Daily Ausaf:
2025-06-11@04:52:32 GMT

منی پور ،بھارت کے تابوت میں آخری کیل

اشاعت کی تاریخ: 10th, June 2025 GMT

منی پور میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ صرف احتجاج نہیں،حقِ خود ارادیت کی وہ صدا ہے جو دہلی کی در ودیوار کو لرزہ بر اندام، کئے ہوئے ہے۔منی پور کے عوام، اپنی شناخت، اپنی زمین اور اپنے فیصلے واپس مانگ رہے ہیں۔منی پور میں آج پھر کرفیو ہے، انٹرنیٹ بند ہے، سچ پر پہرا ہے۔لیکن آزادی کی طلب وہ شعلہ ہے جو نہ گولی سے بجھتی ہے نہ پابندی سے۔آزادی کی تحریک’’ارمبائی ٹینگول‘‘ کے رہنما کنن سنگھ کی گرفتاری نے عوامی غصے کو ایک بار پھر ہوا دی ہے۔ سڑکیں مظاہرین سے بھر گئیں ،، فوج سے جھڑپیں ہوئیں، اور آواز بلند کی گئی کہ ’’ہم غلام نہیں،منی پور بھارت نہیں ‘‘ تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ منی پور کے نوجوان اپنے گھروں سے نکل کر فوج کے سامنے کھڑے ہیں۔ یہ کوئی وقتی ردعمل نہیں، دہائیوں کے نسلی امتیاز، مذہبی جبر اور ثقافتی یلغار کے خلاف بغاوت ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا منی پور بھارت کا حصہ ہے؟یا صرف نقشے پرصرف ایک لکیر ؟کیا وہاں کے لوگوں کی رائے، ثقافت، مذہب اور خود مختاری کوئی معنی نہیں رکھتی؟یہی سوال آج ہر منی پوری نوجوان کے دل میں آتش حریت کو بھڑکارہے ہیں ۔
منی پور کی چیخ آج آسمانوں سے ٹکرا رہی ہے۔ یہ کوئی معمولی شور نہیں، یہ آزادی کی وہ پکار ہے جو دہلی کے تخت کو للکارتی ہے، بھارت کی بنیادیں ہلاتی ہے۔ منی پورکی یہ آگ محض عمارتوں یا سڑکوں کی نہیں، یہ دلوں کی آگ ہے، غیرت کا شعلہ ہے، جو دہائیوں کے ظلم، جبر اور استحصال سے بھڑک اٹھا ہے۔ سڑکوں پر کرفیو ہے، انٹرنیٹ بند، سچ پر پہرے ہیں، لیکن آزادی کی خواہش کو کون قید کر سکتا ہے؟ یہ وہ نغمہ ہے جو گولیوں سے خاموش نہیں ہوتا، فوج کے بوٹوں سے کچلا نہیں جاسکتا۔ منی پور کے نوجوان، وہ نازک ہاتھ جو کل تک قلم تھامے خواب بنتے تھے، آج پتھر اٹھائے، فوج کے سامنے سینہ تانے کھڑے ہیں۔ یہ لڑائی زمین کی نہیں، یہ جنگ شناخت کی ہے، عزت کی ہے، اپنے وجود کی ہے۔ منی پور کی یہ آواز تنہا نہیں، یہ کشمیر کی چیخ ہے، خالصتان کی آہ ہے، بھارت کی ہر مظلوم قوم کا نعرہ ہے۔جب آرام بائی ٹینگول کے رہنما کنن سنگھ کو گرفتار کیا گیا، تو یہ کوئی معمولی واقعہ نہ تھا۔ یہ ایک چنگاری تھی جو منی پور کے زخمی دل پر گری اور اسے آتش فشاں بنا دیا۔ ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے، انہوں نے ٹائر جلائے، راستے بند کیے، اور اپنے سینوں میں دہکتی آگ کو دنیا کے سامنے رکھ دیا۔ فوج سے جھڑپیں ہوئیں، کچھ نے خودسوزی کی کوشش بھی کی، منی پور میں آزادی کا نعرہ کوئی رات ں رات نہیں گونجا۔ یہ دہائیوں کا درد ہے، جب دہلی نے منی پور کے میتی،کوکی اور دیگر قبائل کو اپنا غلام بنانے کی کوشش کی، ان کی زمین چھینی، ان کی ثقافت کو مسخ کیا ، مذہب کا استحصال کیا ، ہر لمحہ ثابت کیا کہ منی پور کے شہری بھارت کے نقشے پر محض ایک دھبہ ہیں؟ان کی آواز، ان کا درد، ان کی خواہشات کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ یہ سوال جو آج منی پور کی نوجوان نسل کو جوالامکھی بنائے ہوئے ہے، پون صدی سے جاری کشمیریوں کے نعرہ مستانہ کی صدائے بازگشت ہے، خالصتان کے جے کاروں، آزادی کے نعروں کی گونج ہے، تاریخ کا سبق یہ ہے کہ یہ آتش حریت اب بجھنے والی نہیں،ہر اس قومکے دل کی آواز ہے،جو بھارتی جبر کا شکار ہے ، یہ آگ بھارت نام کی ریاست کو بھسم کئے بغیربجھنے والی نہیں۔ منی پور کا ہر نوجوان آج ایک سپاہی ہے، جو بھارت کے جھوٹے وعدوں ،ہندوتوا کی زہریلی چالوں، اور مکروہ بھارتی فوجی جبر کے خلاف لڑ رہا ہے۔
نریندر مودی، بھارت کا وہ وزیراعظم جس نے ہندوتوا کا پرچم بلند کیا اور آج اسی آگ میں خود جل رہا ہے۔ اس کی پالیسیوں نے منی پور کو نہیں، پورے بھارت کو ایک بارود کے ڈھیر پر بٹھا دیا ہے۔ منی پور میں میتی اور کوکی قبائل کے درمیان نسلی کشیدگی کو مودی نے نہ صرف نظر انداز کیا، بلکہ اسے اپنی سیاسی چالوں کا حصہ بنایا۔ کشمیر میں دہائیوں سے جاری ظلم کو اس نے مزید گہرا کیا۔ خالصتان کی آواز، جو کبھی دب سی گئی تھی، آج پھر بلند ہو رہی ہے۔ مودی کا گودی میڈیا، جو سچ کو چھپانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے، منی پور کے درد کو دبا نہیں سکا۔ سوشل میڈیا نے وہ کام کیا جو بھارتی میڈیا نہ کر سکا۔ منی پور کی چیخ آج دنیا کے کونے کونے تک پہنچ رہی ہے۔ ایک ایکس پوسٹ چیختی ہے: ’’منی پور میں ہزاروں لوگ سڑکوں پر ہیں، قبائلی جنگجو آزادی کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ‘‘ یہ آواز بھارت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ منی پور کی یہ لڑائی کوئی چھوٹا موٹا احتجاج نہیں، بھارت کی تباہی کے لئے اٹھا ہوا تیسرا قدم ، پہلا کشمیر ، دوسرا خالصتان اور تیسرا اب منی پور۔ اگر دہلی نے اسے زبردستی دبانے کی کوشش کی، تو یہ آگ دیگر ریاستوں تک پھیلے گی، بھارت کی جعلی وحدت کی لکیرمٹ رہی ہے ، سے بنی ہے، اب ٹوٹ رہی ہے۔ منی پور کا ہر پتھر، ہر نعرہ، ہر چیخ اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ بھارت کی بنیادیں ہل رہی ہیں۔ یہ جنگ بندوقوں سے نہیں جیتی جا سکتی۔ منی پور کے لوگ زمین نہیں، اپنی غیرت، اپنی شناخت مانگ رہے ہیں۔ اور جب کوئی قوم اپنی شناخت کے لیے اٹھتی ہے، تو اسے کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔
