Daily Ausaf:
2025-09-18@00:22:34 GMT

منی پور ،بھارت کے تابوت میں آخری کیل

اشاعت کی تاریخ: 10th, June 2025 GMT

منی پور میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ صرف احتجاج نہیں،حقِ خود ارادیت کی وہ صدا ہے جو دہلی کی در ودیوار کو لرزہ بر اندام، کئے ہوئے ہے۔منی پور کے عوام، اپنی شناخت، اپنی زمین اور اپنے فیصلے واپس مانگ رہے ہیں۔منی پور میں آج پھر کرفیو ہے، انٹرنیٹ بند ہے، سچ پر پہرا ہے۔لیکن آزادی کی طلب وہ شعلہ ہے جو نہ گولی سے بجھتی ہے نہ پابندی سے۔آزادی کی تحریک’’ارمبائی ٹینگول‘‘ کے رہنما کنن سنگھ کی گرفتاری نے عوامی غصے کو ایک بار پھر ہوا دی ہے۔ سڑکیں مظاہرین سے بھر گئیں ،، فوج سے جھڑپیں ہوئیں، اور آواز بلند کی گئی کہ ’’ہم غلام نہیں،منی پور بھارت نہیں ‘‘ تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ منی پور کے نوجوان اپنے گھروں سے نکل کر فوج کے سامنے کھڑے ہیں۔ یہ کوئی وقتی ردعمل نہیں، دہائیوں کے نسلی امتیاز، مذہبی جبر اور ثقافتی یلغار کے خلاف بغاوت ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا منی پور بھارت کا حصہ ہے؟یا صرف نقشے پرصرف ایک لکیر ؟کیا وہاں کے لوگوں کی رائے، ثقافت، مذہب اور خود مختاری کوئی معنی نہیں رکھتی؟یہی سوال آج ہر منی پوری نوجوان کے دل میں آتش حریت کو بھڑکارہے ہیں ۔
منی پور کی چیخ آج آسمانوں سے ٹکرا رہی ہے۔ یہ کوئی معمولی شور نہیں، یہ آزادی کی وہ پکار ہے جو دہلی کے تخت کو للکارتی ہے، بھارت کی بنیادیں ہلاتی ہے۔ منی پورکی یہ آگ محض عمارتوں یا سڑکوں کی نہیں، یہ دلوں کی آگ ہے، غیرت کا شعلہ ہے، جو دہائیوں کے ظلم، جبر اور استحصال سے بھڑک اٹھا ہے۔ سڑکوں پر کرفیو ہے، انٹرنیٹ بند، سچ پر پہرے ہیں، لیکن آزادی کی خواہش کو کون قید کر سکتا ہے؟ یہ وہ نغمہ ہے جو گولیوں سے خاموش نہیں ہوتا، فوج کے بوٹوں سے کچلا نہیں جاسکتا۔ منی پور کے نوجوان، وہ نازک ہاتھ جو کل تک قلم تھامے خواب بنتے تھے، آج پتھر اٹھائے، فوج کے سامنے سینہ تانے کھڑے ہیں۔ یہ لڑائی زمین کی نہیں، یہ جنگ شناخت کی ہے، عزت کی ہے، اپنے وجود کی ہے۔ منی پور کی یہ آواز تنہا نہیں، یہ کشمیر کی چیخ ہے، خالصتان کی آہ ہے، بھارت کی ہر مظلوم قوم کا نعرہ ہے۔جب آرام بائی ٹینگول کے رہنما کنن سنگھ کو گرفتار کیا گیا، تو یہ کوئی معمولی واقعہ نہ تھا۔ یہ ایک چنگاری تھی جو منی پور کے زخمی دل پر گری اور اسے آتش فشاں بنا دیا۔ ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے، انہوں نے ٹائر جلائے، راستے بند کیے، اور اپنے سینوں میں دہکتی آگ کو دنیا کے سامنے رکھ دیا۔ فوج سے جھڑپیں ہوئیں، کچھ نے خودسوزی کی کوشش بھی کی، منی پور میں آزادی کا نعرہ کوئی رات ں رات نہیں گونجا۔ یہ دہائیوں کا درد ہے، جب دہلی نے منی پور کے میتی،کوکی اور دیگر قبائل کو اپنا غلام بنانے کی کوشش کی، ان کی زمین چھینی، ان کی ثقافت کو مسخ کیا ، مذہب کا استحصال کیا ، ہر لمحہ ثابت کیا کہ منی پور کے شہری بھارت کے نقشے پر محض ایک دھبہ ہیں؟ان کی آواز، ان کا درد، ان کی خواہشات کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ یہ سوال جو آج منی پور کی نوجوان نسل کو جوالامکھی بنائے ہوئے ہے، پون صدی سے جاری کشمیریوں کے نعرہ مستانہ کی صدائے بازگشت ہے، خالصتان کے جے کاروں، آزادی کے نعروں کی گونج ہے، تاریخ کا سبق یہ ہے کہ یہ آتش حریت اب بجھنے والی نہیں،ہر اس قومکے دل کی آواز ہے،جو بھارتی جبر کا شکار ہے ، یہ آگ بھارت نام کی ریاست کو بھسم کئے بغیربجھنے والی نہیں۔ منی پور کا ہر نوجوان آج ایک سپاہی ہے، جو بھارت کے جھوٹے وعدوں ،ہندوتوا کی زہریلی چالوں، اور مکروہ بھارتی فوجی جبر کے خلاف لڑ رہا ہے۔
