سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم پرکیس کی سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
اسلام آباد : سپریم کورٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم کے کیس کی سماعت کے دوران بنچ ٹوٹ گیا۔
کیس کی سماعت جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کر رہا تھا، لیکن سماعت کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ جسٹس عقیل عباسی اس کیس کا فیصلہ پہلے ہی سندھ ہائی کورٹ میں کر چکے ہیں، اس لیے آج کیس کی سماعت نہیں ہو سکتی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیس کو پیر کو پہلے والے بنچ کے ذریعے سنا جائے گا اور اس کے لیے نیا بنچ تشکیل دینا پڑے گا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مزید وقت دینے کی درخواست کی جس پر جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیس کو پیر کو فکس ہونے دیں اور پھر مہلت پر بات کی جائے گی۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کرتے ہوئے اٹارنی جنرل آفس کو معاونت کے لیے نوٹس جاری کر دیا۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: کیس کی سماعت
پڑھیں:
9 مئی کیسز: صنم جاوید کی بریت کیخلاف سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی
— فائل فوٹوسپریم کورٹ نے صنم جاوید کی بریت کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔
عدالت میں 9 مئی کیسز میں صنم جاوید کی بریت کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت ہوئی۔
پنجاب حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ صنم جاوید کے ریمانڈ کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر ہوئی ہے۔
پنجاب حکومت کے وکیل نے بتایا کہ ریمانڈ کے خلاف درخواست میں لاہور ہائی کورٹ نے صنم جاوید کو کیس سے بری کر دیا ہے۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے پنجاب حکومت کے وکیل سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ 9 مئی کے کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہو چُکیں کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے، آپ اب یہ کیس کیوں چلانا چاہتے ہیں؟
پنجاب حکومت کے وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر فیصلہ دیا اور صنم جاوید کو بری کیا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے یہ سن کر کہا کہ میرا اس حوالے سےفیصلہ موجود ہے کہ ہائی کورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں، اگر ہائی کورٹ کو کوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہو رہی ہے تو اختیارات استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
بھلوال میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ ہماری جدوجہد غیر جمہوری سسٹم کے خلاف ہے۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔
پنجاب حکومت کے وکیل نے جسٹس ہاشم کاکڑ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کر سکتی۔
جس پر جسٹس صلاح الدین نے اپنے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کریمنل اپیل میں ہائی کورٹ کے پاس تو سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔
وکیلِ صفائی نے کہا کہ ہم نے ہائی کورٹ میں ریمانڈ کے ساتھ بریت کی درخواست بھی دائر کی تھی۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو 1 سال بعد یاد آیا کہ صنم جاوید نے جرم کیا ہے؟ کیا معلوم کل آپ میرا یا کسی کا نام بھی 9 مئی کے کیسز میں شامل کر دیں۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شریکِ ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے آپ کو بھی معلوم ہے، اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے۔