مودی کا سب سے بڑا کارنامہ کیا ہے؟ اس نے پاکستان کا کام آسان کر دیا، اسے بھارت میں آزادی کی تحریکوں کو ہوا دینے کے لیے بجٹ خرچ کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ مودی نے اپنی جارحانہ پالیسیوں اور پاکستان دشمنی کے بیانیے سے، پاکستانی قوم کو متحد کر دیا۔ اس نے پاکستانیوں کے دلوں سے ہر دشمن کا خوف نکال دیا۔ آج پاکستان ایک نئی توانائی کے ساتھ اپنے مقاصد کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ بھارت کے اندر ایسی آگ بھڑکائی کہ اب وہ خود ہی نہیں بلکہ کوئی بھی اسے بجھا نہیں سکتا۔ منی پور کی سڑکوں پر لہو بہہ رہا ہے، کشمیر کی وادیوں میں چیخیں گونج رہی ہیں، خالصتان کا پرچم ایک بار پھر بلند ہو رہا ہے،نکسل گوریلے پھر دہلی کے درودیوار ہلانے کو تیار ہیں ، یہ سب مودی کی دین ہے ۔ پاکستان کومودی کا شکر گزار ہونا چاہئے ، تھینک یو مودی ۔ لگے رہو ، ہمیں یقین ہے کہ تم برسوں کا کام مہینوں میں کرنے کی  صلاحیت ، یقین ہے کہ تمہارے اسی دور اقتدار میں بھارت ماتا کی گائے نہ صرف ذبح ہوگی بلکہ حصے تقسیم ہوں گے،ہندوتوا کے چیتھڑے اڑیں گے اور یہ خونی ریاست بہت جلددنیا کے نقشے سے تاریخ کی کتابوں میں منتقل ہوجائے گی ۔شکریہ مودی! تو نے بھارت کو اس موڑ پر لاکھڑا کیا جہاں سے اس کا زوال شروع ہو چکا ہے۔ تو نے پاکستان کو متحد کیا، اسے ایک نئی روح دی۔ تو نے بھارت کے اندر وہ آگ لگائی جو اب تیری اپنی سلطنت کو جلا رہی ہے۔ اگر تیری یہی پالیسیاں جاری رہیں، تو انشاءاللہ تیرے ہی دور میں کشمیر آزاد ہوگا، خالصتان بنے گا، منی پور اپنی شناخت واپس لے گا۔ بھارت کی دیگر ریاستیں بھی اپنی زنجیریں توڑ دیں گی۔ شکریہ مودی! تو نے بھارت کو اس موڑ پر لا کھڑا کیا جہاں سے اس کا زوال ناگزیر ہے، تو نے وہ آگ لگائی جو اب شیطانی سلطنت کو جلا رہی ہے،یہی پالیسیاں جاری رہیں، تو انشاءاللہ کشمیر کی زنجیریں ٹوٹیں گی، خالصتان کا پرچم بلند ہوگا، منی پور اپنی شناخت واپس لے گا۔ بھارت کی دیگر مظلوم قومیں بھی اپنی غلامی کی بیڑیاں توڑ دیں گی۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: منی پور میں اپنی شناخت منی پور کے منی پور کی ا زادی کی بھارت کی سڑکوں پر بھارت کے رہی ہے رہا ہے

