منی پور ،بھارت کے تابوت میں آخری کیل
اشاعت کی تاریخ: 10th, June 2025 GMT
منی پور میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ صرف احتجاج نہیں،حقِ خود ارادیت کی وہ صدا ہے جو دہلی کی در ودیوار کو لرزہ بر اندام، کئے ہوئے ہے۔منی پور کے عوام، اپنی شناخت، اپنی زمین اور اپنے فیصلے واپس مانگ رہے ہیں۔منی پور میں آج پھر کرفیو ہے، انٹرنیٹ بند ہے، سچ پر پہرا ہے۔لیکن آزادی کی طلب وہ شعلہ ہے جو نہ گولی سے بجھتی ہے نہ پابندی سے۔آزادی کی تحریک’’ارمبائی ٹینگول‘‘ کے رہنما کنن سنگھ کی گرفتاری نے عوامی غصے کو ایک بار پھر ہوا دی ہے۔ سڑکیں مظاہرین سے بھر گئیں ،، فوج سے جھڑپیں ہوئیں، اور آواز بلند کی گئی کہ ’’ہم غلام نہیں،منی پور بھارت نہیں ‘‘ تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ منی پور کے نوجوان اپنے گھروں سے نکل کر فوج کے سامنے کھڑے ہیں۔ یہ کوئی وقتی ردعمل نہیں، دہائیوں کے نسلی امتیاز، مذہبی جبر اور ثقافتی یلغار کے خلاف بغاوت ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا منی پور بھارت کا حصہ ہے؟یا صرف نقشے پرصرف ایک لکیر ؟کیا وہاں کے لوگوں کی رائے، ثقافت، مذہب اور خود مختاری کوئی معنی نہیں رکھتی؟یہی سوال آج ہر منی پوری نوجوان کے دل میں آتش حریت کو بھڑکارہے ہیں ۔
منی پور کی چیخ آج آسمانوں سے ٹکرا رہی ہے۔ یہ کوئی معمولی شور نہیں، یہ آزادی کی وہ پکار ہے جو دہلی کے تخت کو للکارتی ہے، بھارت کی بنیادیں ہلاتی ہے۔ منی پورکی یہ آگ محض عمارتوں یا سڑکوں کی نہیں، یہ دلوں کی آگ ہے، غیرت کا شعلہ ہے، جو دہائیوں کے ظلم، جبر اور استحصال سے بھڑک اٹھا ہے۔ سڑکوں پر کرفیو ہے، انٹرنیٹ بند، سچ پر پہرے ہیں، لیکن آزادی کی خواہش کو کون قید کر سکتا ہے؟ یہ وہ نغمہ ہے جو گولیوں سے خاموش نہیں ہوتا، فوج کے بوٹوں سے کچلا نہیں جاسکتا۔ منی پور کے نوجوان، وہ نازک ہاتھ جو کل تک قلم تھامے خواب بنتے تھے، آج پتھر اٹھائے، فوج کے سامنے سینہ تانے کھڑے ہیں۔ یہ لڑائی زمین کی نہیں، یہ جنگ شناخت کی ہے، عزت کی ہے، اپنے وجود کی ہے۔ منی پور کی یہ آواز تنہا نہیں، یہ کشمیر کی چیخ ہے، خالصتان کی آہ ہے، بھارت کی ہر مظلوم قوم کا نعرہ ہے۔جب آرام بائی ٹینگول کے رہنما کنن سنگھ کو گرفتار کیا گیا، تو یہ کوئی معمولی واقعہ نہ تھا۔ یہ ایک چنگاری تھی جو منی پور کے زخمی دل پر گری اور اسے آتش فشاں بنا دیا۔ ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے، انہوں نے ٹائر جلائے، راستے بند کیے، اور اپنے سینوں میں دہکتی آگ کو دنیا کے سامنے رکھ دیا۔ فوج سے جھڑپیں ہوئیں، کچھ نے خودسوزی کی کوشش بھی کی، منی پور میں آزادی کا نعرہ کوئی رات ں رات نہیں گونجا۔ یہ دہائیوں کا درد ہے، جب دہلی نے منی پور کے میتی،کوکی اور دیگر قبائل کو اپنا غلام بنانے کی کوشش کی، ان کی زمین چھینی، ان کی ثقافت کو مسخ کیا ، مذہب کا استحصال کیا ، ہر لمحہ ثابت کیا کہ منی پور کے شہری بھارت کے نقشے پر محض ایک دھبہ ہیں؟ان کی آواز، ان کا درد، ان کی خواہشات کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ یہ سوال جو آج منی پور کی نوجوان نسل کو جوالامکھی بنائے ہوئے ہے، پون صدی سے جاری کشمیریوں کے نعرہ مستانہ کی صدائے بازگشت ہے، خالصتان کے جے کاروں، آزادی کے نعروں کی گونج ہے، تاریخ کا سبق یہ ہے کہ یہ آتش حریت اب بجھنے والی نہیں،ہر اس قومکے دل کی آواز ہے،جو بھارتی جبر کا شکار ہے ، یہ آگ بھارت نام کی ریاست کو بھسم کئے بغیربجھنے والی نہیں۔ منی پور کا ہر نوجوان آج ایک سپاہی ہے، جو بھارت کے جھوٹے وعدوں ،ہندوتوا کی زہریلی چالوں، اور مکروہ بھارتی فوجی جبر کے خلاف لڑ رہا ہے۔