نریندر مودی، بھارت کا وہ وزیراعظم جس نے ہندوتوا کا پرچم بلند کیا اور آج اسی آگ میں خود جل رہا ہے۔ اس کی پالیسیوں نے منی پور کو نہیں، پورے بھارت کو ایک بارود کے ڈھیر پر بٹھا دیا ہے۔ منی پور میں میتی اور کوکی قبائل کے درمیان نسلی کشیدگی کو مودی نے نہ صرف نظر انداز کیا، بلکہ اسے اپنی سیاسی چالوں کا حصہ بنایا۔ کشمیر میں دہائیوں سے جاری ظلم کو اس نے مزید گہرا کیا۔ خالصتان کی آواز، جو کبھی دب سی گئی تھی، آج پھر بلند ہو رہی ہے۔ مودی کا گودی میڈیا، جو سچ کو چھپانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے، منی پور کے درد کو دبا نہیں سکا۔ سوشل میڈیا نے وہ کام کیا جو بھارتی میڈیا نہ کر سکا۔ منی پور کی چیخ آج دنیا کے کونے کونے تک پہنچ رہی ہے۔ ایک ایکس پوسٹ چیختی ہے: ’’منی پور میں ہزاروں لوگ سڑکوں پر ہیں، قبائلی جنگجو آزادی کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ‘‘ یہ آواز بھارت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ منی پور کی یہ لڑائی کوئی چھوٹا موٹا احتجاج نہیں، بھارت کی تباہی کے لئے اٹھا ہوا تیسرا قدم ، پہلا کشمیر ، دوسرا خالصتان اور تیسرا اب منی پور۔ اگر دہلی نے اسے زبردستی دبانے کی کوشش کی، تو یہ آگ دیگر ریاستوں تک پھیلے گی، بھارت کی جعلی وحدت کی لکیرمٹ رہی ہے ، سے بنی ہے، اب ٹوٹ رہی ہے۔ منی پور کا ہر پتھر، ہر نعرہ، ہر چیخ اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ بھارت کی بنیادیں ہل رہی ہیں۔ یہ جنگ بندوقوں سے نہیں جیتی جا سکتی۔ منی پور کے لوگ زمین نہیں، اپنی غیرت، اپنی شناخت مانگ رہے ہیں۔ اور جب کوئی قوم اپنی شناخت کے لیے اٹھتی ہے، تو اسے کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔
مودی کا سب سے بڑا کارنامہ کیا ہے؟ اس نے پاکستان کا کام آسان کر دیا، اسے بھارت میں آزادی کی تحریکوں کو ہوا دینے کے لیے بجٹ خرچ کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ مودی نے اپنی جارحانہ پالیسیوں اور پاکستان دشمنی کے بیانیے سے، پاکستانی قوم کو متحد کر دیا۔ اس نے پاکستانیوں کے دلوں سے ہر دشمن کا خوف نکال دیا۔ آج پاکستان ایک نئی توانائی کے ساتھ اپنے مقاصد کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ بھارت کے اندر ایسی آگ بھڑکائی کہ اب وہ خود ہی نہیں بلکہ کوئی بھی اسے بجھا نہیں سکتا۔ منی پور کی سڑکوں پر لہو بہہ رہا ہے، کشمیر کی وادیوں میں چیخیں گونج رہی ہیں، خالصتان کا پرچم ایک بار پھر بلند ہو رہا ہے،نکسل گوریلے پھر دہلی کے درودیوار ہلانے کو تیار ہیں ، یہ سب مودی کی دین ہے ۔ پاکستان کومودی کا شکر گزار ہونا چاہئے ، تھینک یو مودی ۔ لگے رہو ، ہمیں یقین ہے کہ تم برسوں کا کام مہینوں میں کرنے کی  صلاحیت ، یقین ہے کہ تمہارے اسی دور اقتدار میں بھارت ماتا کی گائے نہ صرف ذبح ہوگی بلکہ حصے تقسیم ہوں گے،ہندوتوا کے چیتھڑے اڑیں گے اور یہ خونی ریاست بہت جلددنیا کے نقشے سے تاریخ کی کتابوں میں منتقل ہوجائے گی ۔شکریہ مودی! تو نے بھارت کو اس موڑ پر لاکھڑا کیا جہاں سے اس کا زوال شروع ہو چکا ہے۔ تو نے پاکستان کو متحد کیا، اسے ایک نئی روح دی۔ تو نے بھارت کے اندر وہ آگ لگائی جو اب تیری اپنی سلطنت کو جلا رہی ہے۔ اگر تیری یہی پالیسیاں جاری رہیں، تو انشاءاللہ تیرے ہی دور میں کشمیر آزاد ہوگا، خالصتان بنے گا، منی پور اپنی شناخت واپس لے گا۔ بھارت کی دیگر ریاستیں بھی اپنی زنجیریں توڑ دیں گی۔ شکریہ مودی! تو نے بھارت کو اس موڑ پر لا کھڑا کیا جہاں سے اس کا زوال ناگزیر ہے، تو نے وہ آگ لگائی جو اب شیطانی سلطنت کو جلا رہی ہے،یہی پالیسیاں جاری رہیں، تو انشاءاللہ کشمیر کی زنجیریں ٹوٹیں گی، خالصتان کا پرچم بلند ہوگا، منی پور اپنی شناخت واپس لے گا۔ بھارت کی دیگر مظلوم قومیں بھی اپنی غلامی کی بیڑیاں توڑ دیں گی۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: منی پور میں اپنی شناخت منی پور کے منی پور کی ا زادی کی بھارت کی سڑکوں پر بھارت کے رہی ہے رہا ہے