پڑھیں:

سنڈے اسپیشل : ٹو این ون اسٹوریز

جنگل کی طرح ’سماجی غول‘ بنانا

رضوان طاہر مبین

ایک ’غول‘ ضروری ہے، جی ہاں بہت ضروری ہے صاحب۔۔۔!

ہمارے آج کے سماج کی ایک تلخ حقیقت ایسی ہے کہ آپ کے ساتھ آپ کے کچھ نہ کچھ ’ہم نوا‘ ہونا بہت ضروری ہیں، ورنہ آپ بُری طرح تنہا کردیے جاتے ہیں، جیسے کسی جنگل میں اکیلے جانور کو درندے بھنبھوڑ دیتے ہیں، اس لیے وہ گروہ کی شکل میں رہتے ہیں، بالکل ایسے ہی گروہ کے بغیر اس سماج کے ’طاقت وَر‘ آپ کو بھی بھنبھوڑ ڈالیں گے اور کچھ نہیں تو کسی موضوع پر اختلاف رائے یا اپنی آزادانہ رائے رکھنے کی پاداش میں یہی نام نہاد پڑھے لکھے اور ’’دانش وَر‘‘ آپ کو کچا نہ بھی چبا ڈالیں، تو پکا پکا کر ضرور نگل جائیں گے!

اب سوال یہ ہے کہ آپ کا یہ ’غول‘ کیسا ہو۔۔۔؟ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ چوں کہ آپ اشرف المخلوقات کہلاتے ہیں یا یوں کہیے کہ سمجھے جاتے ہیں، اس لیے اِسے آپ پیار سے یا مصلحت سے ’غول‘ کبھی نہیں کہیں گے، بلکہ ’ہم خیال‘ کہیں گے، ہم پیالہ بتائیں گے یا پھر کوئی ’لابی‘ کہلائیں گے۔

اب یہ ’لابی‘ کام کیا کرتی ہے۔۔۔؟

یہ بڑا دل چسپ سوال ہے، جناب، یہی تو پھر سارے کام کرتی ہے، اور بعضے وقت جب یہ کام کرتی ہے، تو کبھی کبھی تو آپ کو کچھ کرنے کی ہی ضرورت نہیں رہتی، سمجھ رہے ہیں ناں۔۔۔

اور اگر ایسا نہ بھی ہو تب بھی کوئی آپ پر ٹیڑھی نگاہ سے دیکھے، کسی بھی جگہ کوئی کٹھنائی ہو، زندگی میں خدانخواستہ کوئی اچھا یا برا، صحیح یا غلط، آڑھا یا ترچھا کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو، آپ کا یہ ’غول‘ اس نظریے کے تحت آپ کے ’دفاع‘ کے لیے سینہ سپر ہو جائے گا کہ ’’صحیح ہے یا غلط ہے، یہ اہم نہیں، آدمی ہمارا ہے بس یہی اہم ہے۔۔۔!!‘‘

اپنی ’لابی‘ بنانے کے لیے آپ کو کرنا کیا ہوگا۔۔۔؟

’غول‘ بنانے کے لیے سب سے پہلے ’اتحاد‘ بہت ضروری ہوتا ہے۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ اتحاد میں کتنی ’’برکت‘‘ ہوتی ہے، یہی برکت آپ کو یہاں اچھی طرح سمجھ میں آجائے گی۔ آپ کو اس ’اتحاد‘ کے واسطے اپنی ’لابی‘ کی ہاں میں ہاں اور نہ میں نہ ملانا ہوگا۔ چاہے سورج آپ کے سر پر آگ برسا رہا ہو، لیکن اگر آپ کے ’جَتھے‘ نے یہ طے کیا ہے کہ اس وقت تاریک آسمان پر چاند چمک رہا ہے اور جھینگر جھنگار رہا ہے، تو آپ کو بہر صورت یہی راگ الاپنا ہوگا کہ چاند کتنا روشن ہے اور اس وقت جھینگر کی آوازوں کے کیا زیر و بم ہیں۔

اس کے ساتھ ہی حسب ضرورت ’واہ واہ‘ کے ڈونگرے اور مخالفانہ دلائل پر منطقی و غیر منطقی ہر دو طرح کے بھرپور تمسخرانہ انداز سے بھی گریز نہیں کرنا ہوگا، الغرض یہ جان لیجیے کہ آپ کے گروہ کے ’مائی باپوں‘ نے جو کہہ دیا وہ کبھی غلط نہیں ہو سکتا، یہ بات کبھی فراموش نہیں کیجیے گا۔۔۔! اور آپ کی اپنی رائے/ نقطہ نظر/ اختلاف اور آپ کے اپنے ذاتی یا آزادانہ موقف ٹائپ کی کسی چیز کی اب کوئی گنجائش نہیں ہوگی، سچ صرف اور صرف وہی ہوگا جو آپ کے اِس ’’غول‘‘ نے کہہ دیا ہے، بات وہی اونچی ہوگی جو آپ کے ’’لَمڈوں‘‘ نے نعرۂ مستانہ بنا کر بلند کردی ہے۔۔۔ کوئی سچ کی تلاش نہیں ہوگی، عقل وغیرہ جیسی کسی چیز کا کوئی استعمال نہیں ہوگا۔

