Jasarat News:
2025-06-10@23:56:03 GMT

اِنَّ بَطشَ رَبِّکَ لَشَدِید

اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT

اِنَّ بَطشَ رَبِّکَ لَشَدِید

مکافات عمل ایک ایسا تصور ہے جس کا تعلق انسان کے اعمال کے نتائج سے ہے، یعنی جو شخص جو عمل کرے گا، اسے اس کے مطابق نتیجہ ملے گا۔ قرآن اور حدیث میں بھی اس بات کا ذکر ہے کہ اچھے اعمال کا اچھا اور برے اعمال کا برا نتیجہ نکلتا ہے۔ غزہ میں مسلمانوں پر میزائلوں کے ذریعے بمباری کرنے والوں کا انجام ان کی اپنی ہی کارروائیوں کا نتیجہ بن سکتا ہے۔ جب ظلم و جبر کا شکار لوگ انتقام کے بجائے اللہ کی مدد پر بھروسا کرتے ہیں، تو اللہ کی قدرت کے سامنے انسان کا کوئی زور نہیں ہوتا۔ اس حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے کہ ظلم اور جبر کا نتیجہ ہمیشہ منفی ہوتا ہے، اور اللہ کی طرف سے آنے والا عذاب انسانوں کو ان کے کیے گئے اعمال کا بدلہ دیتا ہے۔ اس لیے اسلامی تعلیمات میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ظالم حکمرانوں اور طاقتوروں کو تنبیہ کی جاتی ہے کہ وہ اللہ کے عذاب سے بچیں، کیونکہ کوئی بھی ظلم اور جبر آخرکار ان کے لیے تباہی کا باعث بنے گا۔

امریکی حکمرانوں نے غزہ کو جہنم بنانے کی دھمکی دی تھی، مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے اپنے ہی شہر کو جہنم کا منظر بنا دیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے فرعونی لہجے میں حماس کو وارننگ دی تھی کہ ’’اگر یرغمالی میرے اقتدار میں آنے تک واپس نہ آئے تو مشرق وسطیٰ میں قیامت برپا ہو جائے گی۔ اور یہ حماس کے لیے اچھا نہیں ہوگا، اور یہ کسی کے لیے بھی اچھا نہیں ہوگا‘‘۔ لیکن اللہ کے حکم کے سامنے انسان کی کوئی طاقت نہیں، اور قدرت اپنے طور پر اپنا انصاف قائم کرتی ہے۔ آج وہی امریکی حکمران، جنہوں نے دوسروں کے لیے آگ بھڑکائی، خود اپنی سر زمین پر تباہی کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ واقعہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ ہر شخص کو اپنے عمل کا حساب دینا ہوتا ہے، اور اللہ کا عدل نہ صرف دوسروں کے لیے بلکہ انسانوں کے اپنے لیے بھی برپا ہوتا ہے۔

لاس اینجلس، جو کبھی ترقی، سہولتوں اور جدید ٹیکنالوجی کی علامت سمجھا جاتا تھا، پل بھر میں قدرت کے قہر کی لپیٹ میں آگیا۔ جنگلات میں بھڑکنے والی تاریخ کی سب سے ہولناک آگ نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی، بے شمار املاک کو خاکستر کر دیا، اور جدید تمدن کے دعوے خاک میں ملا دیے۔ یہ آفت، جسے امریکی تاریخ کی سب سے مہنگی اور سنگین تباہی قرار دیا جا رہا ہے، اربوں ڈالر کے نقصانات کا سبب بنی ہے۔ یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت لامحدود ہے اور انسان کو اپنے اعمال کا انجام ضرور دیکھنا پڑتا ہے۔ جیسا کرو گے، ویسا ہی بھرو گے۔