پڑھیں:

بھارت نفرت کا عالمی چیمپئن

DUBAI:

’’ یہ انڈینز تو بڑا ایٹیٹیوڈ دکھا رہے ہیں، ہم کیوں ہاتھ ملانے کیلیے کھڑے رہیں‘‘

جب میدان میں پاکستانی کرکٹرز  ایک دوسرے سے یہ بات کر رہے تھے تو ٹیم مینجمنٹ نے انھیں وہیں رکنے کا کہا، اس پر وہ تلملا گئے لیکن عدم عدولی نہیں کی، بعد میں جب مائیک ہیسن اور سلمان علی آغا بھارتی ڈریسنگ روم کی طرف گئے تو انھیں دیکھ کر ایک سپورٹ اسٹاف رکن نے دروازہ ایسے بند کیا جیسے کوئی ناراض پڑوسن کرتی ہے۔ 

تقریب تقسیم انعامات میں پاکستانی کپتان احتجاجاً نہیں گئے جبکہ انفرادی ایوارڈز لینے کیلیے ڈائریکٹر انٹرنیشنل پی سی بی عثمان واہلہ اور  ٹیم منیجر نوید اکرم چیمہ نے شاہین آفریدی کوجانے کا کہہ دیا، انھیں زیادہ چھکوں کا ایوارڈ دیا گیا۔ 

بھارتی رویے کو اپنی بے عزتی قرار دیتے ہوئے کھلاڑیوں نے فیصلہ کیا تو وہ آئندہ بھی کسی انڈین پریزینٹر کو انٹرویو دیں گے نہ ایوارڈ لینے جائیں گے، اتنا بڑا واقعہ ہو گیا لیکن کافی دیر تک پی سی بی کا کوئی ردعمل سامنے نہ آیا۔ 

