اسلام ٹائمز: یہ وقت ایسا ہے، جب دوست اور دشمن کا فرق جانچنے کیلئے زبان نہیں بلکہ عمل کو دیکھنا پڑتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم ان مخلص انسانوں کی قدر کریں، انکا ساتھ دیں اور ان سے وفاداری نبھائیں۔ اسی کیساتھ ایسے منافق حسد کرنیوالے اور دو رخی افراد سے ہوشیار رہیں، جو چہرے پر مسکراہٹ سجائے دل میں نفرت چھپائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ آخر میں اللہ تعالیٰ سے یہی دعا ہے کہ وہ ہمیں باطن کی بیماریوں سے محفوظ رکھے۔ ہمیں ایسے لوگوں کی صحبت سے بچائے جو دوسروں کی خوشیوں سے جلتے ہیں اور ہمیں بھی حسد، کینہ، نفرت اور الزام تراشی جیسے مہلک امراض سے نجات عطا فرمائے۔ تحریر: آغا زمانی
ہم ایک ایسے دور میں سانس لے رہے ہیں، جہاں سچائی کمزور اور ظاہرداری غالب ہوچکی ہے۔ لوگوں کی زندگیوں میں جھانکنے، ان کی کمزوریاں تلاش کرنے اور سنی سنائی باتوں کو بغیر تحقیق کے آگے بڑھانے کا چلن عام ہوچکا ہے۔ کسی کی سچائی جاننے کی زحمت کوئی نہیں کرتا، بات محض اتنی سی نہیں رہتی بلکہ ان کہی باتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا اپنی طرف سے کہانیاں گھڑ لینا اور دوسروں کی کردار کشی کو تفریح سمجھ لینا آج کے مہذب معاشرے کا ایک ستم ظریف رویہ بن چکا ہے۔ عمومی طور پر معاشرے میں خواتین پر یہ تہمت دھری جاتی ہے کہ وہ غیبت اور بہتان تراشی میں زیادہ ملوث ہوتی ہیں، لیکن اگر حقیقت کی آنکھ سے دیکھا جائے تو آج کل کے مرد بھی اس دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں۔ بعض مرد حضرات تو اس میدان میں اس قدر ماہر ہوچکے ہیں کہ خود کو ناصح اور باعمل ظاہر کرتے ہیں، مگر اندر سے کینہ، حسد اور خود غرضی کی آگ میں جھلس رہے ہوتے ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں، جو آپ کے قریب ہو کر ہمدردی کا نقاب اوڑھتے ہیں، محبت اور اخلاص کی باتیں کرتے ہیں، لیکن آپ کی پیٹھ پیچھے زہر گھولنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ آپ کی ترقی کامیابی اور عزت انہیں کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے۔ ان کا کام کسی کا بھلا نہیں بلکہ دوسروں کا کام بگاڑنا، تعلقات خراب کرنا اور ذہنوں میں شکوک و شبہات بھرنا ہوتا ہے۔ حیرت اس وقت ہوتی ہے، جب یہی لوگ تقویٰ، قناعت اور سادگی کا درس دیتے ہیں، مگر کسی صاحبِ ثروت یا بااثر شخصیت کے سامنے جھکنے میں اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ چاپلوسی اور خوشامد کی حدیں عبور کر دیتے ہیں۔ وہی شخص جو لوگوں کو تلقین کرتا ہے کہ دنیا کی محبت سے بچو، خود دنیا والوں کے قدموں میں بچھا ہوتا ہے۔ جن کے پاس سب کچھ ہوتا ہے، وہ بھی ایسی اداکاری سے روتے نظر آتے ہیں، جیسے کہ زمانے کے سب سے مظلوم و محروم ہوں۔ یہی وہ دور ہے، جسے خطرناک ترین زمانہ کہا جا سکتا ہے، جہاں اپنوں میں چھپے غیروں کو پہچاننا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔
ہمیں اب ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہے۔ صرف چہرے کی خوبصورتی کو معیار نہ بنائیں، کیونکہ کئی روشن چہروں کے پیچھے دل سیاہ ہوتے ہیں۔ کئی مسکراتے چہروں کے پیچھے دلوں میں نفرت، بغض، حسد اور کینہ کی آگ بھڑک رہی ہوتی ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہر اندھیرے میں کچھ چراغ ضرور ہوتے ہیں۔ اس مشکل اور پرفریب دور میں بھی کچھ لوگ ایسے ضرور ہوتے ہیں، جو آپ کے لیے مخلص ہمدرد اور خیر خواہ ہوتے ہیں۔ وہ نہ آپ کی کامیابی سے جلتے ہیں، نہ آپ کی خوشی سے خفا ہوتے ہیں۔ وہ آپ کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں، آپ کے دکھ بانٹتے ہیں اور آزمائش کے وقت آپ کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ آپ کے چاہنے والے ہوتے ہیں۔ بے غرض، بے لوث اور بے مثال۔ مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کا ایک عظیم قول ہے، "آزمائش کے وقت اپنوں میں چھپے غیر اور غیروں میں چھپے اپنے پہچانو۔"