صہیونی قوت کی مسلسل حمایت کرنے والے جیمس ووڈ نے تباہ حال مسلمان کے گھر کے ملبے پر بیٹھی مسلم خاتون کی تصویر پوسٹ کرکے کمنٹ کیا تھا ’’شکر ہے کہ اسرائیل نے بائیڈن کے کٹھ پتلی آقاؤں کی بات نہیں مانی۔ ویسے زبردست کام کیا‘‘ اور اس سے آگے بڑھ کر اپنی متعصب بے رحمانہ ذہنیت کی عکاسی کرتے ہوئے کہا تھا ’’نہ سمجھوتا، نہ جنگ بندی، نہ معافی‘‘۔ جب کہ اس پوسٹ کے ساتھ اس نے ’سب کو مار دو‘ کا ہیش ٹیگ بھی استعمال کیا تھا۔ آج وہ ظالم انسان اپنے گھر کو تباہ ہوتا دیکھ کر زار و قطار آنسو بہا رہا ہے۔ وہ مظلوم مسلمانوں کی تکلیف پر خوشی مناتے ہوئے اسرائیل کی جارحیت کو سراہ رہا تھا، جو ایک غیر انسانی اور ظالمانہ عمل کی حمایت کے مترادف تھا۔ یہاں جیمز کو اس کے ماضی کے عمل یا موقف کی یاد دہانی کروائی جا رہی ہے، خاص طور پر اسرائیل کے غزہ میں مبینہ نسل کشی کی حمایت اور اس پر خوشی منانے کے حوالے سے۔ ایسے مواقع پر، یاد دہانی ایک اخلاقی آئینہ پیش کرنے کا کام کر سکتی ہے، تاکہ فرد کو اپنے موقف کی حقیقت اور اثرات کو سمجھنے کا موقع ملے۔

رابرٹ ڈی نیرو جو غزہ میں قتل عام پر جشن مناتا رہا، اس کی 21 ملین ڈالر کی جائداد بھی آگ کی لپیٹ میں آ کر راکھ ہو چکی ہے۔ قرآن کریم میں بارہا یہ بیان کیا گیا ہے کہ ظالموں کو ان کے اعمال کا بدلہ دنیا یا آخرت میں ضرور ملتا ہے۔ یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمیں کسی بھی حالت میں ظلم اور ناانصافی کی حمایت نہیں کرنی چاہیے اور مظلوموں کے درد کو محسوس کرنا چاہیے، کیونکہ اللہ کی پکڑ کسی کو بھی معاف نہیں کرتی۔ ’’یقینا تیرے ربّ کی پکڑ بڑی سخت ہے‘‘۔ (سورہ البروج: 12)

اللہ کی پکڑ کا تعلق صرف انسانوں کے اعمال سے نہیں، بلکہ اس کے عدل و انصاف کی عکاسی بھی ہے جو تمام مخلوقات کے لیے ایک پیغام ہے۔ جب ظلم بڑھتا ہے اور اس کے نتیجے میں تباہی و بربادی آتی ہے، تو یہ دراصل اللہ کی طرف سے ایک تنبیہ ہوتی ہے تاکہ لوگ اپنی روش کو درست کریں اور برائیوں سے بچیں۔ ظالموں کی سزا نہ صرف آخرت میں ہوگی، بلکہ دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کا نظام اپنی تکمیل کرتا ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ظلم کے خلاف آواز اٹھانا، حق کا ساتھ دینا اور مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہونا، یہ سب فرضِ عین ہیں۔ اللہ کی پکڑ کسی کو معاف نہیں کرتی، اور ہر شخص کو اپنے عمل کا نتیجہ بھگتنا پڑتا ہے۔ یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمارے ہر عمل کا اثر ہم پر پڑتا ہے، اور ہم جب ظلم کا حصّہ بننے سے بچیں گے تو اللہ کی رضا اور انصاف ہمارے ساتھ ہوگا۔

لاس اینجلس کی تباہی اس بات کا مظہر ہے کہ دنیاوی ترقی، سہولتیں اور ٹیکنالوجی انسان کو قدرت کے فیصلوں سے محفوظ نہیں رکھ سکتی۔ یہ حادثہ دنیا کو پیغام دیتا ہے کہ انسان کو اپنی طاقت پر گھمنڈ نہیں کرنا چاہیے اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے آگے عاجزی اور شکر گزاری کے ساتھ جھکنا چاہیے۔ یہ واقعات ہمیں اپنی زندگی کا محاسبہ کرنے، اپنے اعمال کی درستی اور اللہ کے احکامات پر عمل کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ یہ حادثہ ہمیں یہ سمجھاتا ہے کہ حقیقی کامیابی دنیاوی مال و دولت یا طاقت میں نہیں، بلکہ اللہ کی رضا اور اس کے احکامات کی پیروی میں ہے۔