بعد میں یہ ساری ’خرمستی‘ آپ کو بھی یہ ’سہولت‘ فراہم کرے گی کہ آپ رات بے رات اور وقت بے وقت کچھ فرمائش بھی کر سکتے ہیں۔۔۔ آپ کی زندگی کے ہر چھوٹے بڑے مسئلے سے لے کر آپ کی روزی روٹی، دکھ بیماری، کاروبار ملازمت، ترقی اور ہمہ قسم کے مفادات سے لے کر سماج کے بدمعاشوں اور ’غیر بدمعاشوں‘ کے سارے کے سارے مسائل اور وسائل اب آپ کی فکر بالکل بھی نہیں ہوگی، بلکہ جیسے آپ نے ہر بار ان کی ’ہاہاکار‘ میں حصہ ڈالا ہوگا، ایسے ہی صحیح یا غلط سے قطعی طور پر بے پروا ہو کر یہ بھی آپ کے وقت پڑنے پر جائز وناجائز ہر ’پھڈے‘ میں آپ کی پشت پر بلکہ آپ سے بھی آگے صف اول میں کھڑے ہوں گے اور آپ کو غول پسند معاشرے میں وہ سکون فراہم کریں گے کہ بس آپ سوچ ہی سکتے ہیں!

اب سوال یہ ہے کہ آپ کا یہ گروہ یا ’لابی‘ کیسی ہو۔۔۔؟ یا یہ غول بنائے کیوں کر بنائے جا سکتے ہیں۔۔۔؟

اس کے لیے بے آپ اپنی ذاتی وخاندانی مماثلتیں ’کام میں‘ لے سکتے ہیں، جیسے:

آپ کون سی زبان بولتے ہیں۔۔۔؟

کس قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔۔۔؟

ملک کے کس صوبے کے رکھوالے اور کس علاقے کے نام لیوا ہیں۔۔۔؟

آپ کس نسل، ذات اور برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔۔۔؟

اتفاق سے آپ کے شجرے میں کوئی خاص عنصر یا شخصیت موجود ہے؟ تو آپ (موقعے کے لحاظ سے) اس کا عَلم بھی بلند کر سکتے ہیں۔

یہی نہیں آپ کا مذہب اور آپ کے مسلک اور عقیدے کے ساتھ ساتھ ’غول‘ بننے کی یہ سہولت بہت سی سیاسی، مذہبی اور تفرقہ باز جماعتیں بھی بہت خوبی سے فراہم کرتی ہیں، اب تو اس کے ساتھ ساتھ ڈھیر ساری ’غیر سرکاری تنظیمیں‘ بھی دل وجان سے آپ کے لیے ’حاضر‘ ہیں، اور اس کام کے باقاعدہ ’معاوضے‘ سالانہ انعامات اور بین الاقوامی اکرامات کی صورت میں آپ کو ہاتھ کے ہاتھ مطمئن بھی کرتی رہتی ہیں۔ اب یہ صرف آپ پر منحصر ہے کہ آپ ’قدرت‘ کی دی گئی ان مماثلتوں اور صلاحیتوں سے کس قدر فائدہ اٹھا پاتے ہیں۔۔۔!

