ویمن یونیورسٹی کی ویڈیو ٹک ٹاک پر شیئر، ڈپٹی کمشنر صوابی عدالت طلب
اشاعت کی تاریخ: 10th, July 2025 GMT
پشاور ہائیکورٹ نے ویمن یونیورسٹی صوابی کی ویڈیو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹک ٹاک پر شیئر کرنے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کے دوران ڈپٹی کمشنر صوابی اور وائس چانسلر ویمن یونیورسٹی صوابی کو آئندہ سماعت پر طلب کرلیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ویمن یونیورسٹی کی ویڈیو ٹک ٹاک پر شیئر کرنے کے الزام میں عدالت نے ڈپٹی کمشنر صوابی کو طلب کرلیا۔ تفصیلات کے مطابق پشاور ہائیکورٹ نے ویمن یونیورسٹی صوابی کی ویڈیو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹک ٹاک پر شیئر کرنے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کے دوران ڈپٹی کمشنر صوابی اور وائس چانسلر ویمن یونیورسٹی صوابی کو آئندہ سماعت پر طلب کرلیا ہے۔ کیس کی سماعت جسٹس صاحبزادہ اسد اللہ اور جسٹس ڈاکٹر خورشید اقبال پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے کی۔ درخواست گزار کے وکیل محمد حمدان ایڈووکیٹ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ڈپٹی کمشنر صوابی نے بغیر اجازت ویمن یونیورسٹی کی ویڈیو اپنے ذاتی ٹک ٹاک اکاؤنٹ پر شیئر کی، جس سے طالبات کی پرائیویسی متاثر ہوئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ نہ صرف طالبات بلکہ مقامی افراد نے بھی اس اقدام پر اعتراض کیا ہے۔
عدالتی کارروائی کے دوران جسٹس صاحبزادہ اسد اللہ نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا، ’’کیا ہو رہا ہے؟‘‘ جس پر اے اے جی نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے جواب جمع کرایا جا چکا ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ ویمن یونیورسٹی کا اس معاملے پر مؤقف کیا ہے اور وائس چانسلر کیوں پیش نہیں ہوئے؟ وکیل درخواست گزار نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سرکاری نوٹیفکیشن کے مطابق سرکاری افسران کو صرف ایکس (سابقہ ٹویٹر) اور فیس بک کے استعمال کی اجازت ہے، جب کہ یہ نوٹیفکیشن 2018 میں جاری ہوا تھا۔ ان کے مطابق ڈپٹی کمشنر نے 2025 میں اپنے ذاتی ٹک ٹاک اکاؤنٹ پر یونیورسٹی کی ویڈیوز اپلوڈ کیں، جو سراسر خلاف ضابطہ اقدام ہے۔ عدالت نے کیس کی آئندہ سماعت 23 جولائی مقرر کرتے ہوئے وی سی ویمن یونیورسٹی صوابی اور ڈپٹی کمشنر صوابی کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ویمن یونیورسٹی صوابی یونیورسٹی کی ویڈیو ڈپٹی کمشنر صوابی ٹک ٹاک پر شیئر صوابی کو
پڑھیں:
تجاوزات کیخلاف آپریشن، امیرمقام کے ہوٹل سے متعلق ڈپٹی کمشنر کااہم بیان سامنے آگیا
ڈپٹی کمشنر سوات سلیم جان نے کہا ہے کہ وفاقی وزیر امیر مقام کا ہوٹل تجاوزات میں نہیں آتا۔
سوات میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ مینگورہ بائی پاس پر تجاوزات کے خلاف آپریشن قانونی تھا ریونیو ریکارڈ کے مطابق یہ زمینیں شاملاتی ملکیتی تھیں، دریا کے حدود میں آنے والے تجاوزات کو ہٹادیا گیا ملکیتی اراضیات اور این او سی والی عمارتوں کے خلاف آپریشن نہیں کیا۔
ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ سیاحوں کو خوش آمد کہتے ہیں تمام سہولیات فراہم کریں گے، مینگورہ سے کالام تک بلاامتیاز آپریشن کرنے جارہے ہیں لوگوں نے این او سی لیکر بعد میں تجاوزات بنائے، کالام میں 87 ہوٹلوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 2020 میں معاہدے کے باوجود 33 ہوٹلوں نے تجاوزات قائم کئے ہیں، اسپیشل انکوائری کمیٹی ہی سانحہ سوات کی رپورٹ جاری کرے گی، سانحہ کے دوران کشتیوں ،رسیوں کی کمی کا سامنا تھا۔
ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ ڈرون ٹیکنالوجی سمیت دیگر سہولیات کے لئے حکومت کو خط لکھ دیا ہے۔