غزہ کو تباہ و برباد کرنے والے اسرائیل کے ہم نوا امریکا کو قدرت نے اپنے اعمال کا مزہ چکھا دیا ہے۔ لاس اینجلس، جو امریکا کا ایک شاندار اور ترقی یافتہ شہر تھا، آج تباہی کے مناظر پیش کر رہا ہے اور غزہ جیسا دکھائی دے رہا ہے۔ ہالی ووڈ کی چمک دمک اور امیروں کی پرتعیش رہائش گاہیں راکھ کے ڈھیر میں بدل چکی ہیں، اور وہ مشہور اداکارہ کا گھر بھی برباد ہو چکا ہے جسے 35 ملین ڈالر میں فروخت کے لیے پیش کیا گیا تھا۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ’’آگ کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے اس علاقے پر ایٹم بم گرا دیا ہو‘‘۔ یہ منظر ایک بار پھر اللہ کے انصاف کی حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے۔ جیسا عمل کرو گے، ویسا ہی بدلہ پاؤ گے۔

اسرائیل اور امریکا نے جس طرح غزہ کو تباہ کیا، قدرت نے لاس اینجلس میں اسی طرح کی تباہی کا منظر پیش کیا ہے۔ یہ واقعہ ایک واضح پیغام دیتا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت اللہ کے انصاف سے بچ نہیں سکتی، اور ہر انسان کو اپنے کیے کا بدلہ یہاں ہی ملتا ہے۔ یہ قدرت کا قانون ہے، جو کسی سے نہیں بچ سکتا، اور اس میں انسانوں کو اپنی حقیقت کا احساس دلایا جاتا ہے کہ اللہ کی رضا اور انصاف سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ لاس اینجلس کا واقعہ انسان کو عاجزی اور شکر گزاری کا سبق دیتا ہے۔ یہ واقعہ ہمیں اپنی زندگی کی حقیقت پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے، کہ ہم کس راستے پر جا رہے ہیں اور ہماری ترجیحات کیا ہیں۔ اللہ کے احکامات کی پیروی کرنا اور اس کی رضا کی کوشش کرنا ہماری زندگی کا مقصد ہونا چاہیے۔ قدرتی آفات، جیسے کہ یہ آگ، ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ ہماری دنیا کا کوئی حصّہ بھی اللہ کی مرضی سے باہر نہیں ہے اور کہ ہم سب کو اپنی حقیقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اسلام میں انسانی جان کی قدر و قیمت کو اوّلین ترجیح دی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی زندگی اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک ہے، اور کسی جان کا ضیاع پوری انسانیت کے لیے ایک نقصان سمجھا جانا چاہیے۔ البتہ، مالی نقصان بھی زندگی کا ایک حصّہ ہے اور بعض اوقات یہ انسان کو اس کے افعال پر غور و فکر کرنے اور رجوع الیٰ اللہ کی جانب مائل کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ اس تنبیہ کو سمجھنا اور اپنی زندگی کو درست سمت میں لے جانا، انسان کے لیے رحمت کا سبب بن سکتا ہے۔ یہ سانحہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمیں ہمیشہ شکر گزار رہنا چاہیے اور ہر نقصان یا آزمائش کو اللہ کی طرف سے تنبیہ سمجھ کر اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔

آفات، مسائل اور مشکلات پر خوش ہونا مقصد نہیں ہے، مگر جو ظالم مسلمانوں پر ظلم و جبر کی آگ برسا کر خوشی کا اظہار کرتے ہیں، ان کے لیے یہ اللہ کی طرف سے ایک سخت تنبیہ ہے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے جبر و استہزاء کے ایسے مناظر دیکھے ہیں کہ جن کے سامنے یہ منظر محض دھندلے پڑ جاتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہے جب اللہ کی پکڑ کا پیغام ہر ظالم کے لیے واضح ہے۔ ظالموں، اگر اب بھی تم اپنے گناہوں اور خطاؤں پر توبہ نہیں کرتے تو یاد رکھو، میرے ربّ کی پکڑ نہایت سخت اور بے رحم ہے۔ یہی وقت ہے کہ تم اپنی اصلاح کرو، ورنہ تمہارے کیے کا حساب سخت ہوگا۔

