا حکومتوں کا کام نہیں، خسارے میں چلنے والے اداروں کی وجہ سے قومی خزانے کو سیکڑوں ارب کا خسارہ برداشت کرنا پڑرہا ہے، ایک خاص مدت تک ملازمت کرنے والے ملازمین کو پری میچور رٹائرمنٹ کا آپشن دیا جائیگا.
انہوں نے کہا کہ کہ جو بینک پرائیویٹائز ہوئے وہ آج بہترین کام کررہے ہیں،تین وزارتیں بند ہوگئی ہیں۔
وقفہ سوالات کے دوران اعظم تارڑ نے بتایا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں8,747بے ضابطگیوں کے کیسز رجسٹر ہوئے تھے تاہم انھوں نے وضاحت کی کہ ان بے ضابطگیوں کے باعث کوئی مالی نقصان نہیں ہوا کیونکہ ان تمام کیسز میں رقم کی ریکوری کر لی گئی ہے۔
پروگرام میں 14کروڑ سے زائد کا غبن ہوا، تقریباً 7 کروڑ سے زائد رقم واپس کروالی گئی،12 یا 14سو ارب روپے تقسیم کے دوران 14کروڑ کا غبن اتنا بڑا مسئلہ نہیں، اس میں کاہلی یا سستی بھی ہوئی ہے، اتنی بڑی رقم کے مقابلے میں 14کروڑ کی رقم کا تناسب انتہائی کم ہے۔
تحریک انصاف کے سینیٹرعون عباس نے کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ ملازم صبح نوکری پر آئے اور شام کو کہا جائے صبح آپ نا آئیں۔
ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے دوران اجلاس سینیٹر عون عباس کے رویے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں وارننگ جاری کی اور کہا کہ وہ ان کے پارلیمانی لیڈر علی ظفر کو اپنے چیمبر میں طلب کر رہے ہیں تاکہ آئندہ نظم و ضبط کو یقینی بنایا جا سکے۔
اجلاس میں پاکستان منرلز ریگولیٹری اتھارٹی بل 2024 پر قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم کی رپورٹ پیش کی۔کھاد پروڈیوسر زکو گیس کی قیمت میں 17ارب روپے کی سالانہ سبسڈی کی فراہمی تفصیلات اور وجوہات سے متعلق قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم کی رپورٹ بھی پیش کی گئی اجلاس جمعے کی صبع ساڑھے دس تک کیلیے ملتوی کردیا گیا۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
بھارتی اقدامات سے خطہ غیر مستحکم ہو چکا، پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے: رضا ربانی
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) سابق چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ بھارت نے اپنی داخلی ناکامیوں کا الزام پاکستان پر ڈالا ہو۔ سندھ طاس معاہدہ 1960ء میں عالمی بنک کی سرپرستی میں طے پایا تھا۔ بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے کو معطل نہیں کر سکتا۔ یہ معاہدہ پاکستان اور بھارت کی کئی جنگوں اور دہائیوں پر مشتمل دشمنی کے باوجود قائم رہا۔ اس معاہدے کو معطل کرنا بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ یہ معطلی آبی دہشتگردی ہے۔ کوئی فریق اس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل نہیں کر سکتا۔ بھارتی ردعمل کے نتیجے میں پورا خطہ غیر مستحکم ہو چکا ہے۔ اس کی تمام تر ذمہ داری بھارت پر عائد ہوتی ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو وقتی طور پر اپنے سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال دینا چاہئے۔