کیوں کہ فی زمانہ یہ ساری خاصیتیں بڑی کارآمد اور کارگر ہیں، یہی نہیں ’غول‘ بنانے کے لیے آپ کے پیشے کا بھی کافی اہم کردار ہوتا ہے، آپ کیا کام کرتے ہیں۔۔۔؟ اور کام میں بھی کیسا اور ’’کس طرح‘‘ کے کام زیادہ فرماتے ہیں۔۔۔؟ اس مناسبت سے بھی آپ کسی نہ کسی سے گٹھ جوڑ کر سکتے ہیں۔ اب ہم آپ کو کیا کیا کھل کر بتائیں کہ اگر آپ تاجر، شاعر، ادیب، صحافی، مصنف، ڈاکٹر، نرس، وکیل، استاد، بیوروکریٹ، بِلڈر، پراپرٹی ڈیلر ہیں، تو آپ بھی بہ آسانی اس سماج کے ’نائیوں‘، ’موچیوں‘ سے لے کر ’نان بائیوں‘ کی طرح ’’مشترکہ مفادات‘‘ کی اعلانیہ اور غیر اعلانیہ انجمن تشکیل دے سکتے ہیں، اور انجمن سے ہمیں یاد آیا کہ اگر آپ ان میں کچھ بھی نہیں ہیں، تب بھی ایک ’’انجمن ستائش باہمی‘‘ کی سہولت تو ہر ایک کے لیے ہر وقت موجود رہتی ہے، جہاں دو، چار فارغ، (بلکہ طبیعت سے فارغ) مگر چالاک دماغ اور آگ آج کل کی زبان میں کہیے تو ’’سمجھ دار‘‘ احباب جمع ہوئے، لیجیے وہیں آپ کا ایک بھرپور کام یاب اور بھرپور فعال غول تیار ہوگیا ہے، اب آپ ایک دوسرے کے لیے ساری خدمات انجام دے سکتے ہیں، جیسے فارسی میں کہا گیا ہے کہ ’’میں تمھیں حاجی کہوں، تم مجھے مُلا کہو!‘‘

 بھارت کا سفارتی رافیل

ابنِ امین

ہم یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ شاید جنگ تھم چکی ہے، اور اب ہم ایک ذمے دار اور باشعور پڑوسی کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ امن سے رہنے کی کوئی صورت نکال لیں گے۔ لیکن ہمارا پڑوسی، جو کہ ہم سے کئی گنا بڑا ہے، اس جنگ کو ایک ایسے مقام تک لے جانا چاہتا ہے جس کے نتائج کے بارے میں نہ یقین سے کچھ کہا جا سکتا ہے، نہ کوئی گارنٹی دی جا سکتی ہے۔
2019 کے پلوامہ حملے اور اس کے بعد بالاکوٹ فضائی حملے کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں ایک نئی سطح کی جارحیت دیکھی گئی ہے۔ تاہم، حالیہ پہلگام حملے (اپریل 2025) اور اس کے بعد بھارت کے 'آپریشن سندور' (مئی 2025) کے تناظر میں، بھارت نے ایک جارحانہ سفارتی مہم کا آغاز کیا ہے۔

اس مہم کے تحت سات وفود دنیا کے مختلف خطوں میں روانہ کیے گئے جن میں مختلف سیاسی جماعتوں کے ارکان پارلیمان، بشمول مسلم اراکین پارلیمنٹ، اور ریٹائرڈ سفارت کاروں کو شامل کر کے یہ تاثر دیا گیا کہ بھارت کی پوری سیاسی قیادت پاکستان سے درپیش خطرات پر یک زبان ہے۔ ان کا مقصد عالمی برادری کو یہ باور کرانا ہے کہ پاکستان نہ صرف خطے میں بلکہ عالمی سطح پر بھی دہشت گردی کا معاون ہے۔ یہ کوششیں بظاہر پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی ایک منصوبہ بند مہم کا حصہ ہیں۔