مکافاتِ عمل کا اصول یہ ہے کہ انسان جو عمل کرتا ہے، اس کا نتیجہ اْسے بھگتنا پڑتا ہے۔ اس کا چرخہ آخرکار گھوم کر انسان تک پہنچتا ہے۔ دنیا میں ہونے والی بے انصافیوں، ظلم اور بدعنوانیوں کا حساب آخرکار لیا جائے گا، اور جو لوگ حق کی خلاف ورزی کرتے ہیں، انہیں اس کا بدلہ ملنا ضروری ہے۔ یہ ایک قدرتی اصول ہے جو کسی نہ کسی صورت میں اپنے اثرات مرتب کرتا ہے۔ ظالموں کو ان کے اعمال کا بدلہ مل کر رہتا ہے، اور ہمیں بھی اپنی زندگی میں عدل، انصاف اور حق کے راستے پر چلنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہم بھی اللہ کی پکڑ سے بچ سکیں۔ اسی لیے اس وقت ہمیں اپنے اعمال کا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ فرداً فرداً اور اجتماعی طور پر ہمیں اللہ کے احکامات کی طرف رجوع کرنا چاہیے، کیونکہ یہ وقت دعا، استغفار اور اللہ کی طرف رجوع کا ہے۔ اللہ کی رحمت کا طلب گار ہونا ضروری ہے تاکہ وہ اپنی عنایت سے ہمیں ڈھانپ لے اور ہمیں آزمائشوں میں سرخرو کرے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اللہ کی طرف سے یہ واقعہ ہمیں اپنے اعمال اللہ تعالی لاس اینجلس کے احکامات اپنی زندگی کے اعمال کا نتیجہ انسان کو اور اللہ کہ انسان اعمال کا کے لیے ا کرتا ہے کہ اللہ ظلم اور کو اپنے اللہ کے کا بدلہ ہے کہ ا عمل کا اور اس رہا ہے اور ہم ہے اور کی رضا

پڑھیں:

وطنِ عزیز میں نظامِ مصطفیٰ ﷺ کی جدوجہد

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور آپؐ نے تئیس سال کی نبوی زندگی میں ایک ریاست اور اس کا ایک نظام دیا۔ اس ریاست کو ریاستِ مدینہ کہتے ہیں اور جو نظامِ زندگی دیا تھا اسے نظامِ شریعت کہتے ہیں، نظامِ مصطفٰی کہہ لیں، دینِ اسلام کہہ لیں۔ اس نظام کا مختصر تعارف ہمیں خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پہلے خطبے کے چند جملوں میں مل جاتا ہے جو نظامِ مصطفٰیؐ کے بنیادی ستون ہیں۔
اسلامی ریاست کی بنیادیں کیا ہیں اور اسلام کا سیاسی نظام کیا ہے؟ مجھ سے جب اس بارے میں پوچھا جاتا ہے تو میری گزارش ہوتی ہے کہ تین خطبے اگر ہم بغور پڑھ لیں تو اس حوالے سے بنیادی سوالات کا جواب ہمیں مل جاتا ہے۔ حضرت صدیق اکبرؓ کا پہلا خطبہ اور حضرت فاروقِ اعظمؓ کا پہلا اور آخری خطبہ۔ آج کی سیاسی اصطلاح میں اسے پالیسی سپیچ کہہ لیں۔ یہ تینوں خطبے بخاری شریف میں موجود ہیں اور جو علماء کرام سیاسی نظام سے دلچسپی رکھتے ہیں میری ان سے گزارش ہوتی ہے کہ انہیں یہ خطبے بطور نصاب کے پڑھنے چاہئیں۔
پہلی بات تو میں یہ عرض کروں گا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ خلیفہ کیسے بنے تھے۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے خلافت کے لیے کوئی دعویٰ نہیں کیا اور نہ ہی کسی جنگ کے نتیجے میں اقتدار پر قبضہ کیا، بلکہ ایک مجلس میں اس وقت کے امت کے نمائندوں اور طبقات نے باہمی مشاورت اور اعتماد کے ساتھ حضرت صدیق اکبرؓ کو امیر منتخب کیا تھا۔
بخاری شریف کی روایت ہے، ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دن جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خوشگوار ماحول میں بیٹھے ہوئے تھے، آپؐ نے مجھ سے کہا، عائشہ! ابا جان کو بلاؤ اور بھائی کو بھی، میں کچھ باتیں لکھ دوں، ایسا نہ ہو کہ لوگ کچھ اور دعویٰ کر دیں، میں ابوبکر کے لیے خلافت کی جانشینی لکھ دوں۔ پھر فرمایا کہ رہنے دو ’’یابی اللہ والمومنون الا ابابكر ‘‘ نہ اللہ کسی اور کو بننے دے گا اور نہ مومن کسی اور کو قبول کریں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملے کو اللہ کی تقدیر پر اور عوام کے فیصلے پر چھوڑ دیا تھا اور یہ بڑی حکمت کی بات تھی کیونکہ اگر آپؐ حضرت صدیق اکبرؓ کو نامزد کر دیتے تو پھر قیامت تک نامزدگیاں ہی چلتیں۔
حضرت صدیق اکبرؓ کے ہاتھ پر بیعت ہوئی تو مسجد نبوی میں انہوں نے پہلا خطبہ ارشاد فرمایا :فرمایا کہ میں تم پر امیر بنا دیا گیا ہوں لیکن تم سے بہتر نہیں ہوں۔ اس کا مطلب ہے کہ امیر بنا نہیں کرتے بلکہ بنائے جاتے ہیں۔ اور ’’ولست بخیرکم‘‘ کا جملہ تو کسرِ نفسی میں تھا، اس لیے کہ اس منصب کے لیے ان سے بہتر کون تھا؟ دوسری بات فرمائی کہ میں تمہیں اللہ کی کتاب اور اللہ کے نبی کی سنت کے مطابق لے کر چلوں گا۔ یعنی ریاست اور حکومت کا نظام کتاب اللہ اور سنتِ رسول کے مطابق ہو گا۔ تیسری بات یہ فرمائی کہ اگر قرآن و سنت کے مطابق چلوں تو میری اطاعت تم پر واجب ہے، اور اگر اس سے ہٹ جاؤں تو میری اطاعت تم پر واجب نہیں ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ ریاست اور رعیت کے درمیان کمٹمنٹ اور تعلق کی بنیاد قرآن و سنت ہے۔ اور چوتھی بات یہ فرمائی کہ اگر میں سیدھا چلوں تو میرا ساتھ دو، اور اگر ٹیڑھا چلتا نظر آؤں تو مجھے سیدھا کر دو۔ یعنی عوام اپنے حکمرانوں کا محاسبہ کر سکتے ہیں اور انہیں حقِ احتساب حاصل ہے۔ اسلامی نظامِ حکومت کے یہ چار بنیادی ستون ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی خلیفہ منتخب ہونے کے بعد اپنے پہلے خطبے میں یہی باتیں ارشاد فرمائیں لیکن اس میں یہ اضافہ کیا کہ میں اپنے پیشرو کے فیصلوں کا احترام کروں گا۔ مطلب یہ کہ میں پہلے سے چلے آنے والے تسلسل کو ختم کر کے نئے سرے سے آغاز نہیں کروں گا بلکہ اس تسلسل کو قائم رکھوں گا۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے فرمایا تھا کہ اگر میں ٹیڑھا چلوں تو مجھے سیدھا کر دو، یہی بات حضرت عمرؓ نے اپنے انداز میں فرمائی کہ اگر میں سیدھا چلوں گا تو میرا ساتھ دو گے، اور اگر ٹیڑھا چلوں گا تو کیا کرو گے؟ روایات میں آتا ہے کہ یہ جمعہ کا خطبہ تھا، حضرت عمرؓ نے جب یہ فرمایا تو ایک بدوی کھڑا ہوا اور اس نے نیام سے تلوار نکال کر لہرائی اور کہا ’’یابن الخطاب‘‘ اگر کتاب اللہ اور سنتِ رسول کے مطابق چلے تو ہم تمہاری اطاعت کریں گے اور اگر ٹیڑھے ہوئے تو اس تلوار کے ساتھ تمہیں سیدھا کر دیں گے۔ حضرت عمرؓ منبر پر کھڑے تھے، آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر فرمایا، یااللہ تیرا شکر ہے کہ میری رعیت میں ایسے لوگ موجود ہیں جو عمرؓ کو سیدھا کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
