پاکستان میں انار کا زیر کاشت رقبہ 7330 ہیکٹرز اور پیداوار 37613ٹن تک پہنچ گئی
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
مکوآنہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 جنوری2025ء)پاکستان میں انار کا زیر کاشت رقبہ 7330 ہیکٹرز اور پیداوار 37613ٹن تک پہنچ گئی جبکہ پنجاب میں 1235ہیکٹرز رقبہ پر انار کی کاشت سے 8202ٹن پیداوار حاصل ہوتی ہے۔ریسرچ انفارمیشن یونٹ آری فیصل آباد کے ترجمان نے بتایاکہ پنجاب میں انار کا کل زیر کاشت رقبہ 17فیصد اور کل پیداوار 22فیصد ہے۔
انہوں نے بتایاکہ پاکستان میں سب سے زیادہ انار بلوچستان میں کاشت ہوتا ہے جہاں اس کا زیر کاشت رقبہ 5863ہیکٹرزہے جو کل رقبے کا 80فیصد بنتا ہے۔اسی طرح یہاں سے 27113ٹن انار کی پیداوار حاصل ہوتی ہے جو کل پیداوار کا 72فیصد ہے۔انہوں نے بتایاکہ خیبر پختونخواہ میں انار کا زیر کاشت رقبہ صرف 3فیصد کے تناسب سے 232ہیکٹرز اور پیداوار 6فیصد کے تناسب سے 2298ٹن ہے۔(جاری ہے)
انہوں نے بتایاکہ انار کی کاشت بلوچستان کے علاقوں لورا لائی،قلات اورکوئٹہ پنجاب میں مظفر گڑھ تحصیل علی پور، رحیم یار خان تحصیل لیاقت پور، بہاولپور اور ملتان جبکہ خیبر پختونخواہ میں اس کی کاشت پشاور و ڈیرہ اسماعیل خان میں کی جاتی ہے۔انہوں نے بتایاکہ کشمیر،مری،چوآ سیدن شاہ اور ایبٹ آباد میں بھی خود رو انار پیدا ہوتا ہے جس سے انار دانہ بنایا جاتا ہے۔انہوں نے بتایاکہ انار میں توانائی، کاربوہائیڈریٹ،وٹامن سی،فائبر، آئرن،پوٹاشیم،فاسفورس،میگنیشیم،کیلشیم اور زنک پائے جاتے ہیں جو انسانی صحت کیلئے انتہائی مفید ہیں۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کا زیر کاشت رقبہ میں انار کا
پڑھیں:
مسابقتی کمیشن کی اسٹیل سیکٹر کو درپیش چیلنجز اور پالیسی خلا کی نشاندہی
—فائل فوٹومسابقتی کمیشن نے اسٹیل سیکٹر میں کمپٹیشن کی صورتِ حال پر رپورٹ جاری کردی۔ رپورٹ میں اسٹیل سیکٹر کو درپیش مسابقتی چیلنجز اور پالیسی خلا کی نشاندہی کی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق قومی اسٹیل پالیسی نہ ہونے سے صنعت غیریقینی اور بےضابطگیوں کا شکار ہے۔
مسابقتی کمیشن کی رپورٹ میں چین اور بھارت کی طرز پر اسٹیل کی علیحدہ وزارت بنانے کی بھی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیل اسکریپ کی درآمد 2.7 ملین میٹرک ٹن، مقامی پیداوار 8.4 ملین میٹرک ٹن رہی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اسٹیل 2015 سے غیرفعال ہے اور 400 ارب روپے کے واجبات کا بوجھ ہے، اسٹیل کی 60 فیصد پیداوار غیرمعیاری ہے۔ سابق فاٹا/پاٹا سے بغیر ٹیکس اسٹیل کی منتقلی سے 40 ارب کا نقصان ہوا۔
مسابقتی کمیشن کی رپورٹ میں ٹیکس اصلاحات، معیار کے نفاذ، گرین ٹیکنالوجی اپنانے کی سفارش اور اسٹیل سیکٹر میں شفاف اور پائیدار اصلاحات پر زور دیا گیا ہے۔