اس سفارتی یلغار کے ساتھ ساتھ، بھارت نے دیگر جوابی اقدامات بھی کیے جن میں اہم سرحدی گزرگاہوں کی بندش، سندھ طاس معاہدے (IWT) کی معطلی، پاکستانی سفارت کاروں کی بے دخلی، اور پاکستانی شہریوں کے لیے زیادہ تر ویزوں پر پابندی شامل تھی۔ خاص طور پر، سندھ طاس معاہدے کی معطلی ایک اہم اور ممکنہ طور پر تباہ کن اقدام تھا، جسے بھارت نے ’’مسلسل سرحد پار دہشت گردی‘‘ سے جوڑا۔ یہ اقدام بین الاقوامی اصولوں کی واضح خلاف ورزی ہے کیوںکہ معاہدہ یک طرفہ کارروائی کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ صورت حال پانی کی سلامتی کو ایک اہم فلیش پوائنٹ میں بدل دیتی ہے، جو ممکنہ طور پر روایتی فوجی ذرائع سے بھی آگے تنازعات کو بڑھا سکتی ہے۔

اس تمام صورت حال میں، بھارتی سیاست داں اور سابق سفارت کار ششی تھرور کی نیویارک میں حالیہ ملاقاتیں اور موجودگی بھی اسی مہم کا حصہ ہے، جس کا مقصد عالمی سطح پر بھارت کے بیانیے کو مزید تقویت دینا ہے۔

تاہم، تجزیاتی نقطۂ نظر سے، یہی مہم پاکستان کے لیے ایک غیرمتوقع مگر غیرمعمولی سفارتی موقع کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ جب بھارت کی طرف سے پاکستان پر ایسے سنگین الزامات عائد کیے جاتے ہیں، اور ان کی تائید کے لیے دنیا بھر میں وفود بھیجے جاتے ہیں، تو لامحالہ بین الاقوامی میڈیا، تھنک ٹینکس اور پالیسی ادارے بھی اس بیانیے کی صداقت کو پرکھنے کے لیے پاکستان کے مؤقف کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، بھارت جس پلیٹ فارم کو صرف اپنا بیانیہ آگے بڑھانے کے لیے استعمال کر رہا ہے، وہی پلیٹ فارم پاکستان کے لیے اپنے مؤقف کو سامنے لانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اس منظرنامے میں پاکستان کو محض دفاعی انداز اپنانے کی بجائے ایک فعال، شواہد پر مبنی اور بیانیہ ساز حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔

پاکستان نے سفارتی سطح پر ابتدائی ردعمل میں عالمی سفیروں کو اعتماد میں لیا، حملے کی غیرجانب دار تحقیقات کی پیشکش کی، اور ساتھ ہی بھارت کی طرف سے انڈس واٹر ٹریٹی جیسے حساس معاہدے کی معطلی کو ایک ممکنہ اشتعال انگیز اقدام کے طور پر عالمی برادری کے سامنے رکھا۔ پاکستان نے چین، سعودی عرب، ترکی، قطر اور ایران جیسے ممالک کے ساتھ فوری روابط قائم کیے تاکہ بھارت کے یک طرفہ بیانیے کو توازن دیا جا سکے۔ 

یہ تمام اقدامات ایک فعال اور اسٹریٹجک سفارت کاری کی غمازی کرتے ہیں، اور 2025 کے بحران کے بعد پاکستان کی میڈیا حکمت عملی میں ایک نمایاں تبدیلی آئی ہے جو ماضی کے ’’ٹکڑے ٹکڑے، دفاعی اور ردعمل پر مبنی‘‘ نقطۂ نظر کے برعکس ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بھارت کی سفارتی یلغار نے پاکستان کو بین الاقوامی مکالمے کا مرکزی موضوع بنا دیا ہے۔

 ایک ایسے وقت میں جب پاکستان داخلی سیاسی بحران، اقتصادی غیریقینی صورت حال، اور سفارتی خاموشی کا شکار تھا، بھارت کی یہ مہم ایک اتفاقیہ موقع بن گئی ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر نہ صرف خود کو ایک پرامن، قانون پر کاربند اور تعمیری ریاست کے طور پر متعارف کرائے بلکہ اپنے حقیقی چیلینجز، قربانیوں اور امن پسندی کو عالمی بیانیے کا حصہ بھی بنائے۔ بین الاقوامی میڈیا میں پاکستان کے بارے میں ’’غیرجانب دارانہ سے مثبت تاثر میں واضح اضافہ‘‘ دیکھا گیا ہے۔