نریندر مودی، بھارت کا وہ وزیراعظم جس نے ہندوتوا کا پرچم بلند کیا اور آج اسی آگ میں خود جل رہا ہے۔ اس کی پالیسیوں نے منی پور کو نہیں، پورے بھارت کو ایک بارود کے ڈھیر پر بٹھا دیا ہے۔ منی پور میں میتی اور کوکی قبائل کے درمیان نسلی کشیدگی کو مودی نے نہ صرف نظر انداز کیا، بلکہ اسے اپنی سیاسی چالوں کا حصہ بنایا۔ کشمیر میں دہائیوں سے جاری ظلم کو اس نے مزید گہرا کیا۔ خالصتان کی آواز، جو کبھی دب سی گئی تھی، آج پھر بلند ہو رہی ہے۔ مودی کا گودی میڈیا، جو سچ کو چھپانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے، منی پور کے درد کو دبا نہیں سکا۔ سوشل میڈیا نے وہ کام کیا جو بھارتی میڈیا نہ کر سکا۔ منی پور کی چیخ آج دنیا کے کونے کونے تک پہنچ رہی ہے۔ ایک ایکس پوسٹ چیختی ہے: ’’منی پور میں ہزاروں لوگ سڑکوں پر ہیں، قبائلی جنگجو آزادی کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ‘‘ یہ آواز بھارت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ منی پور کی یہ لڑائی کوئی چھوٹا موٹا احتجاج نہیں، بھارت کی تباہی کے لئے اٹھا ہوا تیسرا قدم ، پہلا کشمیر ، دوسرا خالصتان اور تیسرا اب منی پور۔ اگر دہلی نے اسے زبردستی دبانے کی کوشش کی، تو یہ آگ دیگر ریاستوں تک پھیلے گی، بھارت کی جعلی وحدت کی لکیرمٹ رہی ہے ، سے بنی ہے، اب ٹوٹ رہی ہے۔ منی پور کا ہر پتھر، ہر نعرہ، ہر چیخ اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ بھارت کی بنیادیں ہل رہی ہیں۔ یہ جنگ بندوقوں سے نہیں جیتی جا سکتی۔ منی پور کے لوگ زمین نہیں، اپنی غیرت، اپنی شناخت مانگ رہے ہیں۔ اور جب کوئی قوم اپنی شناخت کے لیے اٹھتی ہے، تو اسے کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔
مودی کا سب سے بڑا کارنامہ کیا ہے؟ اس نے پاکستان کا کام آسان کر دیا، اسے بھارت میں آزادی کی تحریکوں کو ہوا دینے کے لیے بجٹ خرچ کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ مودی نے اپنی جارحانہ پالیسیوں اور پاکستان دشمنی کے بیانیے سے، پاکستانی قوم کو متحد کر دیا۔ اس نے پاکستانیوں کے دلوں سے ہر دشمن کا خوف نکال دیا۔ آج پاکستان ایک نئی توانائی کے ساتھ اپنے مقاصد کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ بھارت کے اندر ایسی آگ بھڑکائی کہ اب وہ خود ہی نہیں بلکہ کوئی بھی اسے بجھا نہیں سکتا۔ منی پور کی سڑکوں پر لہو بہہ رہا ہے، کشمیر کی وادیوں میں چیخیں گونج رہی ہیں، خالصتان کا پرچم ایک بار پھر بلند ہو رہا ہے،نکسل گوریلے پھر دہلی کے درودیوار ہلانے کو تیار ہیں ، یہ سب مودی کی دین ہے ۔ پاکستان کومودی کا شکر گزار ہونا چاہئے ، تھینک یو مودی ۔ لگے رہو ، ہمیں یقین ہے کہ تم برسوں کا کام مہینوں میں کرنے کی صلاحیت ، یقین ہے کہ تمہارے اسی دور اقتدار میں بھارت ماتا کی گائے نہ صرف ذبح ہوگی بلکہ حصے تقسیم ہوں گے،ہندوتوا کے چیتھڑے اڑیں گے اور یہ خونی ریاست بہت جلددنیا کے نقشے سے تاریخ کی کتابوں میں منتقل ہوجائے گی ۔شکریہ مودی! تو نے بھارت کو اس موڑ پر لاکھڑا کیا جہاں سے اس کا زوال شروع ہو چکا ہے۔ تو نے پاکستان کو متحد کیا، اسے ایک نئی روح دی۔ تو نے بھارت کے اندر وہ آگ لگائی جو اب تیری اپنی سلطنت کو جلا رہی ہے۔ اگر تیری یہی پالیسیاں جاری رہیں، تو انشاءاللہ تیرے ہی دور میں کشمیر آزاد ہوگا، خالصتان بنے گا، منی پور اپنی شناخت واپس لے گا۔ بھارت کی دیگر ریاستیں بھی اپنی زنجیریں توڑ دیں گی۔ شکریہ مودی! تو نے بھارت کو اس موڑ پر لا کھڑا کیا جہاں سے اس کا زوال ناگزیر ہے، تو نے وہ آگ لگائی جو اب شیطانی سلطنت کو جلا رہی ہے،یہی پالیسیاں جاری رہیں، تو انشاءاللہ کشمیر کی زنجیریں ٹوٹیں گی، خالصتان کا پرچم بلند ہوگا، منی پور اپنی شناخت واپس لے گا۔ بھارت کی دیگر مظلوم قومیں بھی اپنی غلامی کی بیڑیاں توڑ دیں گی۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: منی پور میں اپنی شناخت منی پور کے منی پور کی ا زادی کی بھارت کی سڑکوں پر بھارت کے رہی ہے رہا ہے