چیئرمین محسن نقوی نے جب استفسار کیا تو  انھیں مناسب جواب نہ ملا، انھوں نے فوری طور پر ریفری اینڈی پائی کرافٹ کو ایشیا کپ سے ہٹانے کیلیے آئی سی سی کو خط لکھنے کی ہدایت دی، بعد ازاں سستی برتنے پر عثمان واہلہ کو معطل کر دیا گیا۔ 

اب یہ نہیں پتا کہ معطلی پکی یا کسی ایس ایچ او کی طرح دکھاوے کی ہے، اس تمام واقعے میں بھارت کا کردار بے حد منفی رہا،بھارتی حکومت پاکستان سے جنگ ہارنے اور6 جہاز تباہ ہونے کی وجہ سے سخت تنقید کی زد میں ہے۔ 

اس نے کرکٹ کی آڑ لے کر اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش کی، نفرت کے عالمی چیمپئن بھارتیوں کی سوچ دیکھیں کہ ایک کھیل میں جیت پر بھنگڑے ڈال رہے ہیں ، جنگ میں ہار اور مسلسل جھوٹی باتیں کرنے پر اپنی حکومت سے استفسار نہیں کیا جا رہا، یہ معاملہ اب جلد ختم ہونے والا نہیں لگ رہا۔ 

پی سی بی نے سوچ لیا ہے کہ اگر پائی کرافٹ کو نہ ہٹایا گیا تو ٹیم ایشیا کپ کے بقیہ میچز سے دستبردار ہو جائے گی، میچ ریفری کا کام ڈسپلن کی پابندی کروانا ہوتا ہے ، وہ اکثر کھلاڑیوں کو غلطیوں پر سزائیں دیتا ہے، اب خود غلط کیا تو اسے بھی سزا ملنی چاہیے۔ 

پائی کرافٹ کو کیا حق حاصل تھا کہ وہ سلمان علی آغا سے کہتے کہ سوریا کمار یادیو سے ہاتھ نہ ملانا، شاید انھیں اس کی ہدایت ملی ہو گی، بطور ریفری یہ ان کا کام تھا کہ کرکٹ کی روایات پر عمل یقینی بناتے ، الٹا وہ خود پارٹی بن گئے۔ 

شاید آئی پی ایل میں کام ملنے کی لالچ یا کوئی اور وجہ ہو، میچ کے بعد بھی بھارتی کرکٹرز نے جب مصافحے سے گریز کیا تو ریفری خاموش تماشائی بنے رہے،پاکستان کو اب سخت اسٹینڈ لینا ہی ہوگا، البتہ آئی سی سی کے سربراہ جے شاہ ہیں، کیا وہ اپنے ملک بھارت کی سہولت کاری کرنے والے ریفری کے خلاف کوئی کارروائی کر سکیں گے؟

کھیل اقوام کو قریب لاتے ہیں لیکن موجودہ بھارتی حکومت ایسا چاہتی ہی نہیں ہے، اس لیے نفرت کے بیج مسلسل بوئے جارہے ہیں، کپتانوں کی میڈیا کانفرنس میں محسن نقوی اور سلمان علی آغا سے ہاتھ ملانے پر سوریا کمار کو غدار تک کا لقب مل گیا تھا۔ 

ایسے میں کھلاڑیوں نے آئندہ دور رہنے میں ہی عافیت سمجھی انھیں بھی اپنے بورڈ اور اسے حکومت سے ایسا کرنے کی ہدایت ملی ہوگی، جس ٹیم کا کوچ گوتم گمبھیر جیسا متعصب شخص ہو اس سے آپ خیر کی کیا امید رکھ سکتے ہیں۔ 

جس طرح بھارتی کپتان نے پہلگام واقعے کا میچ کے بعد تقریب تقسیم انعامات میں ذکر کرتے ہوئے اپنی افواج کو خراج تحسین پیش کیا اسی پر ان کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، آئی سی سی نے سیاست کو کھیل میں لانے پر ماضی میں عثمان خواجہ کو نہیں چھوڑا تو اب اسے  سوریا کیخلاف بھی ایکشن لینا ہوگا، پی سی بی کی دھمکی سیریس ہے۔ 