واقعی، یہ وقت ایسا ہے، جب دوست اور دشمن کا فرق جانچنے کے لیے زبان نہیں بلکہ عمل کو دیکھنا پڑتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم ان مخلص انسانوں کی قدر کریں، ان کا ساتھ دیں اور ان سے وفاداری نبھائیں۔ اسی کے ساتھ ایسے منافق حسد کرنے والے اور دو رخی افراد سے ہوشیار رہیں، جو چہرے پر مسکراہٹ سجائے دل میں نفرت چھپائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ آخر میں اللہ تعالیٰ سے یہی دعا ہے کہ وہ ہمیں باطن کی بیماریوں سے محفوظ رکھے۔ ہمیں ایسے لوگوں کی صحبت سے بچائے جو دوسروں کی خوشیوں سے جلتے ہیں اور ہمیں بھی حسد، کینہ، نفرت اور الزام تراشی جیسے مہلک امراض سے نجات عطا فرمائے۔ آمین
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ہوتے ہیں
پڑھیں:
کوویڈ کے دوران بابا نے اسکول کھولنے کا فیصلہ کیا تو ہمیں دھمکیاں موصول ہوئیں: تارا محمود
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) پاکستان شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ تارا محمود نے اپنے والد کے سیاسی پس منظر کو چھپائے رکھنے کی وجہ پر سے پردہ اُٹھا دیا۔
حال ہی میں اداکارہ نے ساتھی فنکار احمد علی بٹ کے پوڈ کاسٹ میں بطور مہمان شرکت کی، جہاں انہوں نے مختلف امور پر کھل کر بات چیت کی۔
دورانِ انٹرویو انہوں نے انکشاف کیا کہ میرے قریبی دوست احباب یہ جانتے تھے کہ میں شفقت محمود کی بیٹی ہوں اور ان کا سیاسی پس منظر کیا ہے لیکن کراچی میں یا انڈسٹری میں کسی نہیں ان کے بارے میں معلوم نہیں تھا۔
انہوں نے بتایا کہ جب میں نے شوبز میں کام شروع کیا تو مجھے کراچی آنا پڑا، اس دوران والد نے سیکیورٹی خدشات کے سبب مشورہ دیا کہ بہتر ہوگا کہ کسی کو بھی اس بارے میں نہ بتایا جائے۔ تاہم ڈرامہ سیریل چپکے چپکے کی شوٹنگ کے دوران سوشل میڈیا پر والد کے ساتھ تصاویر وائرل ہوگئیں۔
اداکارہ نے کہا کہ والد کے ساتھ تصاویر وائرل ہوئیں تو تھوڑی خوفزدہ ہو گئی تھیں کیونکہ مجھے توجہ کا مرکز بننا نہیں پسند۔
انہوں نے بتایا کہ کوویڈ کے پہلے سال کے دوران وبائی مرض کے سبب اسکول بند کرنے پڑے تو بابا ہیرو بن گئے تھے لیکن جب انہوں نے دوسرے سال اسکول کھولنے کا فیصلہ کیا تو ہمیں کئی دھمکیاں بھی موصول ہوئیں۔
تارا محمود نے چپکے چپکے کے سیٹ پر پیش آنے والا ایک دلچسپ قصہ سناتے ہوئے بتایا کہ جب یہ بات منظر عام پر آئی کہ میرے والد کون ہیں تو ایک دن میں شوٹ پر جاتے ہوئے اپنی گاڑی خود چلاتے ہوئے سیٹ پر پہنچی تو ہدایتکار دانش نواز مجھ سے مذاق کرتے ہوئے کہنے لگے کہ سیاسی خاندان سے تعلق ہونے کے باوجود سیکیورٹی کیوں نہیں رکھتیں اور خود گاڑی کیوں چلاتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ میں نے کبھی بھی اپنے والد کے اثر و رسوخ یا طاقت کو ذاتی فائدے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی۔
واضح رہے کہ تارا محمود کے والد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دور حکومت میں وفاقی وزیر تعلیم کے عہدے پر فائز رہنے والے شفقت محمود ہیں۔
انہیں طلبہ کے درمیان کوویڈ کے دوران امتحانات منسوخ کرنے اور تعلیمی ادارے بند کرنے کے سبب شہرت حاصل ہوئی۔
فلم میں رہے کہ شفقت محمود نے جولائی 2024 میں سیاست سے ریٹائر ہونے کا اعلان کیا تھا۔
Post Views: 5