پڑھیں:
بھارت کو 4 گھنٹے میں ہرا دیا، دہشتگردی کو 40 سال میں شکست کیوں نہیں دی جا سکی؟ مولانا فضل الرحمن
اسلام آباد میں ملی یکجہتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے دہشتگردی، کشمیر، فاٹا کے انضمام اور سود کے خاتمے سے متعلق حکومت کی پالیسیوں پر اپنے تحفظات اور تشویش کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کا مسئلہ 11 ستمبر کے بعد نہیں بلکہ 40 سال سے پاکستان کا مسئلہ ہے۔ علما کی جانب سے امریکا کے افغانستان پر قبضے کے باوجود پاکستان میں مسلح جدوجہد کو ناجائز قرار دیا گیا تھا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فوج نے مسلح جدوجہد کرنے والوں کے خلاف کئی آپریشن کیے، جن کی وجہ سے آج بھی لاکھوں لوگ بے گھر ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اب دوبارہ لوگوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ شہر خالی کر دیے جائیں، اور سوال اٹھایا کہ جو لوگ افغانستان گئے تھے، وہ واپس کیسے آئیں گے۔ انہوں نے دہشتگردی کے خاتمے میں سیاسی ارادے کی کمی پر بھی شدید تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ بھارت کو 4 گھنٹے میں شکست دے دی گئی لیکن دہشتگردی کو 40 سال سے شکست کیوں نہیں دی جا سکی۔
مزید پڑھیں: مولانا فضل الرحمن نے بھی 28 اگست کی ملک گیر ہڑتال کی حمایت کردی
کشمیر کے حوالے سے انہوں نے پاکستان کی پالیسی پر نکتہ چینی کی۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ کشمیر پر پاکستان مسلسل پیچھے ہٹتا جا رہا ہے۔ انہوں نے اپنے کردار اور کشمیر کمیٹی کی صدارت کے حوالے سے کہا کہ انہیں کہا جاتا تھا کہ انہوں نے کشمیر کمیٹی کے لیے کیا کچھ کیا، لیکن اب کئی برس سے وہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین نہیں، تو سوال اٹھتا ہے کہ اب کیا کیا گیا؟
انہوں نے کشمیر کی 3 حصوں میں تقسیم، جنرل پرویز مشرف کے اقوام متحدہ کی قراردادوں سے پیچھے ہٹنے کے فیصلے اور 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کے خاتمے پر قرارداد میں اس کا ذکر شامل نہ ہونے پر سوالات اٹھائے۔ فاٹا کے انضمام پر بھی حکومت کی حالیہ پالیسی پر تنقید کی اور کہا کہ فاٹا کے لوگوں پر فوج اور طالبان دونوں کے ڈرون حملے ہو رہے ہیں۔
فلسطینی حماس کے رہنما خالد مشعل کے فون کال کا ذکر کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اگر پاکستان جنگ میں مدد نہیں کر سکتا تو کم از کم انسانی امداد میں کردار ادا کرے۔
مزید پڑھیں: پیپلز پارٹی وعدے سے نہ پھرتی تو الیکشن بروقت ہو جاتے، مولانا فضل الرحمن
سود کے خاتمے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جمیعت علمائے اسلام نے 26ویں آئینی ترمیم کے 35 نکات سے حکومت کو دستبردار کرایا اور مزید 22 نکات پر مزید تجاویز دیں۔ وفاقی شرعی عدالت نے 31 دسمبر 2027 کو سود ختم کرنے کی آخری تاریخ دی ہے اور آئندہ یکم جنوری 2028 تک سود کا مکمل خاتمہ دستور میں شامل کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے حکومت کو خبردار کیا کہ اگر وہ اپنے وعدے پر عمل نہ کرے تو عدالت جانے کے لیے تیار رہیں کیونکہ آئندہ عدالت میں حکومت کا دفاع مشکل ہوگا۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں کوئی اپیل معطل ہو جائے گی، اور آئینی ترمیم کے تحت یکم جنوری 2028 کو سود کے خاتمے پر عمل درآمد لازمی ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھارت جمیعت علمائے اسلام سود فلسطینی حماس کشمیر کشمیرکمیٹی ملی یکجہتی کونسل مولانا فضل الرحمن