ریفری کو نہ ہٹایا گیا تو ایشیا کپ پاکستان کی عدم موجودگی میں دلچسپی سے محروم  ہو جائے گا، اس کا منفی اثر آگے آنے والی کرکٹ پر بھی پڑے گا، بھارت کو ورلڈکپ کی میزبانی بھی کرناہے تب بھی اسے مسائل ہوں گے۔ 

اب یہ جے شاہ کیلیے ٹیسٹ کیس ہے دیکھنا ہوگا وہ کرتے کیا ہیں،البتہ ان سے کسی سخت فیصلے کی امید کم ہی ہے،ویسے ہمیں خود کو بھی بہتر بنانا ہوگا، اگر ٹیم کی کارکردگی اچھی ہوتی تو کیا بھارت ایسی حرکت کر سکتا تھا؟

ہمارے کھلاڑی خود مذاق کا نشانہ بن رہے ہیں، پی سی بی کو اس واقعے کے ساتھ ٹیم کی شرمناک کارکردگی بھی ذہن میں رکھنی چاہیے، پلیئرز کوئی فائٹ تو کرتے ، کسی کلب لیول کی ٹیم جیسی کارکردگی دکھائی، کیا پاکستان اب صرف عمان اور یو اے ای جیسے حریفوں کو ہرانے والی سائیڈ بن گئی ہے؟

آئی پی ایل سے بھارت کو جو ٹیلنٹ ملا وہ اس کے لیے انٹرنیشنل سطح پر پرفارم بھی کر رہا ہے،پی ایس ایل کا ٹیلنٹ کیوں عالمی سطح پر اچھا کھیل پیش نہیں کر پاتا؟ ہم نے معمولی کھلاڑیوں کو سپراسٹار بنا دیا۔ 

فہیم اشرف جیسوں کو ہم آل راؤنڈر کہتے ہیں، اسی لیے یہ حال ہے، بابر اور رضوان کو اسٹرائیک ریٹ کا کہہ کر ڈراپ کیا گیا،صرف بھارت سے میچ میں ڈاٹ بالز دیکھ لیں تو اندازہ ہو گا کہ کوئی فرق نہیں پڑا۔

بنیادی مسائل برقرار ہیں، اب ٹیمیں 300 رنز ٹی ٹوئنٹی میچ میں بنا رہی ہیں، ہم 100 رنز بھی بمشکل بنا پاتے ہیں، ہمارا اوپنر صفر پر متواتر آؤٹ ہو کر وکٹیں لینے میں کامیاب رہتا ہے اور سب سے اہم فاسٹ بولر کوئی وکٹ نہ لیتے ہوئے دوسرا بڑا اسکورر بن جاتا ہے۔

یہ ہو کیا رہا ہے؟ کیا واقعی ملک میں ٹیلنٹ ختم ہو گیا یا باصلاحیت کرکٹرز کو مواقع نہیں مل رہے، بورڈ کو اس کا جائزہ لینا چاہیے، کہاں گئے وہ مینٹورز جو 50 لاکھ روپے ماہانہ لے کر ملک کو نیا ٹیلنٹ دینے کے دعوے کر رہے تھے، بھارت  نے یقینی طور پر غلط کیا لیکن ہمیں اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہیے کہ کرکٹ میں ہم کہاں جا رہے ہیں۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

متعلقہ مضامین

  • جمہوریت کو درپیش چیلنجز
  • مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں
  • زینت امان کو اپنا آپ کبھی خوبصورت کیوں نہ لگا؟ 70 کی دہائی کی گلیمر کوئین کا انکشاف
  • دریا کو بہنے دو، ملیر اور لیاری کی گواہی
  • جنگ میں 6 جہاز گرنے کے بعد بھارت کھیل کے میدان میں اپنی خفت مٹا رہا ہے، وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ
  • کیا بھارت آپریشن سندور جیت گیا تھا؟ بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ اپنی ہی ٹیم کے کھلاڑیوں پر برس پڑے
  • بھارت نفرت کا عالمی چیمپئن 
  • مجھے کرینہ کپور سے ملایا جاتا ہے: سارہ عمیر
  • بھارت نفرت کا عالمی چیمپئن
  • ورلڈ کپ 2019 سے قبل خودکشی کے خیالات آئے، شامی کا انکشاف