نظامِ مصطفٰیؐ کے ساتھ ہمارا تعلق کیا ہے؟ ایک تعلق تو یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور مسلم معاشرے میں کتاب و سنت کے احکام کو نافذ کرنا ہمارے لیے لازمی ہے ورنہ ہم مسلمان کہلانے کے حقدار نہیں ہیں۔ کوئی بھی مسلمان ریاست پابند ہے کہ قرآن و سنت کے تمام احکام اپنی سوسائٹی میں عملاً‌ نافذ کرے۔ ہم مسلمان عقائد و عبادات کے پابند ہیں، اخلاقی احکام کے پابند ہیں، اور شریعت و قانون کے بھی پابند ہیں ۔ اور جب قرآن و سنت کی بات آتی ہے تو اس میں کوئی ایسی تقسیم نہیں ہے کہ کچھ احکام کو تو ہم لازمی مان لیں اور کچھ کو اختیاری طور پر لیں۔ مثال کے طور پر ’’ اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں۔ اسے تو لازمی سمجھیں، لیکن اس کے ساتھ ’’یا ایہا الذین اٰمنوا کتب علیکم القصاص‘‘ کو ہم اختیاری سمجھیں۔ قرآن کریم میں جیسے نماز فرض کی گئی ہے، ایسے دیگر احکام ہیں جیسے ’’وکتبنا علیہم فیہا ان النفس بالنفس‘‘ ، ’’والسارق والسارقۃ فاقطعوا ایدیہما‘‘، ’’الزانیۃ والزانی فاجلدوا کل واحد منہما مائۃ جلدۃ‘‘۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے اور مسلم ریاست ہونے کی حیثیت سےیہ سب احکام لازمی ہیں۔
جب پاکستان قائم ہوا تھا تو ہم نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی تھی کہ ہم ہندوؤں کے ساتھ نہیں رہ سکتے کہ ہماری تہذیب و ثقافت، ہمارا عقیدہ، ہماری اخلاقیات ان سے مختلف ہیں، ہمیں الگ ملک بنوا دو، اور ’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الٰہ الا اللہ‘‘ کے نعرے کے ساتھ ہم نے اللہ تعالیٰ سے وعدہ کیا تھا کہ اس ملک میں ہم اسلام کا قانون نافذ کریں گے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم و مغفور اور ان کے ساتھ جو صفِ اول کی قیادت تھی انہوں نے اعلان کیا تھا کہ ہم اس نئے وطن کو اسلامی نظام کا نمونہ بنائیں گے، اور ان کی حمایت میں جو علماء کرام تھے، شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ، حضرت مولانا عبدا لحامد بدایونیؒ، حضرت مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹیؒ، حضرت پیر مانکی شریف رحمہم اللہ تعالیٰ ، وہ لوگوں کو یہ یقین دلا رہے تھے کہ واقعی ایسا ہو گا اور ہم ان کے ساتھ ہیں۔ اسلامی نظام کا اعلان قائد اعظم اور لیاقت علی خان کر رہے تھے اور اس کی ضمانت ہمارے علماء کرام دے رہے تھے۔ جبکہ پاکستان بننے کے بعد دستوری طور پر ’’قراردادِ مقاصد‘‘ کی صورت میں جو پہلا فیصلہ ہوا تھا اس کی بنیاد تین باتوں پر ہے: • حاکمیتِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے، • قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا، • اور حقِ حکمرانی عوام کے منتخب نمائندوں کا ہے۔ یہ تینوں نظامِ مصطفٰیؐ کی بنیادیں ہیں۔ میں نے یہ بات عرض کی ہے کہ ہم پاکستانی دوہرے پابند ہیں، کلمہ طیبہ پڑھ کر بھی پابند ہیں اور نظریہ پاکستان کے تحت بھی پابند ہیں۔ ایک بات اور شامل کرنا چاہوں گا کہ اس وقت کشمیر میں بیٹھا ہوا ہوں۔ پاکستان کی جغرافیائی تکمیل کشمیر کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اور آزادئ کشمیر کی تحریک کیا تھی، آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔
( جاری ہے )

متعلقہ مضامین

  • ڈھرکی، ایک اور حوا کی بیٹی غیرت کے نام پر قتل
  • عدالت عمران خان کو رہا کردے تو اس کی حمایت کروں گا، بلاول بھٹو
  • وطنِ عزیز میں نظامِ مصطفیٰ ﷺ کی جدوجہد
  • منی پور ،بھارت کے تابوت میں آخری کیل
  • عدالت عمران خان کو رہا کردے تو اس کی حمایت کروں گا، بلاول بھٹو
  • چہرے روشن، دل سیاہ
  • اللہ تعالیٰ قربانی کے فلسفے کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے‘اعجاز قادری
  • ہمیں ملکر آبی وسائل کی ترقی کے لئے کام کرنا ہوگا، احسن اقبال
  • ✨ قربانی: رسم، روایت یا روح؟
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