پاکستان کے لیے اب ناگزیر ہے کہ وہ محض رسمی سفارتی بیانات سے آگے بڑھے اور ایک منظم، سائنسی، اور ادارہ جاتی حکمت عملی کے تحت عالمی میڈیا (جیسے CNN، BBC، Sky News)، یونیورسٹیز، تھنک ٹینکس اور ڈاسپورا نیٹ ورکس کو متحرک کرے۔ ڈاسپورا نیٹ ورکس سے مراد وہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی کمیونٹیز ہیں جو اپنے میزبان ملکوں میں پالیسی، میڈیا، اور رائے سازی پر اثر ڈالنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہ نیٹ ورکس پاکستان کی سفارتی soft power کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔

بھارت نے اپنے وفود میں صرف سیاست داں نہیں بلکہ سابق سفیروں، سفارتی ماہرین اور ابلاغی شخصیات کو شامل کر کے بیانیہ سازی کا ایک بھرپور ماڈل پیش کیا ہے۔

پاکستان کے لیے اس وقت چیلینج صرف ردعمل دینا نہیں بلکہ ایک متبادل بیانیہ ترتیب دینا ہے جو مستقل بنیادوں پر پاکستان کے مؤقف کو مضبوط کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ، پاکستان کو بین الاقوامی برادری کو بھارت کی ’’گرے زون‘‘ حکمت عملیوں کے خطرات سے بھی آگاہ کرنا چاہیے، جہاں وہ جوہری حد سے نیچے محدود حملوں کے ذریعے اخراجات عائد کرنے کی کوشش کرتا ہے، جس سے ’’جوہری تباہی کی طرف ایک غلط قدم کے خطرے‘‘ میں اضافہ ہوتا ہے۔

اس وقت دنیا کی نظریں خطے پر مرکوز ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ، پالیسی ادارے، اور تجزیہ کار جنوبی ایشیا کی صورتحال کو باریکی سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ پاکستان کے لیے ایک غیرمعمولی موقع ہے کہ وہ خود کو نہ صرف ایک اہم اسٹریٹجک کھلاڑی کے طور پر پیش کرے بلکہ اپنی دانش، امن پسندی اور سفارتی بلوغت سے ایک نئے عالمی امیج کی بنیاد رکھے۔ بھارت کی الزاماتی سفارت کاری پاکستان کے لیے ایک ایسے کوریڈور کی شکل اختیار کر چکی ہے جو اگر حکمت سے استعمال کیا جائے تو سفارتی تنہائی کو سفارتی مرکزیت میں بدل سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • شیخ رشید کس بات پر رو پڑے؟
  • ’امیت شاہ غنڈہ اور قاتل ہے‘، بی جے پی سینئر رہنما کا اپنی جماعت کے وزیر داخلہ پر الزام
  • غزہ میں نسل کشی بند کرو ورنہ اپنے تابوت تیار رکھو‘حماس کا دوٹوک انتباہ
  • سندھ کا بلدیاتی نظام اپنی ہی حکومت کا کوڑا اٹھانے کے قابل نہیں، عظمیٰ بخاری
  • بھارتی میڈیا اور مودی حکومت آپریشن سندور بارے اپنی ہی عوام کو بے وقوف بناتے رہے ، واشنگٹن پوسٹ کا تہلکہ خیز انکشاف
  • سنڈے اسپیشل : ٹو این ون اسٹوریز
  • معروف پاکستانی ادارکارہمایوں سعیدکا اپنی بیوی کے پاؤں دبانے کا انکشاف
  • ہمایوں سعید اپنی بیوی کے پاؤں کیوں دباتے ہیں؟ اداکار نے خود انکشاف کردیا
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