ایئرانڈیا کی ساکھ کیسے بحال ہو؟ بھارتی حکومت اور ایئرلائن نے سر جوڑ لیے
اشاعت کی تاریخ: 26th, July 2025 GMT
حالیہ حادثات اور ریگولیٹری نگرانی کے بعد، ٹاٹا گروپ اور وزارتِ ہوا بازی ایئر انڈیا کی بحالی کے لیے اعلیٰ سطح پر غور و فکر میں مصروف ہیں۔
ٹاٹا سنز کے چیئرمین این چندرشیکھرن نے جمعہ کو وفاقی وزیرِ ہوا بازی رام موہن نائیڈو اور سیکریٹری سمیر کمار سنہا سے ملاقات کی۔
یہ بھی پڑھیں:ایئر انڈیا طیارہ حادثہ: بھارت نے برطانوی خاندانوں کو غلط لاشیں بھیج دیں
یہ میٹنگ 3 روزہ تفصیلی مشاورت کے بعد ہوئی جس میں ایئرلائن کے سی ای او کیمبل ولسن اور حکومت کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی تھی۔
بھارتی میڈیا کے مطابق ان اجلاسوں میں دیکھ بھال، قیادت، اور مواصلاتی حکمت عملی جیسے مسائل پر کھل کر بات ہوئی۔
چندرشیکھرن نے حکومت کو AI 171 کے مہلک حادثے کے بعد ایئر انڈیا کی جانب سے کیے گئے حفاظتی اقدامات سے آگاہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مقصد یہ ہے کہ مسافروں کا اعتماد دوبارہ حاصل کیا جائے۔
اجلاس میں فوری توجہ کے لیے جن شعبوں کی نشاندہی کی گئی ان میں طیاروں کی پرواز کے قابل ہونے کی حالت، انجینئرنگ، اور مرمت شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:دہلی ایئرپورٹ پر ایئر انڈیا کے طیارے میں آگ بھڑک اٹھی
متعدد افراد کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ ’کلچر‘ کا ہے۔ گزشتہ نومبر میں وستارا کو ایئر انڈیا میں ضم کیا گیا، جبکہ ہونا اس کے برعکس چاہیے تھا۔ دونوں کمپنیوں کا کلچر مختلف ہے اور اب ایئر انڈیا انضمام کے بعد کے مسائل کا شکار ہے۔ اصل مسئلہ آپریشنز نہیں، بلکہ انجینئرنگ اور دیکھ بھال کا ہے۔
سنگاپور ایئرلائنز (SIA) جو کہ ایئر انڈیا میں 25.
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایئرانڈیا ٹاٹا گروپ سنگاپور ایئرلائنذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایئرانڈیا سنگاپور ایئرلائن ایئر انڈیا انڈیا کی کے بعد
پڑھیں:
بی جے پی حکومت نے سینکڑوں بنگالی نژاد مسلمان ملک بدر کر دیے، ہیومن رائٹس واچ
ذرائع کے مطابق ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ جن لوگوں کو بنگلہ دیش بھیجا گیا ان میں سے بیشتر بنگلہ دیش سے متصل بھارتی ریاستوں کے شہری ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ”ہیومن رائٹس“ واچ نے کہا ہے کہ بھارتی حکام نے حالیہ عرصے میں سینکڑوں بنگالی نژاد مسلمانوں کو بغیر کسی قانونی کارروائی کے غیر قانونی تارکین وطن قرار دیا اور انہیں ملک بدر کر کے بنگلہ دیش بھیج دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ جن لوگوں کو بنگلہ دیش بھیجا گیا ان میں سے بیشتر بنگلہ دیش سے متصل بھارتی ریاستوں کے شہری ہیں۔ ایچ آر ڈبلیو اور انسانی حقوق کی کئی دیگر تنظیموں نے انکشاف کیا ہے کہ رواں برس مئی سے ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کی زیر قیادت حکومت نے بنگالی مسلمانوں کو بنگلہ دیش بھیجنے کی کارروائی تیز کر دی ہے۔ ایک بھارتی اردو اخبار روزنامہ ”منصف“ کی خبر میں کہا گیا ہے کہ ہیومن رائٹس واچ نے زور دیکر کہا ہے کہ بی جے پی حکومت کے یہ اقدامات قانونی تقاضوں کی خلاف ورزی اور امتیازی سلوک کے مترادف ہیں۔ تنظیم کی ایشیائی امور کی ڈائریکٹر ایلن پیئرسن Elaine Pearson نے کہا کہ بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی بھارتی مسلمانوں کیخلاف امتیاز کو ہوا دے رہی ہے اور بنگالی مسلمانوں کو بغیر کسی قانونی جواز کے بے دخل کر رہی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے جون میں اٹھارہ افراد کے انٹرویو کیے جن میں متاثرہ افراد اور ان کے اہلخانہ شامل تھے۔ انسانی حقوق کی تنظیم نے بھارتی وزارت داخلہ کو 8 جولائی کو بنگالی نژاد مسلمانوں کی بلاجواز بے دخلی کے بارے میں لکھا لیکن اس نے تاحال کوئی جواب نہیں دیا ہے، بھارت نے بے دخل کیے گئے افراد کی تعداد بھی نہیں بتائی تاہم بنگلہ دیشی بارڈر گارڈز کے مطابق 7 مئی سے 15 جون کے درمیان 15سو سے زائد مسلم مرد، خواتین اور بچوں کو بنگلہ دیشن کے اندر دھکیلا گیا۔ آسام، اترپردیش، مہاراشٹر، گجرات، اڈیسہ، راجستھان جیسی بی جے پی کی زیر قیادت ریاستوں میں بنگالی بولنے والے غریب مسلمان مزدوروں کو گرفتار کیا گیا اور بغیر شہریت کی تصدیق کے بنگلہ دیش بھیج دیا گیا، کئی لوگوں کے فون، شناختی دستاویزات اور دیگر سامان ضبط کیا گیا۔
ریاست آسام کے ایک استاد خیر الاسلام نے بتایا کہ 26مئی کو ان کے ہاتھ باندھ کر اور منہ بند کر کے 14 افراد کے ساتھ زبردستی سرحد پار بھیجا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جب میں نے جانے سے انکار کیا تو بی ایس ایف کے ایک اہلکار نے مجھے مارا اور ڈرانے دھمکانے کیلئے چار بار ہوا میں گولیاں چلائیں۔ بی جے پی حکومت نے مئی میں آسام کی ایک جیل سے 100روہنگیا پناہ گزینوں کو بھی بنگلہ دیش بھیجا۔ بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ نے 8 مئی کو بھارت کو ایک خط لکھا جس میں زبردستی دھکیلے جانے والے افراد کو ناقابل قبوں قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ صرف ان لوگوں کو قبول کیا جائے گا جو باضابطہ طور پر تصدیق شدہ بنگلہ دیشی شہری ہوں۔